نیشنل ایکشن پلان مدارس کیخلاف ہے،کیسے قبول کرلوں؟ فضل الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
وہاڑی( خبر ایجنسیاں)سربراہ جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگرمدارس نہ ہوتے تونظریہ پاکستان دفن کردیا جاتا۔وہاڑی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے سروں پرپگڑیاں سرجھکانے نہیں ،اونچا کرنے کے لیے پہنی ہیں، علما کرام کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مذہبی قیادت نے ہمیشہ ہم آہنگی کوآگے بڑھایا، اگرمدارس نہ ہوتے تونظریہ پاکستان دفن کردیا جاتا، ہمیں نشانہ بنایا گیا لیکن انہیں کچھ نہیں کہا جوتعصبات پھیلاتے ہیں۔سربراہ جمعیت علما اسلام کا کہنا تھا کہ شرعی عدالت کے فیصلوں کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی، شرعی عدالت کا اپنا جج توچیف جسٹس تک نہیں بن سکتا، ہم سود کے خاتمے کی آئینی ترمیم لانے میں کامیاب ہوئے، 26ویں ترمیم میں سود کے خاتمے نے شرعی عدالت کوطاقت دی ہے۔مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان دینی مدارس کے خلاف ہے، کیسے قبول کر لوں؟ جبکہ بلوچستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مریض آج بھی علاج کے لیے کراچی جاتا ہے، اس طرح ملک نہیں چلے گا، یہ ملک ہمارا ہے، تمہارے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
معاشی کامیابیاں اور کچھ رکاوٹیں
کچھ عرصہ پہلے اور یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جاتی تھی لیکن خدائے بزرگ و برتر کا شکر ہے کہ موجودہ حکومت اور آرمی چیف کی کوششوں سے پاکستان اب اس خطر ناک صورت حال سے نکل کر معمول کی حالت میں آ چکا ہے ۔ پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور چند ماہ پہلے جو چالیس ہزار پوائنٹس پر تھی آج وہی ہنڈرڈ انڈیکس 1لاکھ سترہ اٹھارہ ہزار کو کراس کر چکا ہے اور ابھی چند دن پہلے عالمی بنک اور معاون اداروں نے10سالہ کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت 40ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت عالمی بنک اور معاون ادارے جن میں انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے ) اور انٹر نیشنل بنک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی بی آر ڈی) کے تحت بیس ارب ڈالر کی معاونت کی جائے گی جبکہ مجموعی طور پر 40ارب ڈالر دیئے جائیں گے ۔ یہ رقم تعلیم ، صحت ، توانائی اور دیگر شعبوں میں لگائی جائے گی اور یہ اس صورت حال میں کہ جب کچھ لوگ” صبح ڈیفالٹ شام ڈیفالٹ میری سیاست کا ہے کام ڈیفالٹ “ کاراگ الاپ رہے تھے اس میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ یہ بیرون ملک سے کامیابی ہے تو اندرون ملک بھی حکومت معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے لئے کوشاں ہے۔ گذشتہ ہفتہ وزیر اعظم نے کراچی میں کسٹم کلیئرنس کے حوالے سے فیس لیس سسٹم کا افتتاح کیا جس کی وجہ سے کسٹم کلیئرنس کا وقت 119گھنٹے سے کم ہو کر کم و بیش 20گھنٹے پر آ گیا ہے اور اس میں اصل بات کرپشن کے خاتمہ کی بھی ہے کہ کسٹم افسران کے سامنے جس کارگو کے جو بھی کاغذات کلیئرنس کے لئے کمپیوٹرکی سکرین پر آئیں گے تو ان کسٹم افسران کو بھی علم نہیں ہو گا کہ یہ کس امپورٹر کے ہیں لیکن کچھ لوگ حکومت کی ان تمام کاوشوں پر پانی پھیرنے کا کام بھی کر رہے ہیں ۔ کسٹم کلیئرنس کے حوالے سے مدر پورٹ کراچی ہے لیکن حکومت نے اندرون ملک درآمدی اور برآمدی مال کی کلیئرنس کی سہولت کے لئے بڑے شہروں میں ڈرائی پورٹس بنائے ہیں ۔جس کارگو کو اندرون ملک آنا ہوتا ہے اس کے لئے کراچی کسٹم میں ٹی پی یعنی ٹرانزٹ پاس فائل کی جاتی ہے اور اس کے بعد بانڈڈ کیریئرکے ذریعے اسے ڈرائی پورٹ پر لایا جاتا ہے ۔ سامان کی حفاظت اور کسی گڑبڑ سے بچنے کے لئے حکومت ہر گاڑی کے ساتھ ٹریکر سسٹم کا استعمال کر رہی تھی لیکن اب اچانک ٹریکر کمپنی سے معاہدہ ختم کر دیا اور ایک عجیب و غریب کانوائے سسٹم شروع کیا کہ پندرہ گاڑیاں ایک قافلے کی شکل میں جائیں گی ۔ اس سے یہ ہوا کہ ایک کنٹینرائزڈ کارگو جو جہاز لگنے کے چار دن بعد لاہور پہنچ جاتا تھا اب وہ دس دن میں پہنچ رہا ہے جس سے امپورٹرزکو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے ۔
اب ہوتا کیا ہے کہ جب کوئی بھی جہاز درآمدی کارگو لے کر کراچی کی بندر گاہ پر پہنچتا ہے تو کراچی پورٹ پر چند دن فری ہوتے ہیں اور یہ چند دن چار چھ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ہوتے ۔ اس دوران اگر متعلقہ کارگو کی بر وقت کسٹم کلیئرنس ہو جائے تو ٹھیک ورنہ اگر کسی بھی وجہ سے مال پورٹ پر پڑا رہتا ہے تو فری دن گذرنے کے بعد اس کارگو پر بھاری سٹوریج پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور یہ مال کے حجم اور وزن کے حساب سے لیا جاتا ہے لیکن اگر کارگو کنٹینر کی شکل میں ہے اور یہ کسی بھی وجہ سے چاہے اس میں قصور کسٹم حکام کا ہی ہو ، فری ایام میں کلیئر نہیں ہوتا تو اس پر دوہرا سرچارج پڑنا شروع ہو جاتا ہے ایک تو وہ جو کراچی پورٹ ٹرسٹ اتھارٹی کی جانب سے یا جہاز جس برتھ پر لگا ہے وہ جس کے
پاس ہے ان کی جانب سے سرچاج لگتا ہے اور دوسرا کنٹینر جس شپنگ کمپنی کی ملکیت ہوتا ہے وہ بھی چند دن بعد اس کنٹینر پر ڈیٹینشن کے نام پر ڈالروں میں امپورٹر سے چارج کرنا شروع کر دیتی ہے جو بیس اور چالیس فٹ کنٹینر پر فری ایام کے بعد ابتدائی طور پر بیس ڈالر اور چالیس ڈالر یومیہ کے حساب سے چارج کئے جاتے ہیں جبکہ کارگو کی کلیئرنس میں اگر مزید تاخیر ہو جائے تو یہ سو ڈالر یومیہ تک بھی چلے جاتے ہیں ۔ چند دن پہلے تک جس دن جہاز کراچی پورٹ پر لگتا تھا تو اس سے اگلے دن ہی کنٹینر کراچی پورٹ سے ڈرائی پورٹس کے لئے نکل جاتا تھا اور تین دن میں لاہور پہنچ جاتا تھا لیکن اب کانوائے کی شرط کی وجہ سے کنٹینر ٹرک پر لوڈ ہو کر ایک ایک ہفتہ کانوائے بننے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جس سے کراچی پورٹ ، شپنگ کمپنی کے چارجز اور پھر ٹرک کا فالتو خرچ بھی مال درآمد کرنے والے کی جیب سے جاتا ہے ۔ اب آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاجر برادری کو کس طرح کروڑوں اربوں روپے کا نقصان پہنچا کر معیشت کے لئے بارودی سرنگیں کھودی جا رہی ہیں ۔
یہ صورت حال اس لئے خاص طور پر افسوس ناک بھی ہے اور فکر انگیز بھی کہ ایک جانب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت مل کر ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور یہ جدوجہد کوئی معمولی نہیں ہے اس لئے کہ گذشتہ سال سری لنکا اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی اپنے ملک کو دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکا اور پھر وہاں پر مہنگائی اور بیروز گاری کا جو طوفان آیا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ پاکستان میں بھی یقینا کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ خاکم بدہن پاکستان بھی دیوالیہ ہو جائے اور اس کے لئے انھوں نے کوشش بھی کی لیکن خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا اور ملک نہ صرف یہ کہ دیوالیہ ہونے بچ گیا بلکہ پاکستانی معیشت اب بہتری کی سمت اپنا سفر شروع کر چکی ہے لیکن یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اگر کاروباری برادری کے لئے مشکلات اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی تو یہ کسی بھی طرح ملکی معیشت کے لئے بہتر نہیں ہو گا بلکہ معیشت کی بہتری کے لئے جتنی کوششیں ہو رہی ہیں انھیں ریورس گیئر بھی لگ سکتا ہے۔