شیخ حسینہ پر کرپشن کے سنگین الزامات، تحقیقات کے بعد برطانوی وزیر کا استعفیٰ
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
LONDON:
برطانیہ کی وزیر مالی خدمات اور انسداد کرپشن ٹیولپ صدیق نے بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے ساتھ مالی لین دین کے حوالے سے تحقیقات کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ واجد کی قریبی رشتہ دار 42 سالہ ٹیولپ صدیق مسلسل ان الزامات کو مسترد کرتی رہی تھیں کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔
برطانوی وزیراعظم کیئراسٹارمر نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہیں اپنی وزیر پر مکمل اعتماد ہے۔
ٹیولپ صدیق نے وزیراعظم کو خط میں کہا کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ ان کے عہدے کی وجہ سے حکومت کے کام سے توجہ ہٹنے کا خدشہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شیخ حسینہ اور اہل خانہ کیلیے نئی مشکل؛ گھیرا تنگ ہوگیا
کیئراسٹارمر کی قیادت میں بننے والی برطانوی حکومت کے لیے بھی یہ بڑا دھچکا ہے کیونکہ جولائی میں لیبر پارٹی کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے بعد صرف دو ماہ کے دوران یہ دوسرے اہم وزیر کا استعفیٰ ہے۔
لیبرپارٹی کی حکومت کی وزیر ٹرانسپورٹ لوئس ہیگ نے 2024 کے اواخر میں اس بات پر استعفیٰ دیا تھا کہ وہ حکومت میں عہدہ حاصل کرنے سے پہلے معمولی مجرمانہ اقدام میں ملوث ہوئی تھی۔
سابق برطانوی وزیر نے موبائل فون چوری ہونے کی بے بنیاد رپورٹ دی تھی اور اسی وجہ سے لوئس ہیگ نے وزارت سے استعفیٰ دیا تھا۔
ٹیولپ صدیق کو نئی حکومت میں مالی خدمات کا قلم دان سپرد کیا گیا تھا، جس میں منی لانڈرنگ کے انسداد کے لیے اقدامات کی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔
برطانوی حکومت کے ضابطہ اخلاق کے مشیر نے وزیراعظم کیئراسٹارمر کو خط میں کہا کہ ٹیولپ صدیق نے وزارتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں کی تاہم وہ اپنے خاندان کی بنگلہ دیش سے تعلق کی وجہ سے ان کی شہرت کے حوالہ سے ہوشیار نہیں ہیں۔
انہوں نے وزیراعظم نے کہا کہ اس پہلو کی روشنی میں آپ ان کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب برطانوی وزیراعظم نے فوری طور پر ایما رینولڈز کو ٹیولپ صدیق کی جگہ وزیرمالی خدمات مقرر کردیا۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے خلاف 2024 میں عوامی سطح پر بدترین احتجاج کیا گیا تھا اور ان کی حکومت نے ظالمانہ کارروائیاں کرتے ہوئے مظاہرین پر گولیاں چلائی تھیں۔
شیخ حسینہ کو جولائی 2024 میں طلبہ اور عوام کے کے احتجاج کے نتیجے میں حکومت چھوڑنا پڑا تھا اور وہ ملک چھوڑ کر بھارت منتقل ہوگئی تھیں۔
بنگلہ دیش میں ایک دہائی سے زائد عرصے تک حکمرانی کرنے والی شیخ حسینہ واجد کے خلاف مبینہ طور پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی جاری ہی جبکہ ان کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔
اسی سلسلے میں دسمبر میں برطانوی وزیر ٹیولپ صدیق کو بھی تفتیش میں شامل کیا گیا تھا کہ آیا ان کا خاندان بھی بنگلہ دیش میں مختلف منصوبوں سے کرپشن کا پیسہ باہر منتقل کرنے میں ملوث تو نہیں ہے۔
انسداد بدعنوانی کمیشن نے الزام عائد کیا کہ 12.
رپورٹ کے مطابق ٹیولپ صدیق 2009 سے شمالی لندن میں اپنے خاندان سے ملنے والے گھر میں رہائش پذیر ہیں جو انہیں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی نمائندگی کرنے والے بنگلہ دیشی وکیل موسیٰ غنی سے ملا تھا اور انہوں نے کمپنیز ہاؤس وار لینڈ رجسٹری کو دستاویزات پیش کی تھیں۔
اس سے قبل انہوں نے 2004 میں لندن میں ہی ایک اور پراپرٹی حاصل کی تھی اور اپنے جیب سے کوئی ادائیگی نہیں کی تھی تاہم فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس کی قیمت شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے منسلک ڈیولپر نے ادا کیاتھا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شیخ حسینہ واجد برطانوی وزیر بنگلہ دیش انہوں نے
پڑھیں:
بنگلا دیش؛ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کرپشن کیس میں بری
بنگلا دیش کی عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو ایک اور کرپشن کیس میں بری کر دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ فیصلہ ڈھاکا میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سنایا۔
سپریم کورٹ نے 2018 کے ہائی کورٹ کی جانب سے خالدہ ضیا کو کرپشن کیس میں سزاؤں کو بھی کالعدم قرار دیدیا۔
بنگلادیش کی سپریم کورٹ نے کرپشن کیسز میں خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمان اور دیگر کو بھی بری کردیا۔
سابق وزیراعظم خالدہ ضیا اور ان کے بیٹے پر 2001 سے 2006 کے دوران غیرملکی عطیات میں 1 لاکھ 73 ہزار ڈالر غبن کا الزام تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں بھی خالدہ ضیا کو 31. 5 ملین ٹکا کے کرپشن کیس میں بھی بری کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ برس اگست میں طلبا تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کا 15 سالہ اقتدار کا سورج ڈوب گیا تھا جس کے بعد جیل میں قید سیاسی اسیروں کو رہا کردیا گیا تھا۔