سائنس اور مذہب: کیسے اور کیوں کا سوال
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
بدقسمتی سے اندلس کی شکست کے بعد سائنس ہماری تعلیم و تحقیق کا اہم موضوع نہیں رہا۔ اور ہم نے اندلس کی درسگاہوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی بلکہ عمرانیات اور معاشرتی علوم کے حوالے سے بھی جو پیشرفت کی تھی، اس کا سارا اثاثہ مغربی اقوام کے حوالے کر کے ہم آرام سے بیٹھ گئے، اور اس کے بعد اس حوالے سے جو کام بھی کیا وہ مغربی اقوام نے ہی کیا۔ ہم اساس فراہم کرنے والے تھے، سوچ دینے والے تھے، اور بنیادیں مہیا کرنے والے تھے، لیکن ہم اندلس سے کیا نکلے کہ اپنے علمی و فکری اور تحقیقی اثاثے سے بھی دستبرداری اختیار کر لی۔ اس کے بعد صدیوں تک ہماری دو بڑی حکومتیں قائم رہیں۔ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ اور دہلی کی مغل سلطنت اپنے دور کی باجبروت اور باوسائل حکومتیں تھیں، لیکن سائنس و ٹیکنالوجی اور عمرانیات کے علوم ان کے نزدیک اس اہمیت کے حامل نہیں تھے کہ وہ اس طرف توجہ دیتیں۔ اس لیے ہم رفتہ رفتہ اس مقام تک جا پہنچے کہ ان علوم اور ان کے حوالے سے تحقیقات میں ہم مغرب کے دست نگر ہیں۔
مغرب میں جب سائنس آگے بڑھی تو وہاں کا مذہب اس کے مقابل آ گیا، سائنسدانوں پر کفر و الحاد کے فتووں کے ساتھ ساتھ ان کے قتل کے فیصلے صادر ہونے لگے، اور سائنس اور کفر کو مترادف قرار دیا جانے لگا، جس کی وجہ سے مذہب کو میدان سے ہٹنا پڑا اور وہ شکست کھا کر کھڈے لائن لگ گیا۔ ہمارے ہاں یہ کیفیت تو نہ تھی اور مذہبی قیادت نے سائنس کی ترقی اور ریسرچ کو کبھی کفر و الحاد قرار نہیں دیا، مگر اس سمت میں پیشرفت کی طرف ہماری عدمِ توجہ اور غفلت نے عملاً ہمیں بھی اسی صف میں کھڑا کر دیا۔ اس لیے سائنس اور مذہب کے مشترکہ مطالعہ کے حوالے سے قائم ہونے والے یہ فورم اور ان کی طرف سے اس قسم کے سیمیناروں کے انعقاد پر تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔
اسلام کے نزدیک سائنس اور مذہب میں کسی درجے میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ دونوں کا دائرۂ کار الگ الگ ہے:
سائنس کی بنیاد محسوسات، مشاہدات اور معقولات پر ہے، اور سائنس کائنات کے مشاہدہ و مطالعہ میں آگے بڑھتے ہوئے کسی بھی چیز کے بارے میں بحث کرتی ہے تو اس کی گفتگو اس پہلو سے ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو رہا ہے؟
مذہب کو اس سے کوئی بحث نہیں، اور وہ اس سوال کو سائنس کے حوالے کرتے ہوئے اس سے آگے کی بات کرتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
سائنس کی بحث کا بنیادی سوال ’’کیسے‘‘ ہے اور مذہب کی بحث کا بنیادی سوال ’’کیوں‘‘ ہے اور ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ مثلاً قدرتی آفات اور مصائب کے حوالے سے سائنس ان کے اسباب پر بحث کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا ہے؟ سائنس اس کے جو اسباب بھی بیان کرے، مذہب کو ان سے کوئی انکار نہیں اور وہ ان کو تسلیم کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے؟
گزشتہ سال آزاد کشمیر اور ہزارہ کے علاقوں میں خوفناک زلزلہ آیا تو اس کے سائنسی اسباب پر تفصیلی بحث ہوئی اور ماہرین و محققین نے ان اسباب و عوامل سے قوم کو آگاہ کیا جو اس زلزلہ کا باعث بنے اور آئندہ بھی باعث بن سکتے ہیں۔ جبکہ مذہبی رہنماؤں نے اس کے روحانی اور غیبی اسباب کی طرف توجہ دلائی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اور عذاب کا ذریعہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس پر کچھ حضرات نے کنفیوژن کی کیفیت اپنے ذہن میں محسوس کی اور اس کا اظہار بھی کیا۔ ہم نے گزارش کی کہ کنفیوژن کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے اس لیے کہ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ زلزلہ کے ظاہری اسباب وہی ہیں جو سائنس بیان کرتی ہے۔ لیکن اس سے اگلا سوال کہ کیا اسباب خودکار اور خودمختار ہیں یا ان کے پیچھے کوئی کنٹرولر بھی موجود ہے؟ اگر ہمارے عقیدے کے مطابق یہ اسباب خودمختار نہیں ہیں اور ان کے پیچھے بلکہ کائنات کے پورے نظام کے پیچھے ایک کنٹرولر موجود ہے تو ’’کیوں‘‘ کا سوال بہرحال ہمیں اسی سے کرنا ہو گا۔ اور وہ خود یا اپنے کسی نمائندے اور رسول کے ذریعے اس کا جو جواب دے اسے قبول کر لینے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں، اس لیے کہ اس کے سوا اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی اور ہستی کائنات میں موجود نہیں۔ یہاں میں دو سوال سامنے لانا چاہوں گا:
ایک یہ کہ کیا کائنات اتنی ہی ہے جتنی اب تک ہمارے مشاہدہ میں آ چکی ہے؟ اور اگر کائنات ہمارے مشاہدات سے کہیں زیادہ وسعت رکھتی ہے تو کیا ہم خود کو نظر آنے والی کائنات کا، نظر نہ آنے والی کائنات کے ساتھ کوئی تناسب طے کر سکتے ہیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پوری کائنات کا ایک ہزارواں حصہ ہمارے مشاہدات کے دائرے میں آ چکا ہے؟
دوسرا سوال یہ کہ ہمیں اس وقت علم کے جو ذرائع میسر ہیں، کیا وہ مکمل اور حتمی ہیں؟ ہمارے میسر ذرائع محسوسات، مشاہدات اور معقولات تک محدود ہیں۔ اور ہماری معقولات بھی ان محدود معلومات کی اسیر ہیں جن میں ہر وقت اضافے کا امکان موجود رہتا ہے۔ اس لیے کہ عقل صرف ایک آلہ ہے جو موجود معلومات، مشاہدات اور محسوسات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتا ہے۔ اور معلومات اور مشاہدات میں ہر وقت تغیر اور اضافے کا امکان موجود ہونے کی وجہ سے عقل کے کسی نتیجے کو کسی بھی دور میں حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ ہم حتمی علم اور یقینی بات کے لیے ہر وقت کسی ایک ہستی کے محتاج رہتے ہیں، جس کی معلومات حتمی ہیں اور جو کائنات کی ہر بات سے یکساں طور پر آگاہ ہے۔ جب ہمارے عقیدہ و ایمان کی رو سے وہ ذات اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی ہے تو ہمارے لیے بڑا آسان اور فطری راستہ ہے کہ ہم مشاہدہ اور عقل یعنی سائنس اور فلسفہ کی آخری حد سے اگلے مراحل کے لیے وحئ الٰہی سے رجوع کریں، اور اپنے علم اور عقل کو محدود تصور کرتے ہوئے اس ذاتِ باری تعالیٰ کے ارشادات پر بے چون و چرا ایمان لے آئیں۔
اس پس منظر میں قدرتی آفات و مصائب کے ظاہری اسباب کا تعین ہم یقیناً سائنس کے ذریعے ہی کریں گے، لیکن وہ صرف ’’کیسے‘‘ کا جواب دے گی ’’کیوں‘‘ کا جواب اس کے پاس نہیں ہے۔ جبکہ اس ’’کیوں‘‘ کا جواب ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قومِ نوح سے لے کر بنی اسرائیل تک دنیا کی مختلف اقوام کے ادوار میں رونما ہونے والی آفات و مصائب کو اپنے عذاب اور غضب سے تعبیر کیا۔ ایک مقام پر تو اسے ان الفاظ میں قانون کے طور پر بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب نازل کرے، یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب پیدا کر دے، یا خود تمہیں آپس میں لڑا کر ایک دوسرے کے لیے عذاب بنا دے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسیوں ارشادات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن ان میں سے اس موقع پر صرف دو کا تذکرہ کرنا چاہوں گا:
ایک میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے چار باتوں کی درخواست کی تھی، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے تین باتیں منظور فرما لیں مگر چوتھی بات قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ میں نے عرض کیا کہ یا اللہ! میری امت پوری کی پوری یکبارگی کافر نہ ہو جائے، اللہ تعالیٰ نے یہ بات قبول کر لی۔ میں نے عرض کیا کہ میری امت پر غیروں سے دشمن مسلط نہ کیے جائیں، یہ بات بھی قبول ہو گئی ۔ میں نے تیسری گزارش کی کہ میری امت پر بحیثیت امت پہلی امتوں جیسا عذاب نازل نہ ہو، یہ بات بھی قبول فرما لی گئی۔ مگر جب میں نے گزارش کی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے تو اللہ تعالیٰ نے یہ درخواست قبول کرنے سے انکار فرما دیا۔
دوسری حدیث میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت پر جب خدا ناراض ہو گا تو اس کی ناراضگی اور عذاب کی تین بڑی صورتیں ہوں گی: (۱) میری امت آپس میں لڑے گی (۲) امت کے شریر لوگ امت پر مسلط کر دیے جائیں گے، اور (۳) امت کے نیک لوگوں کی دعاؤں کو بھی قبولیت حاصل نہیں ہو گی۔ ( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے حوالے سے کہ میری امت اللہ تعالی سائنس اور سکتے ہیں اور مذہب کا جواب قبول کر نہیں ہے اور ان اس لیے کے لیے کی طرف اور وہ
پڑھیں:
جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی: رانا ثنا اللہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔سماء کے پروگرام ’ ریڈ لائن ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگی رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے معاملات میں بری طرح الجھتی جارہی ہے اور جب تک یہ جماعت الجھی رہے گی پاکستانی سیاست کو بھی الجھائے رکھے گی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے ان کو کوئی منزل نہیں ملے گی۔
کوئی رانا ضد پر اَڑ جائے تو رانی بھی اسے منا نہیں سکتی، میری کیا حیثیت ہے، دل پر پتھر رکھتے ہوئے کہا”قبول ہے۔ قبول ہے۔ قبول ہے“
مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے ہم نے اپنے مسائل اسٹیبلشمںٹ سے بات چیت کر کے حل کرنے ہیں، یہ مسائل ایسے حل نہیں ہوں گے ، جب سیاسی قیادت سر جوڑے گی حل ہوں گے لیکن بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں میں نے اسٹیبلشمںٹ سے ہی بات کرنی ہے۔ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ مذاکراتی کمیٹیز میں جو گفتگو ہوئی سب کو پتا ہے کہ وہاں سے کون چھوڑ کر بھاگا تھا؟ یہ لوگوں کے گھروں تک جا کر ذاتی طور پر زچ کرتے ہیں، عون عباس کو جس طرح گرفتار کیا گیا میں نے اس کی مذمت کی تھی۔رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا، پی ٹی آئی دور میں ہر طرح کے مسائل موجودہ دور سے زیادہ تھے، اگر سیاسی مسائل بھی حل ہوں تو جو معاملات ایک سال میں حل ہوں ایک ماہ میں ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں تقاریر اور خطابات میں بڑی بڑی باتیں ہوجاتی ہیں، میرا یقین ہے جب تک سیاسی جماعتیں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی اور ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تو موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔
بچپن کی ایک اور یاد جو ذھن کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی وہ آپاں اور بی بی جی کی سنائی کہانیاں تھیں،ایسے ہی نہیں کہتے نانیاں دادیاں سیانی ہوتی تھیں
مزید :