ٹرائل کے دوران میں نے ججز کو بیمار ہوتا،کانپتے ہوئے دیکھا: بشریٰ بی بی کا جج سے مکالمہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
ٹرائل کے دوران میں نے ججز کو بیمار ہوتا،کانپتے ہوئے دیکھا: بشریٰ بی بی کا جج سے مکالمہ WhatsAppFacebookTwitter 0 14 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: انسداد دہشتگردی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران بشریٰ بی بی نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کے دوران میں نے ججز کو بیمار ہوتے اور کانپتے ہوئے دیکھا ہے۔
اسلام آباد میں گاڑی سے رینجرز اہلکاروں کو ٹکر مارنے کے کیس کی سماعت انسداد دِہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے کی جس دوران بشریٰ بی بی عدالت میں پیش ہوئیں۔
دوران سماعت بشریٰ بی بی اور جج طاہرعباس کے درمیان دلچسب مکالمہ ہوا جس میں جج نے کہا کہ تھوڑا وقت لگ گیا ہے لیکن قانونی ضابطے پورے کیےگئے ہیں، اس پر بشریٰ بی بی نے جواب دیا کہ نہیں کوئی بات نہیں، ہمارا عدالتوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔
جج طاہر عباس نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، ہر جگہ سے اعتماد نہیں اٹھا، جسٹس سسٹم جیسا بھی چل رہاہے اگر ختم ہوگیا تو سوسائٹی ختم ہو جائیگی، آپ میرے پاس کچہری میں بھی پیش ہوتی رہی ہیں۔
اس موقع پر بشریٰ بی بی نے کہا کہ ٹرائل کے دوران میں نے ججز کو بیمار ہوتے اور کانپتے ہوئے دیکھا ہے، ایک جج صاحب کا بلڈپریشر 200 پر گیا لیکن انہوں نے ہمیں سزا سنانی تھی۔
بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ نے کہا کہ ملک میں قانون ہے لیکن انصاف نہیں، بانی پی ٹی آئی جیل میں آئین کی بالادستی کے لیے قید ہیں، ہمارے ساتھ جو ہوا ہے اس کے بعد قانون سے یقین ختم ہوگیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے بشریٰ بی بی کی تھانہ رمنا میں درج مقدمے میں7 فروری تک عبوری ضمانت منظور کرلی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ٹرائل کے دوران میں نے ججز کو بیمار
پڑھیں:
سپریم کورٹ، سویلینز کے اب تک کیے گئے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا بھارتی جاسوس کلبھوشن کے علاوہ اب تک جتنے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوا اس کی تفصیلات بھی جمع کرائیں, جبکہ جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا، تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کو ایک کیس کا ریکارڈ جائزہ کیلئے دکھا دیں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کہ کیا ملٹری کورٹ میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے ہوئے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹس یا سپریم کورٹ میرٹس کا جائزہ نہیں لے سکتیں، جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے ٹرائل میں پیش شواہد کو ڈسکس نہیں کرنا، محض شواہد کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، نیچرل جسٹس کے تحت کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت بنیادی حقوق کے نقطہ پر سزا کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ پانچ رکنی بنچ نے قابل سماعت ہونے کے نقطہ کا درست جائزہ نہیں لیا، عدالت ریکارڈ کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی، زندگی کا حق اور فیئر ٹرائل شروع سے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے نہ بھی ہو تب بھی پروسیجر تو فالو کرنا ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آرٹیکل 8(3) میں بنیادی حقوق واپس لے لیے گئے ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا یہ آرٹیکل 1973 سے آئین میں شامل ہے، جہاں آرٹیکل 8 ذیلی سیکشن 3 کا اطلاق ہو گیا بنیادی حقوق ختم ہوگئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سویلین کے ملٹری ٹرائل والے قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 2010 میں آیا، فوجداری ضابطہ 1898 کا ہے، ضابطہ فوجداری میں ٹرائل کا پورا طریقہ کار دیا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا ہے، آرمڈ فورسز میں ڈسپلن قائم کرنا یا کریمینل سرگرمیوں کو چیک کرنا؟ خواجہ حارث نے کہا آرمی ایکٹ کا مقصد آرمڈ فورسز کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا کریمنل سرگرمیوں کی الگ سے قانون سازی ہوتی تو یہ مسائل نہ ہوتے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں بہتری کا عمل چلتا رہتا ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے افسران جوانوں کو ڈیل کرتا ہے، 1967 میں ترمیم کرکے 2 ون ڈی ون سیکشن شامل ہوا، اس ترمیم سے قانون میں " کوئی بھی شخص " کے الفاظ شامل کر دیٔے گئے، ان الفاظ کی قانون میں شمولیت سے ریٹائرڈ افسران بھی ملٹری ٹرائل کے دائرے میں آگئے، اگر یہ 2 ون ڈی ون کالعدم برقرار رہتا ہے تو پھر کسی ریٹائرڈ افسر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکے گا اور اگر ہو رہا تو وہ بھی ختم ہو جائیگا، لگتا ہے قانون میں شامل " کسی بھی شخص " کے الفاظ کا درست تعین نہیں ہوا، قانون میں شائد یہ سقم رہ گیا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آئینی ترمیم کسی اور وجہ سے کی گئی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کلبھوشن کے علاوہ اب تک کتنے سویلنز کا ٹرائل ہوا، ڈیٹا کیساتھ جواب دیدیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوشش کریں آج دلائل مکمل کر لیں، خواجہ حارث نے کہا کہ میں پوری کوشش کروں گا۔ سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔