UrduPoint:
2025-04-15@11:41:30 GMT

درجنوں اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں لڑنے سے مشروط انکار

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

درجنوں اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں لڑنے سے مشروط انکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جنوری 2025ء) خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق غزہ کی جنگ میں مزید حصہ نہ لینے سے متعلق اسرائیلی فوجیوں کا یہ خط ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب اسرائیل اور حماس پر لڑائی ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ فائر بندی کے لیے بات چیت جاری ہے، اور امریکی صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے 20 جنوری سے قبل کسی سیزفائر معاہدے تک پہنچنے پر زور دیا ہے۔

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ، لینسیٹ

جن اسرائیلی فوجیوں نے اس خط پر دستخط کیے ہیں، ان میں سے سات نے اپنے انکار کی وجوہات پر اے پی سے بات چیت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو ''بے دریغ مارنے اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کرنے‘‘ کے حق میں نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

کئی فوجیوں نے بتایا کہ انہیں ایسے گھروں کو بھی، جن سے کوئی خطرہ نہیں تھا، جلانے یا گرانے کا حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے ''فوجیوں کو لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرتے‘‘ بھی دیکھا۔

لڑنے سے مشروط انکار کرنے والے فوجیوں کا کہنا ہے کہ خط پر اگرچہ 200 دستخط ہیں لیکن اور بھی بہت سے فوجی ان کے خیالات سے متفق ہیں۔

’قتل کا ناقابل فراموش منظر‘

غزہ پٹی میں لڑنے سے انکار کرنے والے ایک افسر 28 سالہ یوتم ولک کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک نہتے فلسطینی نوجوان کے 'قتل کا منظر‘ ان کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔

غزہ کے ہیومینیٹیرین زون میں اسرائیلی حملہ، گیارہ ہلاکتیں

انہوں نے اے پی کو بتایا کہ غزہ میں اسرائیل کے زیرقبضہ بفر زون میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر مجاز شخص کو گولی مار دینے کا حکم ہے۔ یوتم کا کہنا تھا کہ انہوں نے کم از کم 12 افراد کو بفر زون میں فائرنگ سے زخمی ہوتے دیکھا ہے۔

ولک ان اسرائیلی فوجیوں میں شامل ہیں، جو پندرہ ماہ سے جاری اس تنازعے کے خلاف ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس لڑائی کے دوران ایسی چیزیں دیکھیں یا کی ہیں، جو ان کی نظر میں 'غیر اخلاقی‘ تھیں۔

ولک کا کہنا تھا کہ جب وہ نومبر 2023 میں غزہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے سوچا تھا کہ طاقت کا ابتدائی استعمال دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔ لیکن جنگ طول پکڑ گئی۔ ولک نے مزید کہا کہ انہوں نے انسانی زندگی کی قدروں کو بکھرتے دیکھا ہے۔

اسرائیلی فوج کے طبی شعبے سے وابستہ 27 سالہ یووال گرین نے غزہ میں دو ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ جنوری میں فوج کو چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وہاں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اس کے ساتھ وہ زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے گھروں کی بے حرمتی کی۔ ہسپتالوں کو نقصان پہنچایا۔ لوٹ مار کی، ''حتٰی کہ وہ عبادت گاہوں تک سے چیزیں لوٹ کر لے گئے۔

‘‘ حماس بھی ہلاکتوں کی ذمہ دار

ولک کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ ہلاکتوں کی ذمہ دار حماس بھی ہے۔ ایک گرفتار فلسطینی نے بتایا تھا کہ حماس نے کچھ لوگوں کو بفر زون میں جانے کے لیے 25 ڈالر فی کس دیے تھے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اسرائیلی فوج کا ردعمل کیا ہو گا۔

حماس نے 34 یرغمالیوں کے بارے میں تفصیلات نہیں دیں، اسرائیل

ولک کہتے ہیں کہ بفر زون میں آنے والوں کو مارنے سے پہلے فوج نے انتباہی گولیاں بھی چلائی تھیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ 'نہتے لوگوں‘ کو ہلاک کرنے میں جلدی کی گئی۔

کچھ فوجیوں نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے غزہ میں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اسے ذہنی طور پر قبول کرنے میں وقت لگا۔ کئی دوسرے فوجیوں نے کہا کہ بعض واقعات ایسے تھے کہ ان کا فوری طور پر فوج کی نوکری چھوڑ دینے کو دل چاہا۔

لیکن فوج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جنگ سے انکار کی تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا ردعمل

اسرائیلی فوج نے اے پی کو بتایا کہ وہ فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کرنے کی مذمت کرتی ہے۔

اپنے ایک بیان میں فوج نے کہا ہے کہ ایسے فوجیوں کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا۔

اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اس سلسلے میں ہر کیس کو انفرادی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اسرائیل میں جنگ کے طول پکڑنے کے ساتھ اس پر تنقید بڑھ رہی ہے۔ لیکن ملک کے اندر زیادہ تر تنقید یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے فائر بندی پر مرکوز ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام لگا چکی ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے عائد کردہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے، اور وہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔

لیکن اسرائیل کاغیر معمولی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ فوج کبھی بھی جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ نہیں بناتی اور فلسطینی شہری آبادی کے پہنچنے والے نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔

ج ا ⁄ ع ا، م م ( اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی فوجیوں کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کہ انہوں نے فوجیوں نے نے بتایا کے لیے فوج نے

پڑھیں:

ہارورڈ یونیورسٹی کا ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار

امریکا کی صف اول کی ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کو خط میں یہ بھی کہا تھا کہ طلبہ اور فیکلٹی کے اختیارات کم کیے جائیں۔

انتظامیہ نے خط میں لکھا کہ بیرونِ ملک سے آئے طلبہ کی خلاف ورزیوں کو فوراً وفاقی حکام کو رپورٹ کیا جائے اور ہر تعلیمی شعبے پر نظر رکھنے کے لیے کسی بیرونی ادارے یا شخص کی خدمات حاصل کی جائیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر نے مطالبات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت یہ فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں کہ نجی یونیورسٹیاں کیا پڑھائیں، کس پر تحقیق کریں اور کس کو داخلہ یا ملازمت دیں۔

واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مارچ میں ہارورڈ کے 256 ملین ڈالر کے وفاقی اور 8.7 ارب ڈالر گرانٹ وعدوں کا جائزہ لینے کا کہہ چکی ہے، کیونکہ یونیورسٹی نے یہود مخالف رویے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • غزہ اہل فلسطین کا ہے اور انہی کا رہے گا، حافظ طلحہ سعید
  • ہارورڈ یونیورسٹی کا ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار
  • اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبا کی نگرانی سے انکار، ہارورڈ یونیورسٹی کی  2.3 ارب ڈالر کی امداد بند
  • مصری تجویز مسترد: حماس کا جنگ بندی معاہدے کے لیے غیر مسلح ہونے سے انکار
  • اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے 250 سے زائد سابق اہلکاروں کا غزہ جنگ بندی کا مطالبہ
  • اوورسیز پاکستانیوں کا عمران خان کو صاف انکار
  • ہم امریکا پر انحصار کیے بغیر مزید 5 ہزار سال بھی سروائیو کر سکتے ہیں، چینی تھینک ٹینک
  • ملائشیا میں خوفناک آتشزدگی سے درجنوں لوگوں کو بچانے والے 5 پاکستانی ہیروز کو خراج تحسین
  • حماس ہسپتالوں کو کمانڈ سنٹر کے طور پر استعمال نہیں کرتی، اسرائیلی جھوٹ بولتے ہیں، یورپی ڈاکٹر
  • ملک میں پولیو ویکسین سے انکار کرنیوالے 44 ہزار میں سے 34 ہزار والدین کراچی کے ہیں;وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال