Jasarat News:
2025-01-18@10:10:00 GMT

برطانیہ میں نسلی تعصب اور اسلامو فوبیا!

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

برطانیہ میں نسلی تعصب اور اسلامو فوبیا!

وزارت خارجہ کے ترجمان نے برطانیہ میں نسل پرستانہ اور اسلامو فوبیا پر مبنی بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کی دوستی گرم جوشی، خوشگوار تعلقات، مضبوط تعاون اور اعتماد پر مبنی ہے، ہم برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستانہ اور اسلامو فوبیا پر مبنی سیاسی اور میڈیا تبصروں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کا مقصد چند افراد کے قابل مذمت اقدامات کو پورے 1.

7 ملین برطانوی پاکستانی تارکین وطن سے جوڑنا ہے۔ ادھر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے ایلون مسک کے اسلامو فوبیا پر مبنی بیانات پر سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایلون مسک مسلسل اسلامو فوبیا پر مبنی مہم چلا رہے ہیں، یہ ایک گروہ ہے جس میں دوسرے ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ایلون مسک اور ان سے جڑا گروہ اپنے مذموم مقاصد کو صرف اور صرف پاکستان اور اسلام سے جوڑ رہے ہیں جو کہ ان کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا بیان سوشل میڈیا پر اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کی منظم مہم کا حصہ ہے۔ برطانوی حکومت کو اسلامو فوبیا پر مشتمل نفرت انگیز مہم روکنے کے لیے ایکشن لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج برطانیہ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور جس طرح مختلف حلقوں کی جانب سے نسل پرستانہ خیالات کا اظہار، مسلم کمیونٹی سینٹرز کی توڑ پھوڑ، مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا گیا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ رونما ہونے والی اس پوری صورتحال کا آغاز اس وقت ہوا جب جولائی 2023 میں برطانیہ کے ساؤتھ پورٹ میں تین کم عمر بچیوں کو قتل کردیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جاتیں، اس بہیمانہ قتل کے پیچھے ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا مگر قبل اس کے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت کرتے واقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نسل پرست گرہوں نے مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کردیا، سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر غلط اور بے بنیاد اطلاعات پھیلائی گئیں، یہاں تک کہا گیا کہ قتل کرنے والے کا تعلق پاکستان سے ہے، قاتل دہشت گردوں کے گروہ سے ہے، اس گمراہ کن پروپیگنڈے کے نتیجے میں برطانیہ کے متعدد شہروں اور شمالی آئر لینڈ میں فسادات پھوٹ پڑے، لیورپول، برسٹل، ہل اور سٹوک آن ٹرینٹ سمیت ملک بھر کے شہروں کے ساتھ ساتھ بلیک پول شہر میں پرتشدد افراتفری پھیل گئی۔ ان واقعات میں مسلمانوں کی دکانوں، کاروباری مراکز میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی، لیور پول میں لائبریری کوآگ لگائی گئی۔ مسلمانوں پر گرومنگ گینگز میں ملوث ہونے کے قبیح الزامات لگائے گئے المیہ یہ ہے کہ جس واقعے پر اتنا ہنگامہ برپا کیا گیا کہ برطانیہ میں مقیم مسلمان عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہو گئے لندن کے میئر صادق خان تک کو کہنا پڑا کہ میں برطانیہ میں بطور مسلم سیاستدان کے خود کو محفوظ نہیں سمجھتا، اس کی حقیقت یہ نکلی کہ قتل کے الزام میں ملوث فرد برطانیہ میں پیدا ہوا اور مسیحی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 9/11 کے بعد ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو مجروح کرنے اور تعصب برتنے کا کھیل جاری ہے، اور گزرتے وقت کے ساتھ اس میں تیزی آرہی ہے، برطانیہ میں بھی مسلمانوں کو دہشت گردوں سے نتھی کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اسلامو فوبیا میں بھی اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والی حالیہ صورتحال کو محض کسی ایک واقعہ کا ردعمل اور سوشل میڈیا کا منفی پروپیگنڈا کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مغرب میں ایک منظم سازش اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام ومسلم دشمنی پر مبنی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کبھی ناروے میں قرآن مجید جلایا جاتا ہے، کبھی گستاخانہ ٹوئٹس کیے جاتے ہیں، کبھی فرانس کی سرکاری عمارتوں پر گستاخانہ خاکے آویزاں کیے جاتے ہیں، کبھی سوئیڈن میں مسجد اور قرآن کی بے حرمتی کی جاتی ہے، کبھی ڈنمارک میں قرآن جلانے کی اجازت دی جاتی ہے، کبھی نیوزی لینڈ کی مسجد کے باہر فائرنگ کر کے مسلمانوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے، کبھی کینیڈا میں نمازی پر گاڑی چڑھا دی جاتی ہے، کبھی گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کرائے جاتے ہیں اور کبھی امریکا میں امام مسجد کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور مسلسل ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے باہمی منافرت بڑھے اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسلاموفوبیا کو ایک جرم تسلیم کرتے ہوئے ہر سال 15 مارچ کو ’’اسلامو فوبیا ڈے‘‘ منانے کی قرارداد منظور کی، مگر یورپ آج بھی اسلامو فوبیا کا شکار ہے وہ اسے جرم سمجھنے کے لیے کسی طور تیار نہیں بلکہ اس کا سارا طرز عمل اس امر کا غماض ہے کہ وہ اسے جرم کے بجائے ثواب سمجھتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ٹیکنالوجی کے بے تاج بادشاہ ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر جلتی پر تیل کا کام کیا، انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر گرومنگ گینگز کو مسلمانوں کا مسئلہ قراردے کر اسلام مخالف جذبات کی لہر کو پھونک پھونک کر مزید ہوا دی، اور ساتھ ہی ساتھ برطانوی سیاست دانوں بالخصوص کیئر اسٹارمر اور جیس فلپس پر ریپ جینو سائیڈ کی حمایت کے الزامات عائد کر کے انہیں برطانیہ میں ریپ کے سہولت کارقرار دیا، یہ طرز عمل قطعاً ان کے شایان شان نہیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی خدمات اور تخلیقی صلاحیتوں کا کون انکار کرسکتا ہے، وہ کئی کمپنیوں کے بانی، مالک، اور لیڈر ہیں، اور ان کے کارنامے ٹیکنالوجی، توانائی، خلائی تحقیق، اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں نمایاں ہیں، وہ ایک جہانِ نو تخلیق کر رہے ہیں دنیا میں بعض افراد کے لیے وہ رول ماڈل بھی ہیں، وہ مریخ کو بھی تسخیرکر کے وہاں انسانی کالونیاں بنانے کی آرزو بھی اپنے سینے میں رکھتے ہیں، مگر اس نوع کے بیانات سے وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ کیا مریخ جانے کی اجازت بھی وہ رنگ، نسل اور مذہب دیکھ کر دیں گے؟ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تعصب کی اس مسموم فضامیں تو ٹیکنالوجی پھل پھول نہیں سکتی، ٹیکنالوجی انسانیت کی فلاح کے لیے ہوتی ہے، انسانی اقدار اور ثقافتی ہم آہنگی کو مسمار کرکے محض ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تخلیق کی جانے والی دنیا زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی۔ برطانیہ میں نسل پرستانہ سیاسی بیانات اور اسلامو فوبیا کی لہرکو اگر فوری طور پر روکنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو مختلف نسلی و مذہبی گروہوں کے درمیان اختلاف اور کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا جس سے مختلف کمیونیٹیز کے درمیان پائی جانے والی ثقافتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پوری صورتحال کا از سر نو جائزہ لیا جائے، ایسے عملی، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں جن سے نسلی تعصب کا خاتمہ ہو، اس کے ساتھ ساتھ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلائی جانے والی افواہ سازیوں اور کذب بیانیوں کا بھی نوٹس لینا چاہیے، آزادیِ اظہار رائے اور شخصی آزادی کا کوئی بھی مخالف نہیں ہو سکتا، مگر ایک حد سے بڑھی ہوئی آزادی، آزادی نہیں رہتی انارکی بن جاتی ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامو فوبیا پر مبنی اور اسلامو فوبیا نسل پرستانہ برطانیہ میں سوشل میڈیا اور اسلام ایلون مسک جاتے ہیں جاتی ہے رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

بی جے پی حکومت برقرار رکھنے کیلیے مسلم دشمنی کے ہتھکنڈے استعما ل کرتی ہے

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) بی جے پی اپنی حکومت کو برقرار رکھنے اور اپنے سیاسی عزائم کو ممکن بنانے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا تاکہ ہندو قوم پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے اپنی سیاست اور حکومت کو استحکام دے سکے۔ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہ بین القوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں اورسندھ ہائی کورٹ کی ممتاز وکیل ڈاکٹر عنبر مہرایڈووکیٹ نے جسارت کے سوال’’ بھارت میں بڑھتی ہو ئی مسلم دشمنی کے محرکات کیا ہیں‘‘؟میں کیا۔پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ بھارت میں اکثر اوقات فسادات اور جھڑپیں تشویش کا باعث ہیں‘ اس کی بنیادی وجہ حکمران جماعت بی جے پی اور ہندو قوم پرست ہیں‘ پچھلے دنوں ریاست ہریانہ میں قوم پرست ہندوؤں کے ایک گروپ نے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں مذہبی جلوس کے دوران فسادات کو بھڑکایا ‘اس تازہ واقعے میں نوح کے علاقے کا تشدد دیگر مختلف علاقوں تک پھیل گیا تھا، جہاں ایک ہندو ہجوم نے مسجد کو آگ لگا دی تھی اورامام مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ جبکہ دوسری طرف حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ جن املاک کو نقصان پہنچا ہے وہ غیر قانونی طور پر بنائے گئے مکانات تھے جن کا انہدام کیا گیاہے۔ عام طور پر بی جے پی حکومت میں اس طرح کا اقدام فسادات کے بعد
کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا جاسکے۔ انہدام کی جانے والی عمارتوں کی تعداد تقریباً 750 سے زائد ہو گئی تھی جس کے بعد ریاست کے ہائی کورٹ نے کارروائی روکنے کا حکم دیا۔ سخت گیر ہندو تنظیموں کی جانب سے بار بار ایسے واقعات دہرانے کا مطلب مسلمانوں کو اکسانا اور انہیں دہشت زدہ کرنا ہے۔ خاص طور پر جلوسوں میں ایسے نعروں کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔بی جے پی بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتی ہے جس میں ہندوؤں کو تمام حقوق حاصل ہوں اور اقلیت ان کے ماتحت ہو۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بی جے پی حکومت نے دیگر اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ منظم امتیازی سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کی ممتاز وکیل ڈاکٹر عنبر مہرایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر زمانہ ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو ”مغل بادشاہوں کی حکومت کو ہندو قوم پرست حلقے ”غاصبانہ” تصور کرتے ہیں”۔1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان جونفرت کا ایسابیج، بویا گیاو جو آج بھی بھارت میں بعض جگہوں پر برقرار ہے۔مسلمانوں کی یہ ذہنیت بن گئی ہے یا بنا دی گئی ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے۔ چونکہ بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا اس لیے جو مسلمان انڈیا میں رہ گئے ان میں یہ احساس اچھی طرح سے تھا کہ انھیں ہندوؤں کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ رہنا ہے۔اور اگر مسلمان اپنی آبادی کے گمان پر ایک اور مسلم پارٹی بناتے ہیں تو اس کا حشر پھر سے ایک اور پاکستان ہو سکتا۔اسی لیے مسلمانوں کے سرکردہ رہنما اور مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کو بھی ملک بھر کے مسلمانوں کی جانب سے حمایت حاصل نہیںہے۔ بھارتی مسلم نے بھارت کی ترقی وتعمیر اوربھلائی کے لیے مختلف پارٹیوں”جنتادل ”،لالو پرشاد کی پارٹی،کانگریس پارٹی،مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کا ساتھ دیالیکن وہ اپنی ذات برادری کے لیے سیاست کرتے رہے اور مسلم پر مذہب کی چھاپ گہری ہوتی گئی،اور آج مودی جیسا لیڈر ہی ان کا مخالف ہے۔ کیونکہ بڑی وجہ ہندو قوم پرستی پر مبینہ نظریہ، جس کی قیادت آر ایس ایس اور نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کرتی ہیں،وہ بھارت کو ایک ”ہندو ریاست” بنانے پر زور دیتی ہے۔ اس نظریے کے تحت مسلمانوں کو ”غیرمکی” یا ”دوسرے درجے کے شہری” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کا جینا دشوار ہے۔خاص طور پر دیہاتی پسماندہ علاقوں میں حالات بہت کشیدہ ہیں۔بھارت کے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں، جس سے امتیاز اور تعصب میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کے خلاف منفی تصورات کو بڑھایا دیا جاتا ہے۔ تین طلاق، حجاب، اور دیگر مسائل کو اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلم کمیونٹی کو بدنام کیا جاسکے۔ مسلم کی علیحدہ ثقافتی اور مذہبی شناخت کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نفسیاتی طور پر ہندوؤں کو ڈرانا کہ مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ مستقبل میں”ہندو اکثری” کو اقلیت میں بدل دیں گے۔ جس سے ان میں قوم پرستی کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ”ریڈیکل اسلام” کے نمائندہ کے طور پر پیش کرکے خوف کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا چینلز میں مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں، دہشت گردی، غداری، یا ملکی سلامتی کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنا عام ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی نفرت انگیز مواد کی بھرمار ہے، جو مسلم دشمنی کو ہوا دیتا ہیں یہاں تک کہ ان کے تعلیمی نظام میں تاریخ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو ”غاصب” اور”ظالم” کے بتایا جاتا ہے جس سے بچپن ہی سے ہندوؤں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے لیے نفرت جیسا جذبہ فروغ پاتا چلا جاتا ہے۔ اور بچے اپنے ہم جماعت مسلمان کو ”نالی کا کیڑا” یاگائے کے گوشت کو کاروبار کے حوالے سے تاجر حضرات کو تشددکا نشانہ بنانا، بابری مسجدکی جگہ مندر ہونے کا دعوی دائر کرنا، مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر سے منسوب سنبھل کی جامع مسجدکے نیچے مندر، بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے ساتھ ساتھ اجمیر کی درگاہ پر بھی مندر ہونے کا دعوی کرنا، اور تو اور ریاست اتر پردیش کے شہر مراد آباد میں مسلمان ڈاکٹر میاں بیوی کا ہندو ہمسائیوں کے احتجاج کے باعث اپنا مکان بیچنا، مسلمانوں کو قتل کرتے وقت وڈیو بنانا اور وائرل کرنا بھارتیوں کی مسلمانوں سے شدید نفرت کی واضح مثالیں ہیں۔ فرقہ ورانہ فسادات میں بھارتی پولیس اکثرمسلم مخالف رویہ اختیار کرتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا اثر بھارتی مسلمانوں پر بھی پڑتا ہے، اور انہیں اکثر ”پاکستانی” یا ”غدار” کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے مربوط اقدامات اور تمام سماجی، سیاسی، اور تعلیمی سطحوں پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر عوامی شعور، قانون کی حکمرانی، اور بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کیا جائے تو اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہماری کابینہ میں کبھی بند لفافہ نہیں آیا، وزیر اطلاعات عطاء تارڑ
  • ہماری کابینہ میں کبھی بند لفافہ نہیں آیا، عطاء اللہ تارڑ
  • کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، امانت اللہ خان
  • پہلا وزیراعظم ہے جسے رشوت لینے پر نکالا گیا: مریم نواز
  • بی جے پی حکومت برقرار رکھنے کیلیے مسلم دشمنی کے ہتھکنڈے استعما ل کرتی ہے
  • گریٹر اسرائیل کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا ٗ جاوداں فہیم
  • لاس اینجلس کی آگ! کیا واقعی اللہ کا عذاب ہے؟
  • پاکستان کبھی باضابطہ اتحادی نہیں رہا،لیکن ایک مضبوط شراکت دار ہے،امریکا
  • قابض افواج کبھی ہمارے عوام اور مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتی، خلیل الحیہ
  • پاکستان کبھی باضابطہ اتحادی نہیں رہا لیکن ایک مضبوط شراکت دار ہے؛ وائٹ ہاؤس