ایم ڈی کیٹ کی بد ترین ناکامی کا ذمہ دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
ایم ڈی کیٹ کی بد ترین ناکامی کا ذمہ دار کون؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 14 January, 2025 سب نیوز
تحریر :عمران علی غوری
ایم ڈی کیٹ امتحان جتنا میڈیکل ایجوکیشن میں اہمیت رکھتا ہے اتنا ہی پاکستان میں اس کے انعقاد میں بد انتظامی،نا اہلی سامنے آ رہی ہے جو نہ صرف میڈیکل ایجو کیشن کے معیار کو تباہ کر رہی ہے بلکہ نوجوانوں کے مستقبل اور پاکستان کی قومی شناخت کو مسخ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ایڈمیشن ٹیسٹ 2024کی بدترین ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت، خاص طور پر، وزیر اعظم شہباز شریف، ان کے مشیران جن کی نااہلی نے داخلے کے ایک سید ھے سادے بنیادی عمل کو قومی شرمندگی میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایم ڈی کیٹ میڈیکل ایجوکیشن میں ایک سنگ میل کا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر اب ایم ڈی کیٹ کا امتحانی نظام پاکستان میں ڈراؤنا خواب بن کر رہ گیا ہے۔
اس بے یقینی کی کیفیت نے ڈاکٹروں کو مزید الجھن ا ور مایوسی کا شکار کر دیا ہے۔ ایم ڈی کیٹ کا امتحانی نظام جو پاکستان میں صحت کے شعبے کو روشن دماغ فراہم کر تا ہے،لاکھوں طلباء کے کیریئر کو چار چاند لگا تا ہے۔ قومی صحت کے معیارکو بلندی دینے کی بجا ئے پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل ر ہا ہے جس سے نوجوانوں کے خواب ٹوٹ رہے ہیں۔
ایم ڈی کیٹ کی ناکامی کی داستان اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ سا ل پہلی بار 22دسمبر کو اس کا شیڈول جاری کیا گیا جس میں تقریبا ایک لاکھ ستر ہزار 170,000 طلبا نے امتحان دیا۔ آغاز میں ہی امتحانی عمل کی شفافیت کو داغدار کر دیا،جس میں کچھ طلباء کیلئے قدرے آسانی رکھی گئی جب کہ بعض طلباء کے لیے یہ امتحان ناقابل عبور پہاڑ ثابت ہوا۔
قا بل افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) نے کوئی حل یا تدبیر کرنے کی بجائے روایتی رد عمل پر گزارہ کیااور اس سارے امتحانی عمل کی نا کامی پر نا تو کسی کی جوابدہی کی گئی اور نہ ہی احتساب کی طرف توجہ دینے کی زحمت کی گئی۔
اس ابتدائی بد انتظامی کے بعد جب سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے 24نومبر کو امتحان کو دوبارہ ری شیڈول کیا گیا مگر پھر موخر کر دیا گیا،کیا یہ حیران کن بات نہیں قومی سطح کے امتحان کو سیاسی عدم استحکام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سیاسی عدم استحکام کے عرصے میں حکومت نے عالمی ایونٹس کی میزبانی بھی کیاوردیگر نظام زندگی کو بھی کسی نہ کسی طرح سے بحال رکھا مگر شدید ٹھیس پہنچی تو وہ اس اہم ترین نوعیت کے امتحان کو پہنچی۔ حکومت کا ایم ڈی کیٹ کے امتحانی عمل کو صاف شفاف نہ رکھ پانا،نااہلی کی شرمناک صورتحال سے کم نہیں ہے اور یہ قابلیت کی کمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔قبل ازیں متعدد بار تاخیر کے بعد عدالتی مداخلت پر حکومت نے 30دسمبر کو اسلام آباد میں ایم ڈی کیٹ امتحانات کا انعقاد کیا جس میں ا سلام آباد، آزاد جموں و کشمیر (AJK)، اور گلگت بلتستان کے امیدواروں نے بھی امتحان میں حصہ لیا۔
ایم ڈی کیٹ امتحانات کی اس ہنگامہ خیز ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟،وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم حکومت مکمل طور پر خاموش ہے جو نہ تو ذمہ داران کا تعین کر سکی ہے اور نہ ہی کوئی بہتر لائحہ عمل دے سکی ہے۔ ڈاکٹر مہیش کمار ملانی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن اپنے اجلاس میں مطالبہ کر چکی ہے کہ کسی بھی قومی امتحان کے لیے شفافیت، انصاف پسندی، اور مساوات بنیاد ی ضرورت ہیں جس کو ایم ڈی کیٹ کے معاملے میں حکومت ہر صورت یقینی بنائے۔کمیٹی نے تعلیم میں نمایاں علاقائی تفاوت کو دور کرنے کے لیے ملک گیر نصاب کی تجویز بھی دی ہے یہ وہ تجاویز ہیں جن پر حکومت کو پہلے ہی عمل درآمد کرنا چاہیے تھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے حکومت خاموشی کے ذریعے مزید وقت گزارنا چاہتی ہے جو پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے مستقبل کیلئے تباہ کن ہے۔
امتحانات میں مسلسل تاخیر اور علاقائی تفاوت تو تھا ہی، مگر اس بار جو انتظامی نااہلی سامنے آئی ہے اس نے ایم ڈی کیٹ امتحانات کی ساکھ کو مزید خراب کر دیا ہے۔ رجسٹریشن کا نظام غلطیوں سے بھرپورا تھا۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پا کستان کے تعلیمی نظام کا ڈھا نچہ کتنا پیچھے ہے۔ یہ کسی ا یک کی غلطی نہیں بلکہ پورے نظام کی نکا می کی عکاس ہے جس نے پاکستان کے پورے تعلیمی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اور ایک بار پھر، اقتدار کی مسند پر بیٹھے ذمہ داران ان ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر بیٹھے ہیں
۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انتظامی ناکامی ہے یا ٹیکنیکل،کسی کی نااہلی ہے یا جرم،مگر اس کی ذمہ داری براہ راست حکومت وقت،وزیر اعظم شہباز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ایم ڈی کیٹ میں خرابیوں کی وجہ سے ہزاروں طلباء کے مستقبل کو ایک غیر یقینی، تکلیف دہ صورت حال سے دو چارہے۔ جس سے پاکستان کے تعلیمی نظام کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب، بین الاقوامی طلبا ء اور تعلیمی سرمایہ کار پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ صورت حال حکومت کی ناکامی کا براہ راست نتیجہ ہے۔حکومت کی اس ناکامی کی وجہ سے پاکستان ہر سال ذہین ترین ذہنوں سے محروم ہو رہا ہے،پاکستانی نوجوان غیر ملکی یونیورسٹیز کا رخ کر رہے ہیں اور یہ ”برین ڈرین“ ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا چکا ہے۔
حکومت کو فوری طور پر ایم ڈی کیٹ کے امتحانی عمل کے کنٹرول سے دستبردار ہوجا نا چاہیے۔ میڈیکل اور ڈینٹل یونیورسٹیوں کو اپنے امتحانات کا انعقاد خودسے کرنے کے لیے بااختیار بنانا چاہیے۔ تا کہ یہ تعلیمی ادارے ایک شفاف اور میرٹ پر مبنی نظام وجود میں لا سکیں جو ان کے نصاب سے ہم آہنگ ہو اور طلباء کو مناسب اورمساوی موقع فراہم کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو بہت دیر ہو جا ئے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ناکامی کا ذمہ دار کون پاکستان میں کے امتحان کر دیا کے لیے
پڑھیں:
اب قومی شناختی کارڈ نمبر ہی میڈیکل ریکارڈ (ایم آر) نمبر ہو گا: مصطفیٰ کمال
وفاقی وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ قومی شناختی کارڈ نمبر اب میڈیکل ریکارڈ (ایم آر) نمبر کے طور پر کام کرے گا۔
مصطفیٰ کمال نے نادرا ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر سے اعلیٰ سطح کی ملاقات کی۔
ملاقات میں اعلان کیا گیا کہ ’ایک مریض، ایک شناخت‘ وژن کے تحت مریضوں کے میڈیکل ریکارڈ کے لیے ایم آر نمبر کا نفاذ کر رہے ہیں جس سے پورے ملک میں کسی بھی وقت مریضوں کا میڈیکل ریکارڈ قابلِ رسائی ہو گا۔
وزیرِ صحت نے کہا کہ پاکستان کے ہیلتھ سسٹم میں مریضوں کی میڈیکل ہسٹری کا جامع ڈیٹا موجود نہیں، جسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اب نادرا کے ڈیٹا بینک کی مدد سے جدید، مؤثر اور مربوط ڈیجیٹل ہیلتھ سسٹم قائم کیا جائے گا، ٹیلی میڈیسن کے ذریعے طبی سہولتیں عوام کی دہلیز تک پہنچائی جائیں گی۔
مصطفیٰ کمال نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم روایتی نظام سے نکل کر ڈیجیٹل ہیلتھ کو اپنائیں تاکہ معیاری اور پائیدار علاج ہر فرد کو میسر ہو، اس سلسلے میں ملک کا سب سے بڑا اور محفوظ ترین شہری ڈیٹا بیس نادرا نئے ڈیجیٹل ہیلتھ سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایک مریض، ایک شناخت‘ وژن کے تحت پورے ملک میں ایک ایم آر نمبر نافذ کرنے جا رہے ہیں اور اب قومی شناختی کارڈ نمبر ہی ایم آر نمبر ہو گا۔
Post Views: 1