میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ آپ صوبۂ پنجاب میں بہتری لانے کے لیے خاصی محنت کررہی ہیں، آپ نے کئی شعبوں میں نئے initiatives بھی لیے ہیںجو قابلِ ستائش ہیں۔ مگر کچھ اہم امور ایسے ہیں جو آپ کی زیادہ توجہ کے متقاضی ہیں۔
صوبائی حکومت کی سب سے بڑی ذمیّ داری اپنے شہریوں کی جان اور مال کا تحفّظ ہوتا ہے۔ اگر کوئی حکومت عوام کے جان اور مال کا تحفّظ نہیں کرسکتی تو وہ چاہے کتنے ہی ترقیاتی پروجیکٹ مکمل کرلے، وہ کامیاب حکومت نہیں کہلاسکتی۔
چیف منسٹر صاحبہ! اگر آپ اپنے ممبرانِ اسمبلی کے ساتھ علیحدہ میٹنگ کریں اور ان سے مسائل اور مصائب پوچھیں تو یقیناً سب پنجاب میں جرائم کی سنگین صورتحال کو تسلیم کریں گے،یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ چند جگہوں کے علاوہ کہیں بھی پولیس افسروں کی جرائم پر قابو پانے کی جانب کوئی توجہ نہیں ۔
شہباز شریف صاحب جب 1997 میں پہلی بار پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو ان کی ترجیحِ اوّل جرائم کی روک تھام تھی۔ وہ لاہور میں قائم کردہ کرائمز کمیٹی کے سربراہ رہ چکے تھے، اس لیے جانتے تھے کہ جرائم کا قلع قمع صرف رزقِ حلال کھانے والے جراتمند افسر ہی کرسکتے ہیں۔
نااہل اور حرام کھانے والے افسر صرف جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں، خوشامد کرتے ہیں یا سوشل میڈیا پر وہ چیزیں اپلوڈ کرتے رہتے ہیں جن کا جرائم کی روک تھام یا عوام کو تحفّظ دینے سے کوئی تعلّق نہیں ہوتا، اس لیے انھوں نے بڑی چھان پھٹک کے بعد اچھی شہرت رکھنے والے (Honest and effective) افسروں کو فیلڈ میں تعینات کیا۔ اُس وقت وزیراعلیٰ شہباز شریف صاحب نے مرحوم ناصر درانی کو گوجرانوالہ تعینات کیا اور مجھے لاہور پولیس کا سربراہ مقرر کیا۔ طارق کھوسہ فیصل آباد تعینات ہوئے اور شوکت جاوید صاحب کو لاہور کا ڈی آئی جی مقرر کیا گیا، اسی طرح نیک نام افسروں کو ڈی سی اور کمشنر لگایاگیا۔
میرے ذاتی علم میں ہے کہ کئی بدنام افسرفیلڈ پوسٹنگ حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے سفارشیوں کی خدمات حاصل کرتے رہے مگر ان کی ایک نہ چلی اور کوئی کرپٹ اور بری شہرت کا حامل افسر فیلڈ میںتعینات نہ ہوسکا۔ صورتحال یہ تھی کہ اگر ممبرانِ اسمبلی کسی ضلعی پولیس افسر یعنی ڈی پی اویا ڈی سی سے ناراض ہوتے اور وزیراعلیٰ سے اس کی ٹرانسفر کی درخواست کرتے تو چیف منسٹر مختلف ذرایع سے اس افسر کی شہرت (integrity) کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے، اگر انھیں معلوم ہوجاتا کہ افسر دیانتدار ہے اور لگن سے کام کررہا ہے تو پورے ضلع کے تمام ممبرانِ اسمبلی اکٹھے ہو کر بھی اسے تبدیل نہیں کراسکتے تھے۔ مگر پورے صوبے میں کسی شہری سے موٹر سائیکل بھی چھینا جاتا تو شہبازشریف صاحب اس کا نوٹس لیتے تھے۔
ان کی دلچسپی اور commitment دیکھ کر صوبے بھر کے پولیس افسر متحرّک ہوئے اور ایماندار اور بہادر پولیس افسروں نے سب سے بڑے صوبے کو جرائم سے کافی حد تک پاک کردیا تھا۔ 1997-99کا دَور بلاشبہ پنجاب میں بہترین گورننس کا دور تھا۔ پھر یوں ہوا کہ جنرل مشرّف بغیر سوچے سمجھے پہلے کارگل پر چڑھ دوڑا اور پھر اس نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور ایسا کلہاڑا چلایا کہ ملک پچاس سال پیچھے چلاگیا۔
میاں صاحبان کی جلا وطنی کے دوران میں جب بھی اپنے گاؤں جاتا تو مجھے گاؤں کا ایک کاشتکار بابا غلام حسین خاص طور پر پوچھتا تھا کہ ’’میاں نواز شریف تے شہباز شریف کدوں واپس آؤن دے؟‘‘ میں اس سے پوچھتا تھا ’’چاچاجی آپ انھیں بہت یاد کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ تو وہ کہتا تھا ’’او ہناں بدمعاشی تے جرائم ختم کیتے سن‘‘ (انھوں نے جرائم اور بدمعاشی کا خاتمہ کیا تھا) 2008کی الیکشن مہم میں جب شہباز شریف صاحب وزیرآباد اور علی پور چٹھہ آئے تو دورانِ سفر کئی جگہوں پر دیہاتی ان کی گاڑی رکوا کر ان سے ملتے اور عمر رسیدہ لوگ ان کی کمر پر تھپکی دے کر کہتے تھے ’’پُترا جتھوں چھڈیا سائی اوتھوں ای شروع کریں‘‘ (بیٹا ملک بدری سے پہلے آپ جرائم کی روک تھام کا جو بہترین کام کررہے تھے، اب پھر وہیں سے شروع کر دیں)۔
جانیں محفوظ نہ ہوں تو نہ نئے اسپتال اچھے لگتے ہیں، نہ صاف ستھری سڑکیں۔ اور نہ ہی کسان کارڈ۔ عدمِ تخفّظ کا احساس زندگی کو ایک روگ بنادیتاہے۔ جو حکمران یا پولیس افسر شہریوں کے جان اور مال کی حفاظت کرتاہے، وہ اُن کے دل میں اتر جاتا ہے۔ جنرل مشرّف اور پرویز الٰہی کے دور میں پیسے کی ریل پیل تھی، باہر سے War on Terror کے نام پر اربوں ڈالر آرہے تھے، پنجاب میں ترقیاتی کام بھی ہوتے رہے مگر جرائم اور بدمعاشی کو فروغ ملا اور گوجرانوالہ اور سیالکوٹ جیسے صنعتی شہروں میں کراچی کی طرح اغواء برائے تاوان ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کرگیا، لہٰذا 2008کے الیکشن میں عوام نے ان کے تمام تر ترقیاتی کاموں کے باوجود مشرّف اور پرویزالٰہی کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ 2008تک گوجرانوالہ کا کوئی بڑا صنعتکارایسا نہیں تھا جو خود یا اس کا بیٹا یا بھائی تاوان کے لیے اغواء نہ ہوا ہو اور کوئی بڑا بزنس مین ایسا نہیں تھا جس کے گھر بھتّے کی پرچیاں نہ آتی ہوں۔
اس پس منظر میں شہباز شریف صاحب جب 2008 میں دوبارہ وزیراعلیٰ بنے تو انھوں نے (میری خواہش کے برعکس)مجھے گوجرانوالہ تعیّنات کردیا، تاکہ گوجرانوالہ ڈویژن کو خطرناک ڈاکوؤں اور اغواکاروں سے آزاد کرایا جائے۔ ہم نے اس ٹاسک کو آپریشن کا نہیں خطرناک ترین مجرموں کے خلاف جنگ کا نام دیا، اور رزقِ حلال کھانے والے بہادر پولیس افسروں کو ٹیم میں شامل کیا جنھوں نے چند مہینوں میں ڈاکوؤں اور اغواکاروںکے منظم گروہوں کاخاتمہ کرکے پوری ڈویژن کو امن کا گہوارہ بنادیا ۔گوجرانوالہ ڈویژن کے مختلف اضلاع سے اب بھی خط اور میسج آتے ہیں۔ چند روز پہلے وہاں سے پھر ایک معزز شہری کا خط آیا ہے کہ ’’آپ کے دور کے پولیس افسر بتاتے ہیںکہ جرائم کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا محاورہ ہم نے پڑھا ضرور تھا مگر اس کے معنی ہمیں ڈی آئی جی چیمہ صاحب کے دور میں ہی سمجھ آئے۔
اُس وقت پولیس کے رعب اور ڈر کا یہ عالم تھا کہ دیہاتوں سے چارے کی چوری بھی ختم ہوگئی تھی۔ مگر چیمہ صاحب! اب جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ خطرناک مجرموں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، آپ وزیراعلیٰ سے بات کریں’’ میں نے انھیں جواب دیا ہے کہ میں کالم کے ذریعے حقائق ضرور بتاؤں گا۔ اسی نوعیّت کے خط اور میسج ہر روز آتے ہیں، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ (جسے وزیرستان کہا جاتا تھا) میں امن قائم کرنے والے پولیس افسر فیس بک پر پولیسنگ نہیں کرتے تھے، وہ میدان میں اتر کر خطرناک مجرموں سے پنجہ آزمائی کرتے اور عوام کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت پنجاب میں جرائم کی صورتِ حال بڑی تشویشناک ہے جب کہ ضلعوں میں تعیّنات اکثر پولیس افسروں کو جرائم کی روک تھام میں کوئی دلچسپی نہیں۔ زیادہ تر پولیس افسران بوجہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ٹرانسفر نہیں کیا جائے گا لہٰذا عوام کا تخفّظ یا جرائم کی روک تھام ان کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ اس تاثر کے بڑے منفی نتائج سامنے آرہے ہیں، جرائم میں اضافہ ہوا ہے اورلوگ عدمِ تحفّظ کا شکار ہیں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں اب پھر کہوںگا کہ آپ اپنی ٹیم خود بنائیں۔ ضلعوں اور ڈویژنوں میں نیک نام افسر تعیّنات کریں اور پھر ان پر اعتماد کریں۔ اگر انھیں اپریشنل اٹانومی حاصل نہیں ہوگی تو وہ ڈلیور نہیں کرسکیں گے۔ اچھی حکومت میں اختیارات delegate کیے جاتے ہیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ نگران دور میں پنجاب میں ضلعی پولیس افسروں نے پولیس چوکیوںکی عمارتوں سے فورس withdraw کرکے چوکیاں خالی چھوڑ دی ہیں، اس سلسلے میں نگران وزیراعلیٰ کو میں نے میسج کیا تھا تو انھوں نے پولیس سربراہ کو ہدایات دیںتھیں، مگر چوکیاں ابھی تک خالی پڑی ہیں۔ چوکیوں پر پولیس کی موجودگی کے باعث جرائم کم ہوتے تھے۔ آپ حکم جاری کریں کہ تمام چوکیوں پر فوری طور پر (پہلے کی طرح) فورس تعیّنات کرکے انھیں functional کیا جائے۔ پولیس کی موجودگی سے جرائم پیشہ عناصر خوفزدہ ہوں گے اور عوام کو تخفّظ اور حوصلہ ملے گا۔ صفائی اور ستھرائی بہت اچھی چیز ہے مگر پنجاب کے کروڑوں عوام کا حق ہے کہ انھیں ’صاف پنجاب‘ سے پہلے ’’محفوظ پنجاب‘‘ دیا جائے۔
(جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شہباز شریف صاحب پولیس افسروں پولیس افسر افسروں کو انھوں نے تعی نات کے دور تے ہیں
پڑھیں:
شام میں کیے گئے جرائم، بین الاقوامی عدالت کا وفد دمشق میں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جنوری 2025ء) طویل عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملک شام کے دارالحکومت دمشق سے ہفتہ 18 دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کی قیادت میں اس بین الاقوامی عدالت کے ایک وفد نے جمعے کے روز شام کے عبوری رہنما احمد الشرع سے دمشق میں ملاقات کی۔
جرمنی سے مہاجرین کی عجلت میں واپسی غیر ضروری، شامی وزیر خارجہ
اس ملاقات میں شام کے عبوری وزیر خارجہ سعد الشیبانی بھی موجود تھے اور اس میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے مستغیث اعلیٰ نے نئی شامی قیادت کا شکریہ ادا کیا کہ اس انٹرنیشنل کورٹ اور عبوری حکومت کے مابین ابتدائی رابطوں میں دمشق حکومت نے ''بہت کھلے پن کے ساتھ تعمیری طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔
(جاری ہے)
‘‘شام کے نئے انتخابات میں چار سال کا وقت لگ سکتا ہے، احمد الشرع
وفد کے دورے کا مقصدبین الاقوامی فوجداری عدالت اور شام کی عبوری حکومت کے مابین ابتدائی رابطوں اور ان کے بعد اس عدالت کے ایک وفد کے دورہ دمشق کا مقصد ایک ایسی شراکت داری کو یقینی بنانا ہے، جس کے نتیجے میں ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران شام میں کیے جانے والے جرائم کے مرتکب افراد کو، جہاں تک ممکن ہو سکے، قانوناﹰ جواب دہ بنایا جا سکے۔
شام کی حمایت پر بات چیت کے لیے عرب ممالک اور یورپی یونین کے سفارت کار سعودی عرب میں
اس ملاقات کے بعد آئی سی سی کی طرف سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا گیا، ''آئی سی سی شام میں جرائم کے ارتکاب پر متعلقہ عناصر کو جواب دہ بنانے کے لیے شامی حکومت کے ساتھ تعمیری تبادلہ خیال پر اس کی شکر گزار ہے۔‘‘
داعش کی طرف سے شیعہ درگاہ کو تباہ کرنے کی سازش ناکام بنا دی، شامی حکام
شام آئی سی سی کا رکن ملک نہیںمشرق وسطیٰ کی ریاست شام بین الاقوامی فوجداری عدالت کی رکن نہیں ہے۔
اس لیے اس انٹرنیشنل کورٹ کو شامی سرزمین پر ہونے والے جرائم سے متعلق مقدمات کی سماعت کا اختیار نہیں ہے۔یورپی یونین شام پر عائد پابندیاں بتدریج نرم کر سکتی ہے
لیکن اب موجودہ شامی حکومت اور اس بین الاقوامی عدالت کے مابین رابطوں کا پس منظر یہ بھی ہے کہ دمشق میں عبوری حکومت کا مطالبہ ہے کہ سابق صدر بشار الاسد کے دور میں جو حکام جرائم کے مرتکب ہوئے، انہیں ان جرائم کے لیے جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔
جرمنی شام پر یورپی یونین کی پابندیوں میں نرمی کے لیے کوشاں
شام میں احمد الشرع کی قیادت میں اور ہیئت تحریر الشام نامی اپوزیشن گروہ کی سربراہی میں دمشق حکومت کی مخالف قوتیں گزشتہ ماہ صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
اس دوران دو عشروں سے بھی زائد عرصے تک اقتدار میں رہنے والے صدر بشار الاسد اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ملک سے فرار ہو کر روس چلے گئے تھے، جہاں انہوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
اسد دور میں شام میں بیسیوں ہزار افراد کو حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی جیلوں میں یا تو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
شام میں متعدد غیرملکی جنگجوؤں کے لیے اعلیٰ فوجی عہدے
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اسد دور میں دمشق کے نواح میں صرف صیدنایا کی بدنام زمانہ جیل میں ہی ہزاروں افراد قتل کر دیے گئے تھے۔
یہ ہلاک شدگان زیادہ تر ایسے عام شہری تھے، جو اسد حکومت کے مخالف تھے۔
م م / ع ت (ڈی پی اے، اے ایف پی)