ہیٹی: گینگ وار میں شدت سے دس لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 جنوری 2025ء) اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے بتایا ہے کہ ہیٹی میں مسلح جتھوں کے بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث ایک سال کے عرصہ میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی ہے۔
'آئی او ایم' کی جاری کردہ تازہ ترین معلومات کے مطابق، اس وقت ملک میں نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی مجموعی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ 20 دسمبر 2023 کو 315,000 تھی۔
ملک میں 10 لاکھ 41 ہزار لوگ پناہ گاہوں میں مقیم ہیں جن میں سے بیشتر کئی مرتبہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ Tweet URLادارے کے ترجمان کینیڈی اوکوتھ اومونڈی نے واضح کیا ہے کہ ان لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے انسانی امداد کی متواتر فراہمی ضروری ہے۔
(جاری ہے)
نقل مکانی کرنے والے بیشر لوگوں کا تعلق دارالحکومت پورٹ او پرنس سے ہے جو مسلح جتھوں کے تشدد کے باعث تحفظ کی خاطر گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ دارالحکومت میں ضروری خدمات کی فراہمی کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے اور خاص طور پر طبی اور غذائی عدم تحفظ بڑھتا جا رہا ہے۔تشدد سے ملحقہ علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں اور نقل مکانی کرنے والے لوگ دیگر صوبوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں ان کے میزبان علاقوں پر بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔
2024 میں ہزاروں ہلاکتیںامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ 2024 کے دوران پر تشدد واقعات میں 5,600 سے زیادہ لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ حالیہ ہفتوں میں مسلح جتھوں نے سیکڑوں لوگوں کا قتل عام کیا جو کئی روز تک جاری رہا۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے جرائم پیشہ جتھوں سے وابستہ 315 افراد کو قتل کیے جانے کے بارے میں بھی بتایا ہے۔
ایسے بیشتر واقعات میں ہیٹی کی پولیس بھی ملوث رہی ہے۔245 دسمبر کو مسلح افراد نے ملک کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کو دوبارہ کھولے جانے کے موقع پر ہونے والی پریس کانفرنس میں فائرنگ کر کے تین افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
ملک بدری کی مخالفت'آئی او ایم' نے کہا ہے کہ بیرون ملک سے ہیٹی کے 200,000 لوگوں کو واپس بھیجے جانے سے سماجی خدمات پر بوجھ مزید بڑھ جائے گا جبکہ مقامی لوگوں کو پہلے ہی بقا کی جدوجہد کا سامنا ہے۔
ممکنہ طور پر واپس بھیجنے جانے والے ان لوگوں کی اکثریت ڈومینیکن ریپبلک میں مقیم ہے۔'اوچا' نے بتایا ہے کہ ملک میں جاری تشدد کے باعث بڑھتی ہوئی پناہ گاہوں میں رہنے والے ہزاروں لوگوں تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ ایسی بیشتر پناہ گاہیں پورٹ او پرنس میں واقع ہیں جن کی تعداد ایک سال میں 73 سے بڑھ کر 108 تک جا پہنچی ہے۔ ان گنجان پناہ گاہوں میں رہنے والے لوگوں کی خوراک، صاف پانی، صحت و صفائی کی سہولیات اور تعلیم تک رسائی بہت محدود ہے جبکہ ان جگہوں پر بیماریاں پھیلنے کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔
امدادی وسائل کی قلتاقوام متحدہ نے گزشتہ برس ہیٹی کے لیے 674 ملین ڈالر کے امدادی وسائل فراہم کرنے کی اپیل کی تھی جن میں سے تاحال 42 فیصد ہی مہیا ہو پائے ہیں۔
23 دسمبر کو سلامتی کونسل نے عالمی برادری پر زور دیا تھا کہ وہ ہیٹی کی قومی پولیس کو کو مدد دینے کی کوششوں میں اضافہ کرے اور ملک میں قیام امن کی کارروائیوں کے لیے کینیا کے زیرقیادت کثیرملکی مشن کے اہلکاروں کی تعداد 2,500 تک بڑھائی جائے۔
اس وقت مشن کے ارکان کی تعداد 750 ہے جن میں بیلیز، ایل سلواڈور، گوئٹے مالا، جمیکا اور کینیا کے اہلکار شامل ہیں۔ کینیا نے بتایا ہے کہ وہ اپنے مزید 600 پولیس اہلکار اس مشن میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نقل مکانی کرنے کی تعداد لوگوں کی ملک میں کے لیے
پڑھیں:
خیبرپختونخوا: لوئر کُرم میں امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملہ، سپاہی شہید، 4 زخمی
خیبرپختونخوا کے ضلع کُرم کے علاقے بگن میں امدادی سامان پاراچنار لے جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کردی گئی. جس کے نتیجے میں ایک سپاہی شہید اور 4 دیگر زخمی ہو گئے۔ہنگو کے اسسٹنٹ کمشنر سعید منان نے ٹل سے پاراچنار امدادی سامان لے جانے والی 35 گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر حملے کی تصدیق کی ہے۔اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد انتظامیہ صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے۔
دریں اثنا، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شوکت علی نے بتایا کہ حملے کے نتیجے میں ایک سپاہی شہید جبکہ 4 زخمی ہوگئے، مزید کہنا تھا کہ قافلے میں شامل 3 گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا کہ حملہ آور دہشتگردوں کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے، جوابی کارروائی میں 6 دہشتگرد ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے۔کُرم سے سابق وفاقی وزیر ساجد طوری نے بتایا کہ جاری حملے میں چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔سینئر پولیس افسر صہیب گل نے اے ایف پی کو تصدیق کہ حملے کے بعد 21 ٹرک علاقے سے پیچھے ہٹ گئے جبکہ دیگر پھنسے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد 2 دیگر مقامات پر شدید فائرنگ شروع ہوئی، جو اب بھی جاری ہے. صہیب گل نے بتایا کہ حملے کے نتیجے میں کچھ ٹرکوں میں آگ بھی لگ گئی۔ڈپٹری کمشنر کُرم محمد اشفاق خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ تھل کے قریب ’فائرنگ جاری ہے۔
خیال رہے کہ پیر کے روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے امن معاہدے کے بعد ضلع کرم میں مورچوں کی مسماری کا عمل شروع کے حوالے سے بتایا تھا۔اس کے بعد منگل کے روز امدادی سامان پر مشتمل 25 گاڑیوں کے قافلے کے کُرم پہنچے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ کرم میں صورتحال معمول پر آرہی ہے۔
واضح رہے کہ 2024 کے آخری مہینوں میں کرم ایجنسی کے علاقے پارا چنار میں مسافر بس پر فائرنگ سے 44 افراد جاں بحق ہوگئے تھے. جس کے بعد کرم ایجنسی کے مختلف علاقوں میں مسلح قبائلی تصادم اور فائرنگ کے نتیجے میں مزید درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔متحارب فریقین کی جانب سے راستوں کی بندش اور احتجاج کی وجہ سے کرم ایجنسی میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی تھی. جس کے بعد وفاقی کابینہ کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہنگامی طور پر امدادی سامان پاراچنار بھیجا گیا تھا۔