اسرائیل میں جنگی سائرن بجنے لگے، یمن سے داغا گیا میزائل اسرائیلی دفاعی نظام نے تباہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
تل ابیب : اسرائیل کے مختلف علاقوں میں جنگی سائرن کی آوازیں سنائی دینے لگیں، جب یمن سے داغا گیا ایک میزائل اسرائیل کی حدود کے قریب پہنچا۔ عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے دفاعی نظام کے ذریعے میزائل کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس حملے کے بعد اسرائیل کے بن گورین ایئرپورٹ پر پروازوں کا آپریشن عارضی طور پر معطل کر دیا گیا۔
دوسری جانب، مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی کوششوں کے تحت، درجنوں ممالک اپنے مندوب بدھ کے روز ناروے بھیجیں گے۔ اس اجلاس میں 80 سے زائد ممالک اور عالمی اداروں کے نمائندے شریک ہوں گے، تاہم اسرائیل نے ابھی تک اپنے وفد کے اجلاس میں شرکت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ یہ ملاقات فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کے قیام کے لیے عالمی سطح پر کیے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
یورپی یونین رہنماوں کا اسرائیل فلسطین جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم
یورپی یونین رہنماوں کا اسرائیل فلسطین جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم WhatsAppFacebookTwitter 0 16 January, 2025 سب نیوز
برسلز(آئی پی ایس )یورپی یونین کے اکثر رہنماں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے محتاط انداز میں امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ ایک پائیدار امن کی بنیاد رکھ سکتا ہے، لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تمام فریقین ان شرائط کا احترام کریں۔ یورپی ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ رپورٹس کے مطابق ‘یورپی رہنماں نے جنگ بندی کی رپورٹس کا خیرمقدم کیا اور محتاط امید کا اظہار کیا کہ یہ ایک پائیدار امن کی بنیاد رکھ سکتا ہے، بشرطیکہ تمام فریقین اس کی شرائط کا احترام کریں’۔
اس موقع کی مناسبت سے جاری کردہ پیغامات میں یورپین کمیشن کی صدر ارسلا واندرلین نے جنگ بندی کے معاہدے کو “پائیدار استحکام کی طرف ایک قدم” قرار دیا، یورپی پارلیمنٹ کی صدر روبرٹا میٹسولا نے کہا کہ یہ پائیدار امن، امداد میں اضافے، اور مایوسی کو بدلنے والا اور مستقبل کی امید کیلئے ایک اہم لمحہ ہو سکتا ہے۔
سیز فائر معاہدے پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کلاس اس سے بھی زیادہ پرجوش تھیں۔ انہوں نے اسے ایک “اہم، مثبت پیش رفت” قرار دیا۔ جبکہ ان کے پیشرو جوزپ بوریل نے کہا کہ امن معاہدہ “طویل التوا” تھا اور دونوں فریقوں کو اس کا مکمل احترام کرنا چاہیے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق برسلز میں اعلی ادارہ جاتی افراد میں سے صرف انتونیو کوسٹا (جو کہ ان تمام لیڈروں میں سے واحد سوشلسٹ ہیں) نے اسرائیل، فلسطین تنازعہ کو حل کرنے کے بارے میں یورپی یونین کے سرکاری نقطہ نظر پر زور دیا۔
انہوں نیکہا کہ “یورپی یونین دو ریاستوں کی بنیاد پر ایک جامع، منصفانہ حل اور دیرپا امن کیلیے پرعزم ہے۔ ایک اور اعلی یورپی سوشلسٹ، ہسپانوی وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز نے بھی اسی نکتے پر اصرار کیا۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ “ایک سیاسی حل ضرور آنا چاہیے،” انہوں نے گزشتہ 15 ماہ کے تنازعے کو “غیر منصفانہ آزمائش” قرار دیا۔
اس معاہدے کو “اچھی خبر” قرار دیتے ہوئے جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ “مقتول (یرغمالیوں) کی باقیات کو بھی باوقار تدفین کے لیے اہل خانہ کے حوالے کیا جانا چاہیے۔” علاوہ ازیں آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس، جو یورپ میں اسرائیل کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں، نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو “غزہ میں استحکام اور نظم و نسق بہتر کرنے کیلیے نئی فلسطینی اتھارٹی” کی حمایت کرنی چاہیے۔
دوسری جانب فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفی یورپین کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا، بحیرہ روم کے کمشنر سوئیکا اور میٹسولا سے ملاقات کیلیے آج برسلز میں ہیں، کہا جاتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر اپنا پیغام دیں گے کہ آئندہ سے ان کی فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں واحد گورننگ باڈی ہونا چاہیے لیکن ذرائع ابلاغ کے بقول یہ اسرائیلیوں کے لیے ناقابل قبول ہو گا۔