Jasarat News:
2025-01-18@13:09:06 GMT

غزہ جنگ بندی معاہدہ رواں ہفتے ہوجائے گا،ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

دوحا /تل ابیب /غزہ/واشنگٹن/دی ہیگ (اے پی پی /آن لائن/صباح نیوز/مانیٹرنگ ڈیسک) قطر کے دارالحکومت دوحا میں جاری غزہ جنگ بندی معاہدے کے مندرجات سامنے آگئے ہیں جن کا باضابطہ اعلان رواں ہفتے کے اختتام پر کیا جائے گا‘ 7 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ یروشلم پوسٹ نے جنگ بندی مذاکرات میں شامل ایک فلسطینی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 3 مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت ڈیل کے پہلے روز حماس 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا جبکہ اس کے اگلے ہفتے مزید4 یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر حماس34 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔اس کے بدلے میں اسرائیل نے حماس کی جانب سے فراہم کی گئی فہرست کے مطابق ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے‘ ان فلسطینی قیدیوں میں 190 ایسے ہیں جو 15 برس سے زیادہ عرصے سے اسیری کاٹ رہے ہیں۔چند یرغمالیوں کی رہائی کے فوری بعد سے ہی اسرائیل فلسطینی علاقوں سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کر دے گا اور جنوبی علاقے میں بے گھر فلسطینیوں کو شمال کی طرف سفر کرنے کی اجازت دے گا۔اس معاہدے کے تحت اسرائیلی فورسز کے پاس فلاڈیلفی کوریڈور میں 800 میٹر کے بفر زون کا انتظام ڈیڑھ ماہ تک برقرار رہے گا۔ معاہدے کے پہلے مرحلے کے مکمل ہونے میں 16 دن لگ جائیں گے جس کے بعد دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بیک وقت ڈیل جاری رکھنے کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر17 جنوری کو دستخط ہوں گے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے کے ضمن میں حماس کے سابق سربراہ یحییٰ السنوار کی میت حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں فوری طور پر حالات بہتر بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے ایک سیاسی ذرائع نے حماس کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے جس سے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ادھر حماس کے ایک وفد نے بتایا ہے کہ غزہ میں فائر بندی سے متعلق بات چیت میں اچھی پیش رفت ہو رہی ہے اور تنظیم ان کوششوں اور پیش رفت کے ساتھ مثبت طور معاملہ کر رہی ہے۔ یہ بات حماس کے وفد کی دوحا میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہی گئی۔ قطر کے شاہی دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امیر قطر نے حماس کے وفد کے علاوہ امریکی صدر جوبائیڈن اور منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندگان برائے مشرق وسطیٰ سے بھی ملاقات کی اور غزہ میں فائر بندی سے متعلق مذاکرات کی تازہ ترین پیش رفت پر بات چیت کی۔ قطر نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے مندرجات کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ غزہ جنگ بندی معاہدہ اپنے قریب ترین مقام پر آ گیا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ غزہ میں15 ماہ سے جاری جنگ بند کرنے کے لیے معاہدہ اب قریب ترین مقام پر ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ جنگ بندی پر کہا ہے کہ ڈیل کا رواں ہفتے کے آخر تک اعلان ہوجائے گا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان خیالات کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کیپیٹل ہل کی عمارت میں اپنی جماعت ریپبلکن کے ارکان کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔ نومنتخب امریکی صدر نے حماس کا نام لیے بغیر کہا کہ مصافحہ ہوچکا ہے، انہیں یہ کرنا ہوگا اب بھی اگر وہ (حماس) اسے مکمل نہیں کرتے ہیں تو انہیں (حماس کو) وہ کچھ دیکھنا ہوگا جیسا انہوں نے کبھی دیکھا نہیں ہوگا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی ہو سکتی ہے جبکہ فلسطینیوں کے لیے امداد میں وسیع پیمانے میں اضافہ ہوگا۔ وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق اپنی صدارت کی مدت کا آخری ہفتہ شروع ہونے کے بعد اپنے آخری فارن پالیسی خطاب میں صدر جوبائیڈن نے کہا کہ معاہدے کے تحت یرغمال بنائے گئے افراد رہا ہوں گے، جنگ بند ہو جائے گی جبکہاسرائیل کی سیکورٹی اس معاہدے میں شامل ہے‘ یہ معاہدہ فلسطینیوں کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کی فراہمی کا ضامن ہوگا‘ ہمارے حریف کمزور ہو چکے ہیں، غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے مزید تین قافلے امدادی سامان لیکر غزہ پہنچ گئے۔ مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے 3 امدادی قافلے مصر کے رفح بارڈر کراسنگ کے ذریعے غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے‘ ان قافلوں میں 35 ٹرک شامل تھے، جن میں 248.

9 ٹن سے زاید امدادی سامان موجود تھا، اس میں 100 ٹن سے زاید طبی سامان شامل ہے، جن میں ڈائلیسز مشینیں، الٹراسائونڈ ڈیوائسز، بحالی کے آلات، وہیل چیئرز، سانس لینے کے ماسک، طبی استعمال کے سامان اور مختلف قسم کی دوائیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک، پناہ کے لیے خیمے، آٹا اور دیگر ضروری اشیا بھی امداد کا حصہ ہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مظاہرین نے محکمہ خارجہ کی عمارت کے سامنے صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے خلاف احتجاج کیا۔ بائیڈن کی طرف سے بلنکن کی ہمراہی میں اپنے 4 سالہ دور صدارت کی خارجہ پالیسیوں کے بارے میں تقریر سے قبل جمع ہونے والے مظاہرین نے یہ نعرے لگائے، “آج تم نے کتنے بچوں کو مارا؟” اور” ہمارے ادا کردہ ٹیکس کی رقوم کو فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے استعمال نہ کرو۔”جب بائیڈن اور بلنکن اپنی خارجہ پالیسی کے جائزے کے لیے قافلے کے ساتھ وزارت کی عمارت کو پہنچے تو مظاہرین نے “جنگی مجرم” کے نعرے لگائے۔ اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی قیادت نے فلسطینی دھڑوں کے رہنمائوں کے ساتھ متعدد مشاورتی اجلاس اور رابطے کیے ہیں، جن میں دوحا میں جاری مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی گئیں۔ حماس سے جاری تفصیلات کے مطابق ان مشاورتوں کے دوران فلسطینی دھڑوں کے قائدین نے مذاکرات کے عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ مرحلے اور اس کے تقاضوں کے لیے قومی سطح پر تیاری کی ضرورت پر زور دیا۔حماس کی قیادت اور مختلف قوتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تکمیل تک مشاورت اور رابطے جاری رکھے جائیں گے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی پر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمے میں کیوبا بھی شامل ہوگیا ہے۔ کیوبا اسرائیل کے خلاف مقدمے میں شامل بارہواں ملک بن گیا ہے ۔ کیوبا نے اسرائیل کے خلاف دائر نسل کشی مقدمے میں شمولیت کے لیے سرکاری سطح پر درخواست دے دی ہے۔ اس طرح کیوبا، ترکیہ، نکاراگوا، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، فلسطین، اسپین، چلی، مالدیپ، بولیویا اور آئر لینڈ کے بعد غزہ میں نسل کشی دعوے میں شامل ہونے والا12 واں ملک بن گیا ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے معاہدے کے تحت کے معاہدے کے مطابق پیش رفت حماس کے کے ساتھ کے خلاف کو رہا کے لیے کے بعد گیا ہے

پڑھیں:

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ اور فلسطینی کاز

حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے پاگیا، جس کا باقاعدہ اعلان قطر کے وزیراعظم نے کردیا۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 روز پر محیط ہوگا اور اسرائیل فورسز کی غزہ کے شہری علاقوں سے سرحد پر واپسی ہوگی اور قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ، زخمیوں اور مریضوں کو باہر لے جانے کی اجازت ہوگی، انسانی بنیاد پر پورے غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر امداد بھی فراہم کردی جائے گی۔

 اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی پر دنیا بھر کے رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ غزہ میں جاری لڑائی کو پندرہ ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ امریکا، مصر اور قطر کئی مہینوں سے اسرائیل کو فائر بندی اور حماس کو یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم یہ مذاکرات گزشتہ کئی مہینوں کے دوران متعدد مرتبہ تعطل کا شکار ہوتے رہے تھے۔ امن معاہدہ طے پانے کے باوجود غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں جاری ہیں۔

تازہ اسرائیلی حملوں میں مزید بتیس فلسطینی شہید ہوگئے، یعنی اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی وحشت و بربریت اور انسانی قتل عام کا تسلسل ابھی بھی برقرار ہے۔ جنگ کے بعد غزہ کو کون چلائے گا؟ یہ ایک بہت بڑا جواب طلب سوال ہے۔ اسرائیل نے حماس کی کسی بھی شمولیت کو مسترد کردیا ہے جس کا جنگ سے پہلے غزہ پر قبضہ تھا لیکن یہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کا بھی تقریباً برابر مخالف رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی تین عشرے قبل اوسلو کے عبوری امن معاہدے کے تحت قائم کی گئی جو مغربی کنارے میں محدود حکمرانی کے اختیارات رکھتی ہے۔

اسرائیلی حکام فلسطینی اتھارٹی پر اسرائیل کے خلاف حملوں کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے اور کہتے ہیں کہ غزہ سے باہر فلسطینیوں میں حماس کی وسیع حمایت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فلسطینی ریاست لازمی طور پر گروپ کے قبضے میں چلی جائے گی۔ فلسطینی اتھارٹی پر الفتح دھڑے کا غلبہ ہے جو سابق فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے تشکیل دیا۔ اسے حریف حماس کی مخالفت کا بھی سامنا ہے جس نے اسے 2007 میں ایک مختصر خانہ جنگی کے بعد غزہ سے باہر نکال دیا تھا۔حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے ہونے کے بعد غزہ پٹی کے انتظام پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے قاہرہ کی میزبانی میں فلسطینی جماعتوں کے درمیان مذاکرات بھی دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔

یہ چوتھی بار ہے کہ دونوں فلسطینی وفود مصر کے دارالحکومت میں ملے ہیں۔ اس سے قبل 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیلی جنگ کے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد مذاکرات میں دونوں پارٹیاں تباہ شدہ پٹی کے انتظام کے فارمولے پر اتفاق کرنے میں ناکام رہی تھیں، جب کہ امریکا اور بعض مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غزہ پر فلسطینیوں کا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے، جس کے لیے فلسطینی دھڑوں کے درمیان مفاہمت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اگر سب کچھ ٹھیک رہا، تو فلسطینیوں، عرب ممالک اور اسرائیل کو جنگ کے بعد غزہ کے لیے ایک وژن پر اتفاق کرنا ہوگا۔

 چند دن بعد ٹرمپ دوسری بار حلف اٹھانے جا رہے ہیں، ان کی موجودگی میں اسرائیل کے حوصلے بھی مزید بلند ہونگے۔ اس کے باوجود ہر فریق یہ جانتا ہے کہ جنگ اس کے مفاد میں نہیں۔ صرف شطرنج کی ایک بساط بچھائی گئی ہے جس پر مہرے آگے بڑھائے اور پیچھے ہٹائے جاتے رہیں گے۔ حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے اسے اپنے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ انھوں نے اسے ایک تاریخی موقع بھی قرار دیا۔ غزہ میں حماس کی نگرانی میں کام کرنے والی وزارت صحت کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک ساڑھے چھیالیس ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

 اسرائیل نے غزہ کو عملاً انسانی خون میں نہلا دیا ہے جہاں انسانیت اپنی بے بسی کا ماتم کر رہی ہے۔ اس دوران اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں ننگِ انسانیت وحشت و بربریت کے جو مناظر سامنے آئے ہیں وہ انسانیت کو تو شرما ہی رہے ہیں۔ اسرائیل نے جس بے دردی کے ساتھ غزہ میں حشر اٹھایا ہے وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ابواب میں شامل ہوچکا ہے۔ غزہ میں بچوں اور خواتین سمیت کسی انسان کو بھی نہیں بخشا گیا۔

تعلیمی اداروں، مدارس، مساجد، مارکیٹوں اور اسپتالوں تک پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ بے رحمانہ بمباری کے ذریعے غزہ کی زمین کے چپے چپے کو ادھیڑ دیا گیا اور ہنستی بستی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا۔ اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں خاندانوں کے خاندان لقمہ اجل بن گئے اور زندہ بچنے والے انسان زخمی حالت میں بے یار و مددگار ہو کر کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے، علاج معالجہ اور ادویات و خوراک کی فراہمی کے بغیر ہی بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے اور دنیا کی جانب سے سوائے رسمی مذمتی بیانات اور قراردادوں کے، مظلوم فلسطینیوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو پایا۔

اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ہر قسم کے اسلحے سے لیس کیا جا رہا ہے اور جنگی جنون کو آگے بڑھانے میں اس کا ہاتھ بٹایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حماس نے اسرائیل پر میزائل حملوں کی منصوبہ بندی گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری اس کے ننگ انسانیت مظالم کے ردعمل کے علاوہ بعض مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم و اقدامات کو بھانپ کر بھی کی تھی کیونکہ فلسطین کی سرزمین پر ایک صیہونی ریاست کا زبردستی اور ناجائز طور پر قائم ہونا ہی لمحہ فکریہ تھا۔

 جب بعض عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اقدامات اٹھائے جاتے نظر آئے تو حماس نے ایک مضبوط حکمت عملی کے ساتھ اسرائیل پر میزائل حملوں کا منصوبہ بنایا جس میں وہ سرخرو بھی ہوئی۔ کیونکہ اس کے ردعمل میں اسرائیل نے جس بے دردی کے ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا اور انسانیت کو شرمانے والے اقدامات اٹھائے، اس کے پیش نظر ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ٹھانے بیٹھی مسلم قیادتوں کو اپنے ممکنہ مشترکہ اور انفرادی فیصلے سے رجوع کرنا پڑا۔ یہاں یہ نقطہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ دنیا کی آبادی کا 0.2 فیصد ہونے کے باوجود اسرائیل یہودی کیسے دن بدن طاقتور ہو رہے ہیں۔

یہ جاننا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے اسرائیلی یہودیوں میں کیا خوبی ہے جو وہ اقوام متحدہ، امریکا اور اہل مغرب کو اپنے ہر فیصلے پر ہمنوا بنا لیتے ہیں اور مسلم ممالک پر قیامت برپا کیے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ جان و دل سے مخلص ہوتے ہیں۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق کاروباری سوجھ بوجھ رکھنے کی خوبی انھیں دنیا کی دولت مند ترین قوم بناتی ہے۔

تعلیم، تحقیق اور جستجو کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہیں، اسی لیے تعداد میں بہت تھوڑے ہونے کے باوجود سائنس، معاشیات، سیاسیات اور دیگر علوم پر اِن کا کنٹرول ہے۔ آئی ٹی،میڈیا، بینکنگ اور اہم صنعتوں پر اجارہ داری رکھتے ہیں اور فزکس، کیمسٹری، اکنامکس، لٹریچر اور میڈیسن کے شعبوں میں 22 فیصد نوبل انعام اسرائیلی یہودی اپنے نام کرچکے ہیں۔ امریکا دنیا کی سپر پاور ہے لیکن اسرائیل امریکی حکمرانوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتا ہے۔فلسطین ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول، بیت المقدس، واقع ہے اور جہاں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کا سفرکیا تھا۔

فلسطین کی زمین مسلمانوں کے لیے نہ صرف مذہبی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کے عوام سراپا احتجاج ہوئے، حکمرانوں نے احتجاج کیا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل دفاعی، معاشی، سیاسی اور میڈیا میں طاقتور ہوتا گیا اور اپنی حدود بڑھانے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کرنے لگا۔ پچھلی ایک صدی سے فلسطینی عوام اپنی زمین اور حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن اسرائیل کی فوجی طاقت اور بین الاقوامی حمایت کے باعث فلسطینی عوام کو بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ غزہ کو بمباری سے تباہ و برباد کرنے کے بعد اسرائیلی افواج لبنان پر چڑھائی کر چکی ہیں۔ امریکا، فرانس، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملک کھل کے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر ایک انسانی اور سیاسی بحران بن گیا۔

اسلامی تعاون تنظیم بس رسمی سے اجلاس منعقد کرتی رہی۔ دراصل کئی اسلامی ممالک کو داخلی مسائل، جیسے غربت، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی سطح پر فلسطین جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

مسلم امہ کی خاموشی کی بڑی وجہ معاشی مفادات، داخلی تنازعات اور عالمی دباؤ ہیں، لیکن سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم امہ کی بے حسی ہے۔ بہت سے ممالک نے اقتصادی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، جو فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس تمام بے حسی کے باوجود فلسطینی عوام اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے حق خود ارادیت، آزادی، اور عزت کی جنگ لڑ رہے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی مظلوم کیوں نہ ہوں۔ فلسطینیوں کی مزاحمت نے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ ظالم کے سامنے خاموش رہنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگ بندی معاہدہ، حماس کا نیا مطالبہ سامنے آگیا
  • حماس اسرائیل جنگ بندی کا معاہدہ، اثرات، مضمرات
  • غزہ میں جنگ بندی معاہدہ اور فلسطینی کاز
  • غزہ جنگ بندی معاہدہ؛ یمن سے حوثی بھی اسرائیل پر حملے روک دیں گے
  • اسرائیل و حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ بہتر مستقبل کا موقع ہے، اینٹونیو گیوٹریس
  • اہل غزہ سرخرو ہوگئے، جنگ بندی معاہدہ اسرائیل کی ہی نہیں امریکا کی بھی شکست ہے، حافظ نعیم
  • جوبائیڈن کا حماس اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی معاہدہ ہونے کا اعلان
  • حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پاگیا
  • حماس اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوگیا، امریکی میڈیا
  • حماس نے جنگ بندی معاہدہ منظور کرلیا، اسرائیل کے حملے تھم نہیں سکے، 62 مزید شہید