ٹام کروز اور جانی ڈیپ سے بھی زیادہ دولت کمانے والا اداکار کون ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
ہالی ووڈ میں سب سے زیادہ مقبول اداکار ٹام کروز اور جانی ڈیپ جیسے اداکار ہیں اور ہمیں یہی لگتا ہے کہ یہ اداکار سب سے زیادہ کماتے ہیں مگر کیا آپ جانتے ہیں سب سے زیادہ کمانے والا اداکار جانی اور ٹام نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔
غیر میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک 76 سالہ اداکار نے فلموں کے ذریعے 27.7 بلین ڈالرز کماتے ہوئے ٹام کروز، جانی ڈیپ، رابرٹ ڈاؤنی جونیئر اور دیگر کئی نامور ہالی ووڈ ستاروں کو کمائی کے میدان میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں سے یہ سپر اسٹارز ہالی ووڈ کے منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں، اور ان کی فلمیں باکس آفس پر کروڑوں ڈالرز کماتی ہیں، جبکہ ان کی مجموعی آمدنی اربوں میں ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں سیموئل ایل جیکسن کی جن کی عمر 76 سال ہے اور وہ اب ہالی ووڈ انڈسٹری کے سب سے زیادہ کمائی کرنے والے اداکار بن چکے ہیں۔ اگر ہالی ووڈ میں کمائی کو کامیابی کا معیار مانا جائے، تو وہ دنیا کے کامیاب ترین اداکار کہلائیں گے۔
سیموئل ایل جیکسن نے اپنے کیریئر کے دوران 66 فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا، جن کی مجموعی باکس آفس کمائی 14.
موازنہ کریں تو، ٹام کروز، رابرٹ ڈاؤنی جونیئر، وین ڈیزل، اور کرس ہیمزورتھ نے 12 سے 14.3 بلین ڈالرز تک کمائے ہیں، جبکہ جانی ڈیپ بھی دنیا کے سب سے زیادہ کمانے والے اداکاروں میں شامل ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سب سے زیادہ بلین ڈالرز ٹام کروز
پڑھیں:
پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔
ملک میں مہنگی بجلی اور بجلی مسائل کے باعث پاکستان نے سولر پینلز درآمد کرنے میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔برطانوی توانائی تھنک ٹینک "ایمبر" کی عالمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ کوئی بڑی قانون سازی ہوئی، نہ عالمی سرمایہ کاری کی یلغار اور نہ ہی وزیرِاعظم نے سبز انقلاب کا اعلان کیا، اس کے باوجود 2024 کے آخر تک پاکستان نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔ پاکستان نے صرف 2024 میں ہی 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کی صفِ اول کی سولر مارکیٹس میں شامل ہو گیا ہے، یہ اضافہ 2023 کی نسبت دوگنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سولر درآمدات کی یہ وسعت خاص طور پر اِس لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ہوا ہے۔ زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی اداروں کی طرف ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سولر پر منتقلی اُن لوگوں اور کاروباروں کی بقاء کی کوشش ہے جو غیر مؤثر منصوبہ بندی اور غیر یقینی فراہمی کے باعث قومی گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، یہ پاکستان میں توانائی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ صرف مالی سال 2024 میں ہی پاکستان کی سولر پینلز کی درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب قومی گرڈ کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے خود کو ڈھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ انفرااسٹرکچر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا، اس منتقلی کو پائیدار اور منظم بنانے کے لیے نظام کی اپڈیٹڈ منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹرز نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے اور درآمدات پر کچھ نرمی بھی کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر پیداوار اب بھی بہت کم ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ زیادہ تر نئی تنصیبات گرڈ سے باہر کام کر رہی ہیں اور قومی بجلی کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہو رہیں۔