واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)نو منتخب صدرامریکا ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ پر قبضے کے بیان نے ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی اور جنہیں اس کے بارے میں نہیں پتہ تھا انہوں نے بھی جان لیا کہ گرین لینڈ جزیرہ کیا ہے اور کہاں ہے لیکن اب ایک تازہ ترین پول نے پھر دنیا کو چونکادیا ہے ۔

ایک نئے ریفرنڈم میں گرین لینڈ کے رہائشیوں کی اکثریت نے امریکہ میں شامل ہونے کی حمایت کردی ہے۔ امریکی ریسرچ فرم پیٹریاٹ پولنگ کے مطابق ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کرنے والوں کی تعداد 37.

4 فیصد ہے، جب کہ 5.3 فیصد غیر فیصلہ کن ہے۔

پیٹریاٹ پولنگ فاؤنڈیشن کی طرف سے اتوار کو کیے گئے ایک سروے کے مطابق 57.3 فیصد شرکا نے گرین لینڈ کے امریکہ کا حصہ بننے سے اتفاق کیا۔

یہ پہلا موقع ہے جب گروپ نے امریکہ سے باہر رائے شماری کرائی ہے۔ یہ سروے نو منتخب صدر کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے دورے کے دوران کیا گیا تھا۔ ٹرمپ بارہا اس جزیرے کے حصول میں اپنی دلچسپی کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ جزیرہ آرکٹک اوقیانوس اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ہےاور ڈنمارک کی بادشاہی کے اندر ایک خود مختار انتظامی ڈویژن ہے۔

ٹرمپ نے حال ہی میں گرین لینڈ اور پاناما کینال کے جزیرے کو حاصل کرنے کے لیے فوجی کارروائی کو مسترد کرنے سے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں اقتصادی تحفظ کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ میں فوجی کارروائی نہ کرنے کے اپنے عزم کا اعلان نہیں کروں گا۔ ہمیں کچھ کرنا پڑ سکتا ہے۔

یادرہے گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹ میوٹ ایگیڈ نے جمعہ کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھاکہ یہ جزیرہ “… گرین لینڈ کے لوگوں کے لیے ہے۔ ہم ڈینش نہیں بننا چاہتے، ہم امریکی نہیں بننا چاہتے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جزیروں کے باشندوں کی خواہش ایک آزاد ملک بننا ہے، اور وعدہ کیا کہ اس معاملے پر ووٹ “جلد آئے گا۔”

تاہم، میوٹ ایگیڈ نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ “بات چیت کے لیے تیار” ہیں، اور مستقبل میں بھی امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

ڈنمارک گرین لینڈ کی آزادی کے لئے ذہنی طور پر تیار

یادرہے 2008 میں، گرین لینڈ نے ڈنمارک سے خود مختاری کے حصول کے لئے ایک ریفرنڈم منعقد کیا تھا جس کے نتیجے میں 75% ووٹرز نے خود مختاری کے حق میں ووٹ دیا تھا ریفرنڈم میں 72% ٹرن آؤٹ تھا۔ جس کے نتیجے میں 2009 کے سیلف گورنمنٹ ایکٹ نے جزیرے کو اپنے معاملات میں کافی حد تک خودمختار کردیا تھا۔ گرین لینڈ میں اتفاق رائے ہے کہ وہ بالآخر آزادی حاصل کر لے گا اور یہ بھی کہ اگر گرین لینڈ اپنی آزادی کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو ڈنمارک اسے قبول کرے گا اور اس کی توثیق بھی کرے گا۔

ڈنمارک نے اس سے قبل گرین لینڈ اور فیرو جزائر دونوں کے لیے ایسے الحاق اور ان کی حیثیت کی اس تبدیلی کی مخالفت کی تھی لیکن ڈنمارک کی موجودہ وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن یقینی اور مکمل طور پر اس کے خلاف نہیں ہیں۔
گرین لینڈ پر امریکا کی نظریں کیوں ؟
گرین لینڈ2.2 ملین مربع کلومیٹر (جرمنی کے سائز کا تقریباً چھ گنا) کے رقبے پر پھیلا ہوا جزیرہ ہے جس کی کل آباد ی محض 57 ہزار ہے ، گرین لینڈ 80% برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ جزیرہ سونے، چاندی، تانبے اور یورینیم کے ذخائر سے مالا مال ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے علاقائی پانیوں میں تیل کے وسیع ذخائر ہیں۔لیکن اس کی سست ترقی نے اس کی معیشت کو ماہی گیری اور ڈنمارک سے ملنے والی سالانہ سبسڈی پر انحصار کرنے والا بنا دیا ہے

2023 میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں جیولوجیکل سروے آف ڈینمارک اور گرین لینڈ نے تخمینہ پیش کیا کہ جزیرے پر 38 معدنیات بڑی مقدار میں موجود ہیں جن میں کاپر، گریفائیٹ، نیوبیئم، ٹائٹینیئم، روڈیئم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نایاب معدنیات جیسا کہ نیوڈیمیئم اور پریسیوڈائمیئم جو الیکٹرک گاڑیوں کی موٹر اور ونڈ ٹربائن بنانے میں کام آتی ہیں بھی پائی گئی ہیں۔

مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈم سائمن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’ گرین لینڈ میں دنیا کی سب سے نایاب معدنیات کا عالمی طور پر 25 فیصد حصہ موجود ہو سکتا ہے۔‘ اگر یہ دعوی درست ہے تو مقدار کے حساب سے یہ پندرہ لاکھ ٹن بنتا ہے۔

چین بھی گرین لینڈ میں اہم کھلاڑی
یاد رہے کہ توانائی کی بدلتی ہوئی عالمی ضرورت کے بیچ نایاب معدنیات کا حصول اہم ہو چکا ہے جبکہ انھیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں دنیا بھر میں ایسی معدنیات کی بڑی کانوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ایسے میں تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں۔

چین اس وقت ان معدنیات کی مارکیٹ کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے جو ایک تہائی حصے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے چین کے سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گرین لینڈ میں اس وقت دو کمپنیاں نایاب معدنیات پانے پر کام کر رہی ہیں جن میں سے ایک کے پیچھے چینی سرکاری کمپنی کی سرمایہ کاری ہے۔

گرین لینڈ پر پہلے ہی امریکا کا قبضہ ہے

بنیادی طور پر امریکہ کے لیے گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا کیونکہ گرین لینڈ میں اس کے پہلے ہی فوجی اڈے اور بڑی تعداد میں فوجی موجود ہیں۔
اس مسئلے پر ایک ممکنہ حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جزیرہ الحاق کی جانب بڑھے۔ جیسا کہ اس سے قبل امریکہ نے بحرالکاہل کے ممالک مارشل آئی لینڈز، مائیکرونیشیا اور پالاؤ کے ساتھ کیا ہے۔لیکن اگر گرین لینڈ ڈنمارک سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو حالیہ برسوں میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ امریکہ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسری عالمی جنگ میں اس جزیرے پر قبضہ کرنے کے بعد امریکیوں نے در حقیقت اس جزیرے کو کبھی چھوڑا ہی نہیں اور امریکہ اس جزیرے کو اپنی سلامتی اور مستقبل کے لیے اہم سمجھتا ہے۔

گرین لینڈ پر بزور طاقت قبضے کا نتیجہ نیٹو کا خاتمہ

اگر ٹرمپ گرین لینڈ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو نیٹو کے آرٹیکل 5 کے مطابق وہ نیٹو پر حملہ کریں گے۔ لیکن اگر کوئی نیٹو ملک نیٹو کے کسی رکن ملک پر حملہ کرتا ہے تو ’نیٹو‘ کا وجود باقی نہیں رہے گا۔‘ڈنمارک کے انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینیئر محقق الریک گڈ نے بی بی سی کو بتایا ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ اس سرزمین کو حاصل کرنا ہمارے لیے درست ہے۔ اگر ہم واقعی ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں تو یہ مغربی ممالک کے پورے اتحاد کے لیے ایک بری علامت ہے۔
مزیدپڑھیں:آئی فون 17 کی قیمت کیا ہوگی؟

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: گرین لینڈ میں گرین لینڈ کے گرین لینڈ پر جزیرے کو یہ جزیرہ کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

حماس نے غزہ معاہدے کو ’گرین سگنل‘ دے دیا، اسرائیلی عہدیدار کا دعویٰ

اسرائیلی عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کی تجویز پر اتفاق کرلیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کے حوالے سے قطر میں موجود مذاکرات کاروں کی جانب سے دی جانے والی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔
دوسری جانب رائٹرز کی ہی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس نے جنگ بندی کی تجویز پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔
وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اطلاعات کے برعکس حماس نے ابھی تک معاہدے پر اپنا جوابی ردعمل نہیں دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ غزہ معاہدے کے حوالے سے گیند حماس کے کورٹ میں ہے۔
واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ سب کچھ گنوانے کے بعد ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حزب اللہ کے خاتمے کے بعد ایران کی اہم سپلائی لائن تباہ ہوگئی، خطے میں امن، استحکام کے لیے ایران کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی پر مہر لگانا حماس پر منحصر ہے جب کہ حتمی تجویز قطر میں مذاکرات کی میز پر ہے، گیند اب حماس کے کورٹ میں ہے۔
انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ اگر حماس قبول کر لیتا ہے تو یہ معاہدہ طے پانے اور عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔
انٹونی بلنکن کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب کہ اس سے ایک روز قبل قطر نے اسرائیل اور حماس کو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کا حتمی مسودہ پیش کر دیا تھا۔
مذاکرات سے آگاہ ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی نے بھی بات چیت میں شرکت کی تھی، جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مسودہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں طے کیا گیا تھا، جس میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں موساد اور شین بیٹ کے سربراہان، قطر کے وزیر اعظم اور نامزد امریکی سفیر اسٹیو وٹکوف بھی شامل تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سبکدوش ہونے والی امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں نے بھی بات چیت میں شرکت کی ہے۔
عہدیدار نے کہا تھاکہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اگلے 24 گھنٹے اہم ہوں گے، اسرائیل کے کان ریڈیو نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے پیر کو خبر دی تھی کہ قطر میں اسرائیلی اور حماس کے وفود کو ایک مسودہ موصول ہوا ہے اور اسرائیلی وفد نے اسرائیلی رہنماؤں کو بریفنگ دی ہے۔
ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے کہا تھا کہ اگر حماس کسی تجویز کا جواب دیتی ہے تو چند دنوں میں ایک معاہدے پر دستخط کیے جاسکتے ہیں۔
مذاکرات سے وابستہ ایک فلسطینی عہدیدار نے کہا تھا کہ دوحہ سے ملنے والی معلومات ’بہت امید افزا‘ ہیں، انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’خلا کو کم کیا جا رہا ہے اور اگر آخر تک سب کچھ ٹھیک رہا تو معاہدے کی طرف ایک بڑی پیش قدمی ہے۔‘
ٹرمپ کی 20 جنوری کی حلف برداری کو اب خطے میں ایک آخری مہلت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، امریکا کے نومنتخب صدر نے کہا تھا کہ ان کے عہدہ سنبھالنے تک حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو اس کی قیمت چکانی پڑے گی جب کہ صدر جو بائیڈن بھی اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل کسی معاہدے کے لیے سخت کوششیں کر چکے ہیں۔
عہدیدار نے بتایا تھا کہ مصر کی جنرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ حسن محمود رشاد بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر کے دارالحکومت میں موجود تھے۔
ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نومبر کے اواخر سے اب تک متعدد بار قطر اور اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں، وہ جمعہ کو دوحہ میں تھے اور دوحہ واپسی سے قبل ہفتے کے روز وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے اسرائیل گئے تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز غزہ کے محکمہ شہری دفاع کے ترجمان محمود باسل نے کہا تھا کہ پیر کو اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ شہر پر دن بھر بمباری کی گئی جس میں اسکولوں، گھروں اور لوگوں کے اجتماعات کو نشانہ بنایا گیا جس میں کم از کم 50 فلسطینی شہید ہوگئے۔
ترجمان کے مطابق شجاعیہ کے علاقے میں گھر پر کیے گئے اسرائیلی حملے میں 11 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے جب کہ دیگر شہادتیں غزہ کے مختلف علاقوں میں دن بھر جاری رہنے والے حملوں میں ہوئیں۔
غزہ کے محکمہ صحت کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر کے بعد سے جاری اسرائیلی حملوں میں 46 ہزار 600 فلسطینی شہید جبکہ ایک لاکھ 9 ہزار 700 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد: چمبڑ کے رہائشی پولیس کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں
  • میرپورخاص: گھر میں قائم ایل پی جی کی دکان میں دھماکا
  • مذاکراتی فریقین چاہتے ہیں عمران خان جیل میں رہیں، فیصل واوڈا
  • حملہ آور کی شاہ رُخ خان کے گھر میں بھی گھسنے کی کوشش، چونکا دینے والا انکشاف
  • مذاکرات کرنے والے دونوں فریقین چاہتے ہیں عمران خان جیل میں رہیں، فیصل واوڈا
  • ٹرمپ کو کرارا جواب، ڈنمارک کا 500 سالہ شاہی نشان تبدیل
  • حملہ آور کو سیف علی خان کے گھر سے مدد ملنے کا چونکا دینے والا انکشاف
  • حملہ آور کو سیف علی خان کے گھر سے مدد ملنے کا چونکا دینے والا انکشاف
  • حماس نے غزہ معاہدے کو ’گرین سگنل‘ دے دیا، اسرائیلی عہدیدار کا دعویٰ
  • 14 لاکھ کی نوکری چھوڑ کر کینیڈا میں تعلیم کیلئے آنے والے شہری کو پچھتاوا