لوگوں کا کورکمانڈر ہائوس پہنچنا سکیورٹی ناکامی، کسی فوجی افسر کا ٹرائل ہوا؟آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے
دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ 9 مئی کو لوگوں کا کو کمانڈر ہائوس میں جانا سکیورٹی بریچ ہے، کیا 9 مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے گزشہ کئی روز سے جاری اپنے دلائل کا آغاز کردیا اور موقف اپنایا کہ ایف بی علی کیس میں جن افراد پر کیس چلایا گیا وہ ریٹائرڈ تھے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کنٹونمنٹ میں اگر کسی سپاہی کا سویلین کیساتھ اختلاف ہو جائے تو کیس کہاں جائے گا، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ اختلاف الگ بات ہے، ملٹری ٹرائل کے معاملے کو بہت وسعت دی جا رہی ہے۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ زمانہ امن میں بھی ملٹری امور میں مداخلت کرنے پر سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہی چلے گا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ آخر کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا، سازش کس نے کی۔وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث استدلال کیا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا، سویلین کا ٹرائل اچانک نہیں ہورہا، 1967 سے قانون موجود ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ذہن میں رکھیں ایف بی علی کیس سول مارشل لا دور کا ہے، ذوالفقار علی بھٹو صاحب سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ خواجہ صاحب آپ وزارت دفاع کے وکیل ہیں ایک اہم سوال کا جواب دیں، کیا 9 مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ 9 مئی کولوگ کورکمانڈر ہائوس میں پہنچ گئے؟۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مظاہرین پر الزام املاک کو نقصان پہنچانے کا ہے، 9 مئی کے واقعہ میں کسی فوجی افسر کو چارج نہیں کیا گیا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 9 مئی کو جب ملٹری تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا کیا کوئی مزاحمت کی گئی، ضروری نہیں گولی چلائیں، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ جانی نقصان نہ ہو اس کیلئے مکمل تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ اگر کسی فوجی سے اس کی رائفل چوری کر لی جائے تو کیس کہاں چلے گا، وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ رائفل فوجی کا جنگی ہتھیار ہے، رائفل ایک فوجی کا جنگی ہتھیار ہوتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اگر سویلین مالی فائدے کیلئے چوری کرتا ہے، حالانکہ اس کا مقصد آرمی کو غیر مسلح کرنا نہیں تھا، اس کیس کا ٹرائل کہاں چلے گا، وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ حالات و واقعات کو دیکھا جائے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کونسے جرائم ملٹری کورٹس کے دائرہ کار میں آئیں گے، اس کا آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ذکر موجود ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ نو مئی اور دس مئی کے واقعات میں ایسے احتجاجی مظاہرین بھی تھے، جن کو پتہ ہی نہیں تھا کیا ہو رہا ہے، وکیل وزارت دفاع نے موقف اپنایا کہ جن کو پتا ہی نہیں تھا، ان کا تو ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہی نہیں ہوا۔ عدالت عظمی ٰ ملٹری کورٹس کیس کی سماعت آج پھر ہوگی۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جسٹس حسن اظہر رضوی نے نے ریمارکس دیے کسی فوجی افسر ملٹری کورٹس کا ٹرائل مئی کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم اور ریگولر بینچ کے اختیار سماعت سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیےجسٹس عقیل عباسی سندھ ہائی کورٹ میں اس کیس کا فیصلہ کر چکے ہیں، آج کیس نہیں چل سکتا، پیر کو پہلے والا 3 رکنی بینچ ہی کیس کو سنے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیس کو چلانے کے لیے نیا بینچ بنانا پڑے گا جسے پیر کو سماعت کے لیے مقرر کر رہے ہیں، جسٹس عرفان سعادت خان پہلے ہی بینچ میں شامل تھے۔
فاضل جج نے کہا کہ جائزہ لینا ہے کہ آرٹیکل 191 اے کے تحت ریگولر بینچز سے اختیار سماعت لیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ہمیں تھوڑا وقت دیں۔
دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس پیر کو فکس ہونے دیں پھر مہلت کو دیکھ لیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل آفس کو معاونت کا نوٹس جاری کر دیا اور کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے دو روز قبل انکم ٹیکس کیس میں پیر کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے تحریری حکم نامے میں آئین کے آرٹیکل 191 اے کے تحت بینچ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پیر کو کسٹم ایکٹ کے سیکشن 221 اے کی ذیلی شق 2 کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ معاملہ آئین کی تشریح کا ہے اور موجودہ آئینی انتظام کے تحت اس بینچ کو یہ اختیار حاصل نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم سے دائرہ اختیار واپس لیا جاسکتا ہے؟ یہ عدلیہ کی آزادی کا سوال ہے، آرٹیکل 191 اے کے ذریعے عدالت سے دائرہ اختیار چھینا گیا ہے، اس عدالت کے اندر الگ بینچ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی، بینچ میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی شامل تھے۔