Jasarat News:
2025-01-18@10:47:24 GMT

کپاس کی اچھی پیداوار GSP+ اسٹیٹس کیلیے اہم ہے، سید نذر علی

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

کپاس کی اچھی پیداوار GSP+ اسٹیٹس کیلیے اہم ہے، سید نذر علی

کاٹن سپلائی چین میں کام کے بنیادی اصولوں،حقوق کے فروغ پر آگاہی سیشن کے موقع پر سیکرٹری جنرل سید نذر علی، کنسلٹنٹ گلفام نبی کا شرکاء کے ہمراہ گروپ فوٹو

کراچی (کامرس رپورٹر)ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے تعاون سے رائز فار امپیکٹ (کاٹن انڈیٹیکس پروجیکٹ) کے تحت کاٹن سپلائی چین میں کام کے بنیادی اصولوں اور حقوق کو فروغ دینے کے لیے اپنے سیشنز کی سیریز کا چوتھا آگاہی سیشن ضلع رحیم یار خان میں منعقد کیا۔اس سیشن کا مقصد کی کاشت کرنے والے زمینداروں میں کام کے بنیادی اصولوں اور حقوق (ایف پی آر ڈبلیو) کے احترام کو بڑھانا اور کاٹن سپلائی چین میںکام کے بہتر حالات کو فروغ دینا تھا۔ای ایف پی کے سیکریٹری جنرل سید نذیر علی نے سیشنز کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ایف پی آر ڈبلیو کی اہمیت پر زور دیا اور سب کے لیے بہتر کام کے مواقع فراہم کرنے میں ای ایف پی کی کوششوں اور کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہتر کام کے حالات پیدا کرنا کپاس کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے اور پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ انتہائی اہم ہے۔کنسلٹنٹ گلفام نبی نے ایف پی آر ڈبلیو کے پانچ اہم شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے کام کے بنیادی اصولوں اور حقوق کے بارے میں تفصیلی پریزنٹیشن دی۔جن میں اتحاد کا حق اور اجتماعی گفت و شنید کے حق کی مؤثر شناخت یہ یقینی بناتا ہے کہ ورکرز اور آجروں کو بغیر کسی انتقامی کارروائی یا مداخلت کے آزادانہ طور پر تنظیمیں، ٹریڈ یونینز اور آجروں کی تنظیموں میں شامل ہونے اور تشکیل دینے کا حق حاصل ہو۔جبری یا لازمی مشقت کے تمام اشکال کا خاتمہ جو کسی بھی ایسے کام یا خدمت کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو زبردستی، دھمکیوں یا مرضی کی کمی کے تحت انجام پائے جس میں قرض کی بندش، انسانی اسمگلنگ اور غلامی جیسے طریقے شامل ہیں۔چائلڈ لیبر کے مکمل خاتمے کا اصول یہ یقینی بناتا ہے کہ بچوں کو ایسی مشقت سے محفوظ رکھا جائے جو انہیں تعلیم، صحت اور ترقی سے محروم کر دے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایف پی کے لیے

پڑھیں:

اچھی معیشت گڈ گورننس کے لیے ناگزیر

معاشیات کا قدیم تصور یہ ہے کہ اسے دولت کا علم قرار دیا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں یہ تصور آج بھی کافی حدتک موجود ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی معیشت کے بنیادی عقائد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا علاوہ ازیں ریاستی ماہرین کی طرف سے معاشی معاملات کی وضاحت کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں وہ عوام الناس کے لیے ناقابل فہم ہیں لہٰذا کوئی سمجھنا چاہیے بھی تو یہ اس کے لیے آسان نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ معیشت کی بات آتی ہے تو اعداد و شمار عام صارفین کا راستہ روک لیتے ہیں حالانکہ حکومتیں تحریف کردہ اعداد و شمار کے ذریعے عام آدمی کو قائل کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ عوامی نفسیات یہ ہے کہ انسان جب کنفیوژہو جاتا ہے تو پھر وہ غیر حقیقی معلومات کا بھی قائل ہو جاتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آج کے دور میں عوام کا معیشت کے بنیادی اصولوں سے واقف ہونا ناگزیر ہے تا کہ انہیں سرمایہ داروں کا رپوریٹ طبقے اور حکومتوں کی حیلہ بازیوں کا علم ہو سکے کہ کس کس طرح عوام کا استحصال جاری رہتا ہے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے سابق پروفیسر ڈاکٹر فہد رحمن کا شمار ان ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے جن کا فوکس یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے معیشت کی ABC سمجھے بغیر قطعی طور پر کوئی چارہ نہیں۔ جب تک وہ نہیں سمجھیں گے وہ سیاسی قیادت کی معاشی پالیسی اور سیاستدانوں کی عوام سے متعلق خیر خواہی کا پردہ چاک نہیں کر سکیں گے۔ ہر الیکشن کے موقع پر ووٹرز اگر پارٹیوں کی معاشی کارکردگی یا اگلے الیکشن کے لیے سیاسی منشور کی کسوٹی بنائیں تو یقینا اس سے ملک میں عوام دوست قیادت اقتدار میں آسکتی ہے۔
محترم ڈاکٹر فہد رحمن نے یونیورسٹی آف نیو ساو¿تھ ویلز آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ہے اس سے پہلے انہوں نے جاپان کی معتبر یونیورسٹی GRIPS سے پالیسی سٹیڈیز میں ماسٹرز کیا اور کافی عرصہ تک پاکستان کے سرکاری ادارے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی SMEDA میں فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب "Pakistan Structural Economic Problems in the Era of Financial Globalization عکس پبلی کیشن لاہور نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب غیر روایتی انداز میں سادہ اور عام فہم زبان میں ہے جس میں بھاری بھر کم معاشی اصطلاحات سے گریز کیا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے قاری کا اکانومسٹ یا ریسرچر ہونا ضروری نہیں۔ کتاب کے شروع میں جی سی یونیورسٹی لاہور کے ہسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر محترم عرفان وحید عثمانی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی انڈیا کے پروفیسر امیت بہادری کے خیالات درج کیے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا فطری تجسس پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ Grips جاپان کے پروفیسر ڈاکٹر امداد حسین نے کتاب پر اپنا مختصر تجزیہ رقم کیا ہے۔
ڈاکٹر فہد رحمن کہتے ہیں کہ عام طور پر کسی ملک کی معاشی پرفارمنس کا اندازہ لگانے کے لیے ملک کی جی ڈی پی یا فی کس قومی آمدنی کو ایک indicator سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر جی ڈی پی بڑھ رہی ہے تو ملک ترقی کر رہا ہے لیکن اس کے برعکس کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ حکومتیں اعداد و شمار کے بارے میں سمجھ مبالغہ آمیزی کام لیتی ہیں لہٰذا اس کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی حکومت تعلیم صحت نکاسی¿ آب اور سماجی ڈھانچے پر کتنا خرچ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن کے مطابق انہوں نے کوشش کی ہے کہ فنانشل گلوبلائزیشن کے اس دور میں معیشت کے سٹرکچرل ایشوز کو منظر عام پر لایا جائے۔
مصنف کا خیال ہے کہ غیر مستحکم معاشی اور سیاسی حالات کی وجہ سے روزگار کے حصول کے لیے دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت سماجی ڈھانچے پر دو طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے ایک تو شہری زندگی پر دباو¿ بڑھتا جا رہا ہے دوسرا اہل افرادی قوت کی نقل مکانی سے دیہات میں ترقی اور بہتری کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن پہلے معیشت دان بھی جو برین ڈرین کے مقامی اثرات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
کتاب کے شروع میں معیشت کے روایتی اور غیر روایتی Formal & Informal شعبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملازمتوں کے ضمن میں 72 فیصد سے زیادہ افرادی قوت informal سیکٹر میں کام کر رہی ہے۔ یہ 2021 ءکے اعداد و شمار ہیں۔
ڈاکٹر فہد رحمن کی کتاب کا سب سے اہم موضوع فنانشل گلوبلائزیشن ہے جو ہماری قومی معیشت پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اس گلوبلائزیشن کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے لیے اس میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود اس کی مثالیں ہیں جو گلوبلائزیشن کی وجہ سے کافی تغیر پذیر ہیں اس سے زرعی شعبے میں منفی اثرات پڑتے ہیں۔
Multiple Financial Institutions یا MFIs کو مصنف نے کافی تفصیل سے ان کی معاشی مداخلت کو اجاگر کیا ہے ان سے مراد بین الاقوامی قرضہ دینے والے ادارے بشمول آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک شامل ہیں جو ایسی پالیسیاں زبردستی تھوپ دیتے ہیں جو طویل مدتی طور پر بجائے فائدے کے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ ڈاکٹر فہد رحمن کا کہنا ہے کہ قومی معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمیں MFis کی بجائے مقامی ماہرین پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سٹرکچرل ریفارمز کے نتیجے میں عوام کی زندگی پر آنے والے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر فہد رحمن کہتے ہیں کہ ہر ملٹری اور سول حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرضہ لینے پر مجبور ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حکومت قرضہ لیتی ہے تو اپوزیشن اس کی مخالفت کرتی ہے اور کشکول جیسے الفاظ استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ ان کے بغیر ادائیگیوں کا توازن ناممکن ہے البتہ میکرو اکنامک ریفارم کے نام پر کیے گئے اقدامات معیشت کی نشوونما کا عمل بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
کتاب کے دوسرے حصے میں انہوں نے پاکستان کے سٹرکچرل معاشی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے 5 شعبوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جس میں ناقابل برداشت حد تک مہنگی بجلی، زوال اور جمود پذیری کا شکار زرعی شعبہ، اوسط درجے کا انڈسٹریل سیکٹر، زرمبادلہ کے حصول میں رکاوٹیں اور لاقانون رئیل سٹیٹ سیکٹر شامل ہیں۔ مذکورہ بالا ہر شعبے پر الگ سے تفصیلی بحث درکار ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن نے ان سب شعبوں پر اپنی گراں قدر تجاویز دی ہیں جن پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سٹرکچرل یا ڈھانچہ جاتی مسائل اور ان کے حل کے فقدان کے نتائج کو انہوں نے الگ چیپٹر میں رقم کیا ہے جس میں ادائیگیوں کا بحران، افراط زر اور جائیداد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ شامل ہیں۔
اگر حکومتی وزراءیا مشیران حکومت میں سے کوئی شخصیت اس کتاب کا غیر جانبداری اور غیر سیاسی انداز میں مطالعہ کرتے تو اس میں مذکورہ تمام پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے واضح تجاویز دی گئی ہیں۔ معیشت حکمرانی کا اہم ترین شعبہ ہے۔ ملک میں معاشی حالت تبدیل کیے بغیر حقیقی تبدیلی کا تصور بے معنی ہے اور معیشت کو سمجھنے کے لیے آپ ماہرین کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • اچھی معیشت گڈ گورننس کے لیے ناگزیر
  • آم کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلیے جدید تحقیق متعارف کرائی ہے، مظہر کیریو
  • آئی ایم ایف کی شرط پوری:بجلی کے بنیادی ٹیرف پر سالانہ نظرثانی ہوگی
  • گوادر پورٹ سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے بینک گارنٹی ختم
  • گدون ٹیکسٹائل ملز نے کپاس کی کم پیداوار کے باوجود مضبوط کارکردگی دکھائی. ویلتھ پاک
  • دنیا کے نام نہاد جمہوری ملک بھارت نے کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں، حریت کانفرنس
  • آزاد کشمیر عدلیہ کی تاریخ شاندار فیصلوں سے مزین ہے، بیرسٹر سلطان
  • ’’ایک اچھی پیش رفت یہی ہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں‘‘
  • سیاسی استحکام جمہوریت کیلیے ضروری‘آج اچھی خبر آئے گی‘بیرسٹر گوہر
  • سکھر، خیرپور کے کاشتکاروں کے لیے آگاہی سیشن کا انعقاد