پاکستان میں دہشتگردوں کی نئی حکمت عملی کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
پاکستان میں شدت پسندی کے بڑھتے واقعات نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس اور شورش زدہ علاقوں میں امن و امان کی صورت حال پر پھر سوال اٹھا دیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا جنرل باجوہ نے کہا، یہ حکومت کا فیصلہ نہیں تھا، پی ٹی آئی
وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور سرحدی علاقوں میں رات کے اوقات میں شدت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت ریاستی عمل داری کے لیے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔
طالبان کی واپسی کے بعد معاملات مزید بگڑےماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی اور اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے باعث شدت پسندوں کو پنپنے کا موقع ملا ہے۔
’شدت پسند اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر رہے ہیں‘سنگاپور میں شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے ایک محقق عبدالباسط کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے طریقہ واردات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 برسوں میں شدت پسندوں کے حملے زیادہ تر سیکیورٹی اداروں تک محدود تھے لیکن اب انہوں نے اپنی حکمتِ عملی میں واضح تبدیلی کرتے ہوئے اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نوکریاں چھوڑنے کی دھمکیوں جیسے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
سنگین جرائم اور جرگے کے ذریعے جان خلاصیواضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں پولیس، لیویز اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں کے اغوا کے واقعات اور پھر جرگوں کے ذریعے رہائی ایک معمول کی بات بنتی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیے: ٹی ٹی پی القاعدہ کے متبادل کے طور پر جگہ لے سکتی ہے، پاکستان کا اقوام متحدہ کو انتباہ
حال ہی میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو ایک حساس اور ملک کے لیے اہم نوعیت کے ادارے سے وابستہ افراد کو بھی اغوا کر چکے ہیں۔ اس واقعے کے بعد مختلف عمائدین کی کوششوں سے ٹی ٹی پی کے ساتھ جرگے کی کئی نشستیں منعقد کی جا چکی ہیں لیکن تاہم صورت حال بدستور تشویش ناک ہے۔
شدت پسندوں کا گشت اور رہائشیوں میں خوفعبدالباسط کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے سابقہ قبائلی علاقوں میں پیٹرولنگ نے مقامی رہائشیوں کے خوف و ہراس کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے جو کہ ریاستی رٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام عوامل شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کے دائرہ کار کی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں۔
دہشتگردوں کے دائرہ کار میں وسعتان کے مطابق پہلے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں سابقہ قبائلی علاقوں تک محدود تھیں لیکن اب انہوں نے جنوبی اضلاع کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ان علاقوں میں شدت پسند کھلے عام حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں جو سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: سہراب گوٹھ میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، کالعدم ٹی ٹی پی کے 3 دہشتگرد گرفتار
عبد الباسط خطے میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو حکومت کی غیر واضح اور غیر مؤثر پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
ان کے بقول شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومتی حکمتِ عملی میں تسلسل اور وضاحت کا فقدان ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وہاں کی مقامی آبادی کا حکومت اور ریاست پر بداعتمادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ٹی ٹی پی نے نہ صرف اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں بلکہ نئے علاقوں تک اپنے اثر و رسوخ کو بھی بڑھا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان میں دہشتگرد کارروائیاں پاکستان میں دہشتگردی ٹی ٹی پی خیبر پختونخوا میں دہشتگردی دیشتگردوں کی نئی حکمت عملی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان میں دہشتگرد کارروائیاں پاکستان میں دہشتگردی ٹی ٹی پی خیبر پختونخوا میں دہشتگردی پاکستان میں علاقوں میں ٹی ٹی پی کا کہنا کے لیے
پڑھیں:
سیستان میں پاکستان مخالف تنظیم کے ہاتھوں 8 پاکستانیوں کا قتل
ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ پاکستانی موٹر میکینکس تھے۔ تمام افراد آٹوریپئرشاپ پر کام کرتے تھے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ واقعہ پاکستانی سرحد سے 100 کلومیٹر دور پیش آیا۔ تمام افراد کو ہاتھ، پیر باندھ کر قتل کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاک ایران سرحد کے قریب 8 پاکستانیوں کو قتل کردیا گیا، جاں بحق افراد کا تعلق بہاولپور سے ہے، سیستان میں پاکستان مخالف تنظیم نے نشانہ بنایا۔ پاکستانی سفارت خانہ کے حکام تفصیلات حاصل کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاک ایران سرحد کے قریب 8 پاکستانیوں کا قتل کیا گیا ہے، قتل ہونے والوں کا تعلق بہاولپور کے علاقے سے ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان افراد کو ایرانی سیستان بلوچستان صوبے میں قتل کیا گیا۔ پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی سفارت خانہ کے حکام تفصیلات حاصل کر رہے ہیں، دور دراز علاقہ ہے، تاحال ایرانی حکام کی جانب سے کچھ نہیں بتایا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی سفارتخانہ کے افسران جائے وقوعہ روانہ ہو چکے ہیں۔ لاشوں کی تصدیق اور شناخت کا عمل جاری ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ پاکستانی موٹر میکینکس تھے۔ تمام افراد آٹوریپئرشاپ پر کام کرتے تھے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ واقعہ پاکستانی سرحد سے 100 کلومیٹر دور پیش آیا۔ تمام افراد کو ہاتھ، پیر باندھ کر قتل کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق جاں بحق افراد میں دکان کا مالک دلشاد اور بیٹا نعیم شامل ہیں جبکہ جعفر، دانش اور نثار بھی قتل کیے گئے افراد میں شامل ہیں۔