WE News:
2025-03-14@00:15:49 GMT

روشن فکر قبیلے کی ماہتاب ارفع کریم رندھاوا کی یاد میں

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

روشن فکر قبیلے کی ماہتاب ارفع کریم رندھاوا کی یاد میں

ارفع کریم ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی کم عمری میں ہی دنیا کو اپنی قابلیت اور محنت سے متاثر کیا۔ وہ 2 فروری 1995ء کو فیصل آباد پاکستان میں پیدا ہوئیں۔

ارفع کریم کا بچپن ایک عام پاکستانی خاندان میں گزرا۔ ان کی والدہ جو ایک استاد تھیں، انہوں نے ارفع کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ارفع نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی اور جلد ہی اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے نمایاں ہو گئیں۔ انہوں نے مائیکروسافٹ کے مختلف پروگرامز میں دلچسپی لی اور اپنی محنت سے اس میدان میں کامیابی حاصل کی۔

ارفع کی زندگی کا سفر نہ صرف ان کی ذاتی کامیابیوں کا عکاس ہے، بلکہ یہ ایک ایسی مثال بھی ہے جو نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور ان کی ترقی کے لیے محنت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

ارفع کریم پاکستان کا واحد درخشاں ستارہ ہے جو 2004 میں محض نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (ایم سی پی) بن گئیں تھیں، یہی نہیں بلکہ دس سال کی عمر میں پائلٹ کا اجازت نامہ (لائسنس) بھی حاصل کیا۔ کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کی بنا پر ارفع کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج ہونے کا اعزاز 2008 تک ارفع کے پاس رہا۔

ارفع نے پاکستان کی طرف سے مختلف بین الاقوامی فورموں اور ٹیک ایڈ ڈویلپرز کانفرنس میں نمائندگی بھی کی۔ 2005 میں حکومت پاکستان نے ارفع کو صدارتی تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔ لاہور میں ایک سائنس پارک ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک بھی ارفع کریم  کے نام پر بنایا گیا۔

 مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے ارفع کریم  کو صدر دفتر امریکا میں مدعو کیا اور خود ملاقات کی۔ جب جولائی 2005 میں مائیکروسافٹ کارپوریشن کی دعوت پر ارفع کریم رندھاوا اپنے والد کے ساتھ امریکا گئیں تو ارفع کو دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کی سند دی گئی۔

پھر جب ارفع کریم کی ملاقات بل گیٹس سے ہوئی تو اس دس منٹ کی ملاقات کے بعد ارفع کو پاکستان کا دوسرا رخ کیا گیا۔ یہی نہیں ارفع کریم کو پاکستان کے دوسرے چہرے کا نام دیا۔ وہ دوسرا چہرہ جو روشن ہے۔

 دبئی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہرین نے بھی ارفع کریم کو دو ہفتوں کے لیے مدعو کیا، جہاں ارفع کو مختلف تمغا جات اور اعزازات سے نوازا گیا۔

ارفع کریم کو دبئی کے فلائینگ کلب میں صرف دس سال کی عمر میں ایک طیارہ اڑانے کا اعزاز حاصل ہونے کے ساتھ طیارہ اڑانے کا سرٹیفیکٹ بھی دیا گیا۔

ارفع کریم کو 2005 میں اس کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ” صدارتی ایوارڈ “ ، ” پرائڈ آف پرفارمنس“ ، ”مادرملت جناح طلائی تمغے“ اور ” سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ“ سے بھی نوازا گیا۔

مائیکرو سافٹ نے بار سلونا میں منعقدہ سن 2006 کی تکنیکی ڈیولپرز کانفرنس میں پوری دنیا سے پانچ ہزار سے زیادہ مندوبین میں سے پاکستان سے صرف ارفع کریم کو چُنا اور اس انٹر نیشنل کانفرنس میں مدعو کیا۔

حکومت پاکستان نے بعد از مرگ لاہور کے ایک پارک اور کراچی کا آئی ٹی سینٹر ارفع کریم کے نام سے منسوب کر دیا۔ یہی نہیں ارفع کے گاؤں کو بھی ارفع کریم کا نام دے دیا گیا۔

ارفع 14 جنوری 2012 کو 16 سال سال کی عمر میں عارضۂ قلب کی وجہ سے وفات پا گئی تھیں۔

جنوری 2012 میں ہی ارفع کی وفات کے بعد سابق پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ارفع کے نام پر ڈاک کا یادگاری ٹکٹ جاری کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔

ارفع کریم کی زندگی نے نوجوانوں کو یہ سکھایا کہ محنت، لگن اور عزم کے ساتھ کوئی بھی خواب حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔ ان کی کامیابی نے یہ ثابت کیا کہ اگر انسان میں ہمت و عزم ہو تو وہ کسی بھی مشکل کو عبور کر سکتا ہے۔ ارفع کی کہانی نے لاکھوں نوجوانوں کو متاثر کیا اور انہیں اپنی صلاحیتوں پر یقین کرنے کی ترغیب دی۔

ارفع کی وفات کے بعد ان کی یاد میں مختلف تعلیمی اداروں میں پروگرامز اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کی کہانی کو نوجوانوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان سے سیکھ سکیں اور اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ ارفع کی یاد میں کئی اسکالرشپس بھی قائم کی گئی ہیں تاکہ ان کی طرح کے باصلاحیت نوجوانوں کی مدد کی جا سکے۔

ہر سال 14 جنوری کو ارفع کی برسی منائی جاتی ہے۔ اس دن مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں لوگ ان کی زندگی اور کامیابیوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہ تقریبات نوجوانوں کے لیے ایک موقع ہوتی ہیں کہ وہ ارفع کی کہانی سے متاثر ہوں اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں۔

 ارفع کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی، اور ان کی زندگی کی مثال ہمیں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی رہے گی۔ ان کی برسی پر ہمیں ان کی زندگی کو یاد کرتے ہوئے یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں گے اور انہیں نکھارنے کی کوشش کریں گے۔ اس حوالے سے جون ایلیا نے کیا خوب کہا

حفظ ہے شمس بازغہ مجھ کو

پر میسر وہ ماہتاب نہیں

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر من تشاء چیمہ

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سال کی عمر میں ارفع کریم کو ان کی زندگی ارفع کی ارفع کو کی یاد کے لیے نہیں ا اور ان

پڑھیں:

سوچیں اور امیر ہو جائیں

ایک بار کسی نے کہا تھا کہ، ’’یہ معاشرہ بڑا منافق ہے کہ غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔‘‘ واقعی غربت، ایک تلخ حقیقت اور کڑوا سچ یے جو پوری انسانیت کا المیہ ہے۔ لوگ آپ کے حالات سے ہاتھ ملاتے ہیں، آپ سے نہیں۔ زندگی میں ہر دکھ اور تکلیف برداشت کی جا سکتی ہے، مگر غربت ایسا بوجھ ہے جو انسان کی خودداری، عزتِ نفس، اور خوابوں کو بے دردی سے روند دیتا ہے۔
جب آپ کے پاس وسائل اور دولت نہ ہو تو دنیا کا رویہ بدل جاتا ہے۔ آپ کی بات کا وزن کم ہو جاتا ہے، اور لوگ آپ کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ میں کوئی بڑی کمی ہو۔ جوانی میں بے روزگاری ذلت و رسوائی کا دوسرا نام ہے، اور کبھی تو یوں لگتا ہے کہ فقر و افلاس موت سے بھی بدتر ہے کیونکہ غربت صرف جیب کو خالی نہیں کرتی بلکہ دل و دماغ پر بھی گہرے زخم لگاتی ہے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں آج دنیا میں غربت ایک عیب ہے جبکہ امارت ایک ’’خوبی‘‘ ہے کیونکہ غربت نقائص واضح کرتی ہے اور امارت انہیں چھپا دیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ وسائل کے بغیر آپ کی محنت اور خلوص کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ کیا واقعی انسان کی قدر صرف اس کی دولت سے کی جاتی ہے؟ کیا عزت اور خودداری صرف پیسے کی محتاج ہے؟ یا یہ ہم ہیں جنہوں نے اپنی اقدار کو دولت کے پیمانے پر تولنا شروع کر دیا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں اور ہمیں مجبور کر دیتے ہیں کہ اس دنیا میں عزت کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے امیر ہونے کے بارے میں سوچا جائے۔
امریکی مصنف نپولین ہل نے غربت اور مفلسی سے نکلنے کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے، ’’سوچیں اور امیر ہو جائیں‘‘ (Think and Grow Rich) جس میں انہوں نے کامیابی حاصل کرنے کے راز گنوائے ہیں۔ اس کتاب میں خصوصی طور پر اس بھید سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا سوچنے سے واقعی دولت حاصل کی جا سکتی ہے؟ انہوں نے اس کتاب میں اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے کہ کیا کامیابی اور دولت قسمت کا نتیجہ ہوتی ہے، یا اس کے پیچھے کوئی خاص اصول کار فرما ہوتے ہیں؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کیلئے نپولین ہل نے اپنی یہ مشہور زمانہ کتاب لکھی۔
یہ کتاب نہ صرف کامیابی کے اصولوں کو واضح کرتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ کس طرح انسان اپنی سوچ کو طاقتور ہتھیار بنا کر خود کو بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی شہرت کا راز انسانی دماغ کے ان حصوں کو واہ کرنے سے ہے جن کا تعلق زیادہ دولت جمع کرنے سے ہوتا ہے۔ یوں یہ محض ایک کتاب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل فلسفہ بھی ہے جو انسان کی زندگی کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1937 ء میں شائع ہوئی اور آج تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جس نے دولت کمانے کے لئے لاکھوں افراد کو کامیابی کے راستے پر ڈالا ہے۔ اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ کامیابی کے اصولوں کو عملی زندگی کے تجربات سے جوڑتی ہے، اور قارئین کو بتاتی ہے کہ سوچنے اور امیر ہونے سے وہ کس طرح اپنی زندگی میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔
اس کتاب کی بنیاد یوں رکھی گئی کہ امریکہ کے نامور بزنس مین اینڈریو کارنیگی نے نپولین ہل کو ایک خاص مشن دیا اور کہا کہ وہ دنیا کے سب سے کامیاب کاروباری افراد کے انٹرویوز لیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ آپ حیران ہوں گے کہ نپولین ہل نے اس کتاب کو مکمل کرنے میں 25 سال لگائے اور انہوں نے تحقیق کی، ہزاروں کامیاب اور ناکام لوگوں کا تجزیہ کیا، 500 سے زائد ملٹی ملینئرز افراد سے ملاقاتیں کیں، جن میں مشہور سائنس دان، نوکری پیشہ اور بزنس مین شامل تھے۔ نپولین ہل جن مشہور شخصیات کو ملا ان میں تھامس ایڈیسن، ہنری فورڈ اور الیگزینڈر گراہم بیل جیسے عظیم نام شامل تھے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں نپولین ہل نے کچھ بنیادی اصول وضع کئے، جو ہر اس شخص کو کامیاب بنا سکتے ہیں جو انہیں سچے دل سے اپنائیں گے۔
اس کتاب میں کامیابی کے جن بنیادی اصولوں کو شامل کیا گیا ان میں نمبر1 پر مضبوط خواہش اور کسی عظیم مقصد کا شامل ہونا ہے۔ ہر کامیاب شخص کی زندگی میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی بڑا خواب نما مقصد نہیں، تو آپ کبھی بھی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں مقصد کے اندر بہت انرجی ہوتی ہے جو آپ کو عمل پر اکساتی ہے۔ آپ کی زندگی اور کام کا مقصد جتنا بڑا ہو گا آپ کو کامیابی بھی اتنی ہی بڑی ملے گی۔ آپ سوچیں کہ زندگی میں آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پھر اسی سمت میں کام کریں آپ یقینا کامیاب ہوں گے۔ نپولین ہل نے نمبر2 پر یقین اور خود اعتمادی کو رکھا جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کو اپنی کامیابی پر یقین ہونا چایئے۔ جو لوگ اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں، وہی لوگ آگے بڑھتے ہیں۔ خود اعتمادی کے بغیر کوئی بھی شخص اپنے خوابوں کو حقیقت میں نہیں بدل سکتا ہے۔ انہوں نے نمبر3 پر بار بار دہرائی گئی سوچ کو رکھا اور کہا کہ آپ جو کچھ بار بار اپنے دماغ میں دہراتے ہیں، وہی حقیقت میں بدلنے لگتا ہے۔ اگر آپ خود کو ذہنی طور پر قائل کر لیں کہ آپ کامیاب ہوں گے، تو آپ کے فیصلے، اقدامات اور عادات بھی ویسی ہی بننے لگیں گی۔ انہوں نے نمبر3 پر علم اور مہارت کو رکھا کہ اور دلائل پیش کیئے کہ محض عام علم کامیابی کے لئے کافی نہیں ہوتا، بلکہ کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اپنی فیلڈ میں ایکسپرٹ بنتے ہیں، وہی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے نمبر4 پر تصور اور تخلیقی صلاحیت کو رکھا اور لکھا کہ کامیاب افراد وہی ہوتے ہیں جو اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا فن اور مہارت رکھتے ہیں۔ اگر آپ صرف سوچتے رہیں اور عمل نہ کریں، تو آپ کی سوچ بے فائدہ ہے۔ ا اگر آپ اس کتاب میں بیان کیے گئے اصولوں کو اپنی زندگی میں اپنائیں، تو آپ بھی ایک کامیاب اور امیر شخص بن سکتے ہیں۔ زندگی کا یہ اصول بنا لیں کہ بڑا آدمی بننا ہے ہمیشہ بڑا سوچیں آپ ایک دن بڑے آدمی بن کر رہیں گے، سوچیں، یقین رکھیں، منصوبہ بندی کریں، عمل کریں، کامیابی آپ کے قدم چومنے پر مجبور ہو جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان سمیت ملک بھر میں امن و امان کی ابتر صورتحال ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • رمضان المبارک میں کیے گئے صدقے و خیرات کو مستقل طور پر اپنی زندگی میں اپنائیں
  • پانی ہی زندگی ہے
  • مادھوری کی خوبصورت بہنیں فلم انڈسٹری سے دور کیوں رہیں؟
  • سوچیں اور امیر ہو جائیں
  • کراچی: کریم آباد انڈر پاس میں جھگڑے کے دوران ایک شخص قتل
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • عمر اکمل اپنے بیٹے کو پاکستان  کے لیے کرکٹ کیوں نہیں کھیلنے دیں گے؟
  • شمالی وزیرستان میں ایک ماہ کیلئے دفعہ 144 نافذ
  • آئی ایس او پاکستان نے یوم القدس کی تیاریاں شروع کر دیں