میرے خیال میں 20 جنوری کے بعد مذاکرات ہونگے، فیصل واوڈا
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسلام آ باد:
سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ کہ آپریشن پاکستان کے دشمنوں کے خلاف ہو رہا ہے، وہ آپ ہیں، میں ہوں یا کوئی بھی ہو، کامیابیاں بھی ہو رہی ہیں، 2 دن سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں۔
اگر آپ دہشت گردی کو ایڈریس کر رہے ہیں تو دہشت گردی کا پہلا سرا تو گنڈاپور خود موجود ہے جس نے ریاستی دہشت گردی کی ہے، انسانی دہشت گردی کی ہے، چڑھائی کی ہے تو دہشت گردی کو آپ نے کمپلیٹلی ایڈریس کرنا ہے۔
اب آپ یہ کہہ دیں کہ وہ سی ایم ہیں ، کوئی پی ایم تھا، کوئی پاپولر ہے، اس کا کیس معاف کر دیں ایگزیکٹو آرڈر کے تحت کوئی پی ایم رہ چکا ہے اس کومعاف کر دیں، کوئی سینیٹر ہے اس کو معاف کر دیں، کوئی بھاگ گیا ملک سے نقصان پہنچا کر اس کو دیکھ لیں، حسب حال اور حسب ضرورت آپ ڈرائی کلینگ نہیں کر سکتے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب آپ نے احتساب کا ایک عمل شروع کیا ہے اور آپ نے دہشت گردی کو ایڈریس کیا ہے جینون طور پر تو دہشت گرد چاہے وہ کسی اور لبادے میں ہو چاہے وہ آپ کا اپنا وزیراعظم ہو نیا وزیراعظم ہو۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو 9 مئی کو ہوا ہے، 26 نومبر کو ہوا ہے کیا وہ پاکستان کے لیے پیس میکنگ تھی۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا، آپ کو یاد ہوگا جب ہمارے ترانے کی بے حرمتی ہوئی، اس میں سی ایم کے پی خود موجود تھے، انھوں نے اجازت دی تو یہ سب چیزیں تو کیمرے کی آنکھ نے دیکھی ہوئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذاکرات نہیں مذاق چل رہا ہے، میرے خیال میں 20جنوری کے بعد مذاکرات ہوں گے اور لیٹ کر ہوں گے تحریک انصاف کی طرف سے کیونکہ ٹرمپ کارڈ جو ہے وہ مجھے بہت موثر تاش کے پتوں میں نظر نہیں آ رہا۔
اگر ٹرمپ کارڈ تاش کے پتوں سے نکل کربیک ڈور ڈپلومیسی کی وجہ سے شہباز شریف کے کھیسے میں آگیا تو پھر کیا ہوگا؟ اور اس کی پاسیبلٹی بہت زیادہ ہے، مذاکرات کے لیے سیریس ہونا بہت ضروری ہے،پی ٹی آئی کی طرف سے جو کمپرومائزڈ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ خان صاحب جیل میں رہیں، خدانخواستہ خان صاحب کو نقصان ہو جانی طور پر بھی اور ان کو اس کا مفاد ملتا رہے، فائدہ ملتا رہے۔
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو یہ فارم 47 کی حکومت تھی اب ان کے ساتھ بیٹھ گئے اب کہہ رہے ہیں کہ ان سے مذاکرات بھی کریں گے، یہی فوج جو بری تھی اس کو اچھا کہتے ہیں پھر اس کو برا کہتے ہیں، یہ عدلیہ بہت اچھی تھی اب یہ عدلیہ بہت بری ہوگئی، یہ ٹیک اون کی جو سیاست ہے وہ اب نہیں چلے گی۔فارن پالیسی اسٹیٹ ریلٹڈ پالیسی ہوتی ،آپریشن پاکستان کے دشمنوں کیخلاف ہو رہا ہے۔
رہنما تحریک انصاف علی محمد خان نے کہا کہ علی امین گنڈا پور ایک ذمے دار آدمی ہیں اور سیاست میں نووارد بھی نہیں ہیں ،پہلے 2013 سے2018 کے درمیان پختونخوا میں ایک وزارت بھی چلا چکے ہیں، پھر ایک انتہائی مشکل وزارت جس کا لوگوں کو شاید اندازہ نہیں ہے، کشمیر افیئرز آسان وزارت نہیں ہے اس کو کامیابی سے چلایا۔
اب بطور وزیراعلیٰ ان کو پتہ ہے کہ کہاں کون سی بات کرنی ہے۔
انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں کل کو جو فورم تھا سیکیورٹی کے حوالے سے ایک میٹنگ تھی جس میں تمام سیاسی لیڈرشپ وہاں موجود تھی، شاید ان کو مناسب نہیں لگا ہو گا کہ خان صاحب کی بات وہاں پر کریں کیونکہ جو صوبہ خیبر پختونخوا میں جو لا اینڈ آرڈر سچویشن تھی اس میں تمام سیاسی قیادت اکٹھی تھی، جو فورم ہوتا ہے وہاں تو علی امین بات کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ انھوں نے رہے ہیں
پڑھیں:
پاکستان کا عالمی برادری سے جائز مطالبہ!
آج کا پاکستان جن سنگین اور گمبھیر مسائل میں گرفتار ان میں دہشت گردی کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ملک میں پائیدار بنیادوں پر امن و امان قائم کیے بغیر قومی معیشت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔ ملک کے دو اہم صوبے بلوچستان اور خیبرپختونخوا ان دنوں بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے۔ دہشت گرد گروپوں نے بلوچستان اور کے پی کے ،کے مختلف علاقوں میں اپنے خفیہ ٹھکانے قائم کیے جہاں سے وہ وقفے وقفے سے مذکورہ صوبوں میں اپنی مذموم کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں میں خاصی تیزی پیدا کر رکھی ہے۔ پاک فوج کے بہادر جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب سے لے کر رد الفساد تک متعدد آپریشن میں سیکڑوں دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا جا چکا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے پی کے سے لے کر جعفر ایکسپریس بلوچستان پر حملے تک دہشت گردوں کے ہر منصوبے کو پاک فوج نے ناکام بنایا۔ فتنہ الخوارج کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
اگلے دنوں کورکمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان میں کسی کو امن میں خلل نہیں ڈالنے دیں گے، ہر قیمت پر بلا تفریق دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک دشمن عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو کوئی معافی نہیں ملے گی۔ انھوں نے واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں تمام ادارے اپنے تعاون کو یقینی بنائیں۔
پشاور میں16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے بعد ملک گیر سطح پر دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک میں قدرے امن قائم ہوگیا تھا۔ تاہم گزشتہ دو تین برس کے دوران دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 163 ملکوں میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے جو بلاشبہ لمحہ فکریہ ہے۔ مسلسل کارروائیوں اور مختلف آپریشن کے باوجود ملک کے دو اہم صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دہشت گرد عناصر عام آدمی سے لے کر سرکاری تنصیبات تک کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کے باعث ملک کے عوام میں بے چینی اور اضطراب کا پایا جانا ناقابل فہم نہیں ہے۔
کور کمانڈرز کانفرنس میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے حوالے سے بڑی سنجیدگی سے غور و فکر کیا گیا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ تمام ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون پر پوری یکسوئی اور ثابت قدمی سے عمل درآمد کریں گے۔فورم نے ملک خصوصاَ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سرگرم ملک دشمن قوتوں، منفی اور تخریبی عناصر اور ان کے پاکستان مخالف اندرونی اور بیرونی سہولت کاروں کی سر گرمیوں اور اس کے تدارک کے لیے کیے جانے والے متعدد اقدامات پر بھی غور کیا۔’پاک فوج عوام کی غیر متزلزل حمایت سے انسداد دہشت گردی کے لیے قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گی۔
فوج ایک منظم ادارہ ہے جسکے ہر فرد کی پیشہ ورانہ مہارت اور وفاداری صرف ریاست اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔‘ آرمی چیف نے واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی ہدایات کے مطابق تمام متعلقہ ادارے باہمی تعاون کو یقینی بنائیں۔دہشت گردی کے حوالے سے ملک کو جن چیلنجز اور مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اس مکمل تدارک کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسباب و عوامل کا بغور جائزہ لیا جائے۔ صوبے کے عوام کے دیرینہ مسائل اور ان کی محرومیوں کا ازالہ کر کے انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سیاسی مشاورت کا عمل بھی شروع کیا جائے۔
صدر مملکت آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں ریاست کے خلاف منفی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہاں سیاسی مشاورت کا عمل شروع کیا جانا چاہیے۔ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے وہاں کی مقامی سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر ناراض بلوچوں کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ کلبھوشن یادیوکی صورت میں بھارت کی دراندازی اور افغانستان سے فتنہ الخوارج کے شرپسندوں کی کڑیاں ملنا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان نے حکومتی سطح پر باقاعدہ افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے لیکن اب تک اس مطالبے کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ پاکستان نے اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے پاس اربوں ڈالر مالیت کا امریکا کا چھوڑا ہوا، اسلحہ موجود ہے جسے وہ پاک آرمی کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عالمی برادری کو پاکستان کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پاکستان خطے کا اہم ملک ہے یہاں امن کا قیام خطے میں امن کے مترادف ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی خطے کے امن کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہاں قیام امن کے لیے امریکا و اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔