Express News:
2025-01-18@11:01:13 GMT

(ن) لیگی حکومت میں پیپلز پارٹی کی اہمیت

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے حکومتی فیصلوں پر اعتماد میں نہ لینے پر پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومتی حمایت ختم کرنے کی بات کی ہے ، ان کے بقول گیارہ ماہ میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا اور پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام پر بھی پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، پی پی نے اگر حمایت ختم کر دی تو موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی۔

اس سے قبل پی پی چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر رہنما بھی ایسی شکایات کر رہے ہیں مگر لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جان بوجھ کر کوئی جواب دیا نہیں دے رہی ہے بلکہ (ن) لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال پی پی رہنماؤں کے بیانات کو ہلکی پھلکی موسیقی قرار دے چکے ہیں جب کہ پی پی ترجمان کا حالیہ بیان ایسا ظاہر نہیں کر رہا مگر حکومت مطمئن ہے اور وزیر اعظم نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ کراچی میں یہ ضرور دیکھا گیا کہ گورنر سندھ کراچی میں وزیر اعظم کی گاڑی چلاتے رہے اور وزیر اعظم گزشتہ سال منتخب ہونے کے بعد پہلی بار سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے گھر گئے اور انھیں پوتے کی مبارک باد پیش کی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الیکشن کے بعد لاہور میں چوہدری شجاعت حسین کے گھر منعقدہ اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے حکومت سازی کا متفقہ فیصلہ کیا تھا اور پی پی قیادت نے میاں شہباز شریف کو دوسری بار وزیراعظم منتخب کرانے کا فیصلہ اس جواز پرکیا تھا کہ قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کی نشستیں زیادہ ہیں اور 2022 میں بھی پیپلز پارٹی نے اسی بنیاد پر شہباز شریف کو پہلی بار وزیر اعظم بنوایا تھا بلکہ ان کی حکومت میں شامل بھی ہوئی تھی اور حکومت میں شامل پی پی کے وزیروں میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو بھی بطور وزیر خارجہ شامل ہوئے تھے اور اس حکومت نے قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک 16 ماہ حکومت کی تھی جس میں پی ٹی آئی کے عارف علوی صدر مملکت تھے اور انھوں نے بھی قومی اسمبلی کی طرح اپنی مدت مکمل کی تھی۔

فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کی دوسری حکومت میں اپنے وزرا شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر مسلم لیگ (ن) متفق نہ تھی مگر آصف زرداری کو ستمبر میں عارف علوی کی جگہ صدر مملکت منتخب کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پی پی کی خواہش پر سینیٹ کی چیئرمین شپ، قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ، پنجاب و کے پی کی گورنری اور بلوچستان میں پی پی کے وزیر اعلیٰ کی مخلوط حکومت بنانے کے فیصلے ہوئے تھے۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی بھی اسی طرح واضح اکثریت تھی جیسی پیپلز پارٹی کی سندھ میں اور پی ٹی آئی کی کے پی میں تھی مگر بلوچستان میں ماضی کی طرح کسی کو اکثریت حاصل نہ تھی اس لیے وہاں مسلم لیگ (ن) نے پی پی کا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا۔

پنجاب میں اگرچہ مسلم لیگ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی مگر پی پی اور (ن) لیگ کی قیادت نے پنجاب میں حکومت سازی کا ایک فارمولا طے کر لیا تھا اور جنوبی پنجاب جہاں پی پی کے زیادہ ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے وہاں پیپلز پارٹی کو حکومت سازی میں ترجیح دینے کا فیصلہ شامل تھا۔ پیپلز پارٹی شمالی اور وسطی پنجاب علاوہ جنوبی پنجاب میں بھی برائے نام رہ گئی ہے اور پنجاب میں دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ہیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب کو اہمیت دینے پر مجبور ہے کیونکہ پنجاب سے معقول نشستیں جیت کر ہی آیندہ پی پی اپنا وزیر اعظم لا سکتی ہے مگر موجودہ صورت حال میں ایسا ممکن نہیں ہے اور پیپلز پارٹی سندھ سے واضح اکثریت اور بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے کچھ نشستیں جیت کر اپنا وزیر اعظم نہیں لاسکتی۔

 اس لیے وہ پنجاب میں پی پی اپنا اثر بڑھانے کے لیے (ن) لیگ پر دباؤ رکھے ہوئے ہے اور پی پی کے گورنر پنجاب جو غیر معروف شخصیت ہیں اور پنجاب میں اہم عہدہ لے کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر تنقید کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے مگر وہاں حکومت بھی انھیں سیاسی اہمیت نہیں دے رہی اور مریم نواز پنجاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کیونکہ پنجاب میں (ن) لیگ کا مقابلہ پی پی سے نہیں پی ٹی آئی سے ہے اور پیپلز پارٹی کو وفاق سے زیادہ شکایات پنجاب حکومت سے ہے جو پی پی کو پنجاب میں جگہ نہیں دے رہی جب کہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو من پسند جگہ ملی ہوئی ہے اور گیلانی خاندان کی وہاں ٹھیک ٹھاک اہمیت اور سرکاری اثر و رسوخ ہے۔

وفاق میں اقتدار کے لیے پی پی کی حمایت (ن) لیگ کی واقعی مجبوری ہے مگر (ن) لیگ کی یہ مجبوری پنجاب میں نہیں پھر بھی پیپلز پارٹی وہاں پاور شیئرنگ میں معقول حصہ چاہتی ہے جو وزیر اعلیٰ دینے کو تیار نہیں اور نہ وہ پنجاب میں پی پی کو وہ اہمیت دے رہے ہیں جو وفاق میں پی پی کو حاصل ہے۔وفاق سے پی پی کی بعض شکایات جائز ہیں مگر وزیر اعظم کو نہ جانے کیا مسئلہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق ہر تین ماہ بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلاتے اور اہم معاملات میں پی پی کو اعتماد میں نہیں لیتے۔ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں وزارتیں نہ لے کر سمجھ رہی ہے کہ وہ پنجاب میں جگہ بنا لے گی۔

وہ پنجاب میں وزارتیں چاہتی ہے مگر وفاق میں وزارتوں کے بجائے تمام آئینی عہدوں پر ہے اور مزے لے رہی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف بطور وزیر اعظم قوم کو جواب دہ ہیں مگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ وہ عوام کو جوابدہ نہیں اور اس کے اہم آئینی عہدیدار محفوظ بھی ہیں اور پی پی کی وجہ سے وزیر اعظم غیر محفوظ ہیں مگر پھر بھی پی پی کو اس کی خواہش کے مطابق اہمیت نہیں دے رہی جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پی پی کی دھمکیاں محض دھمکیاں ہیں اور دونوں کو اقتدار دلانے والے پی پی کو حکومت کو خطرے میں نہیں ڈالنے دیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی کو پیپلز پارٹی کی وہ پنجاب میں قومی اسمبلی نہیں دے رہی حکومت سازی شہباز شریف حکومت میں میں پی پی پی ٹی آئی اور پی پی کا فیصلہ میں نہیں مسلم لیگ پی پی کو پی پی کے پی پی کی ہیں مگر ہیں اور ہے اور لیگ کی بھی پی

پڑھیں:

گلشن معمار ‘پیپلز پارٹی کے ٹائون چیئرمین کیخلاف مکینوں کا مظاہرہ

پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی گلشن معمار کے صدر ابوضیا پرویز پیپلز پارٹی کے ٹائون چیئرمین سہراب گوٹھ لالا رحیم کی جانب سے بلڈر کو 8 انچ پانی کی چوری کی لائن دینے کے خلاف معمار روڈ پر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کررہے ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی گلشن معمار و سہراب گوٹھ ٹاؤن کے تحت پیپلز پارٹی کے ٹاؤن چیئرمین سہراب گوٹھ لالا رحیم کی جانب سے بلڈر کو8 انچ پانی کی چوری کی لائین دینے کے خلاف معمار روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، مظاہرین نے پیپلز پارٹی کی حکومتی سرپرستی میں گلشنِ معمار کا پانی چوری کر کے من پسند بلڈرز کو دینے کے خلاف پُر جوش نعرے لگائے اور
مطالبہ کیا کہ گلشنِ معمار کی لائین سے غیر قانونی کنکشن ختم کیا جائے، مظاہرے سے پبلک ایڈ کمیٹی گلشن معمار کے صدر ابوضیا پرویز، ناظم علاقہ فخر شبیر، نائب ناظم علاقہ گلشن معمار شکیل، منتخب یوسی کونسلرز نعمان مقصود اور عاطف اللہ والا و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ ابوضیا پرویز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واٹر بورڈ کارپوریشن کے چیئرمین مرتضیٰ وہاب سن لیں کہ گلشن معمار کے عوام کا پانی چوری کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ہمارا اگلا احتجاج سپر ہائی وے پر ہوگا، رات کی تاریکی میں8 انچ کی پانی کی لائین چوری کی گئی ہے لیکن کسی کے کانوں میں جون تک نہیں رینگ رہی، اگر فوری طور پر غیر قانونی کنکشن کو ختم نہیں کیا تو ہم سپر ہائی وے بھی بلاک کرسکتے ہیں، اس لیے متعلقہ ادارے حرکت میں آئیں، غیر قانونی کنکشن کو ختم کیا جائے۔ ابو ضیا پرویز نے مزید کہا کہ گلشن معمار کے عوام سراپا احتجاج ہیں، پیپلز پارٹی کے ٹاؤن چیئرمین نے رات کی تاریکی میں بلڈر کو غیر قانونی کنکشن دیا ہے، گلشن معمار کے عوام کے حصے کا پانی چوری کرکے کیوں دیا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی کے ٹاؤن چیئرمین گلشن معمار میں کوئی ترقیاتی کام تو نہیں کروارہے لیکن گلشن معمار کے عوام کا پانی چوری کرکے فروخت کر رہے ہیں، پانی کا مسئلہ KDA کا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے ٹاؤن چیئرمین اپنے دائرہ کار سے ہٹ کر غیر قانونی کنکشن دے رہے ہیں، ہم نے غیر قانونی کنکشن کے حوالے سے تمام سرکاری دفاتر میں تحریری شکایات اور درخواست دائر کی اور قابض میئر کو بھی درخواست بھیجی لیکن تاحال کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ مظاہرین نے بینرز و پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر تحریر تھا کہ پیپلز پارٹی سہراب گوٹھ ٹاؤن کے چیئرمین لالا رحیم کی طرف سے سماما چوک تا بنگالی موڑ پر پانی کی 8 انچ کی چوری کی لائن نا منظور، گلشن معمار و اطراف کی سوسائٹیز کے رہائشی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے ٹاؤن چیئرمین سہراب گوٹھ بلڈر کو8 انچ کی چوری کی لائین ڈال کر دے رہے ہیں، لالا رحیم کی طرف سے گلشن معمار کے پانی پر ڈاکا نامنظور، MDA اور KDA گلشن معمار میں آؤٹر ڈیولپمنٹ کا کام مکمل کریں۔

متعلقہ مضامین

  • بلاول بھٹو ڈونلڈ ٹرمپ کے ناشتے میں شرکت کریں گے،شہلا رضا
  • پیپلز پارٹی سرکاری ملازمین کے معاشی قتل کے کسی اقدام کا حصہ نہیں بنے گی: سردار سلیم حیدر خان
  • سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار
  • بختاور بھٹو زرداری کی35ویں سالگرہ25جنوری کو منائی جائے گی
  • گرینڈ ہیلتھ الائنس بلوچستان کا موقف بھی سنا جائے، نیشنل پارٹی
  • پیپلزپارٹی کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنائیں گے،عوامی تحریک
  • گلشن معمار ‘پیپلز پارٹی کے ٹائون چیئرمین کیخلاف مکینوں کا مظاہرہ
  • بلاول بھٹو نے 20 جنوری کو لاہور میں اجلاس طلب کرلیا
  • پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سندھ کے وسائل کو مزید لٹنے نہیں دیں گے، حلیم عادل شیخ
  • جب سے ہماری حکومت بنی کئی بار پنجاب پر حملے ہوئے: مریم نواز