فوجی عدالتوں کا کیس: ماسٹر مائنڈ کا کیس بھی ملٹری کورٹ میں چلے گا، وکیل وزارت دفاع
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
فوجی عدالتوں کا کیس: ماسٹر مائنڈ کا کیس بھی ملٹری کورٹ میں چلے گا، وکیل وزارت دفاع WhatsAppFacebookTwitter 0 14 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: سپریم کورٹ کا آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کررہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کررہا ہے۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج اپنے دلائل کا آغاز لیاقت حسین کیس کا حوالہ دیکر کیا اور کہا کہ یہ سول جرائم میں ملٹری کورٹ میں سویلین کے ٹرائل کا مقدمہ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا یہ ہے کہ کن سویلینز کا کن حالات میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ کسی فوجی کو کام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ ریٹائرڈ اہلکار سویلینز ہوتے ہیں۔
ایف بی علی کیس کا تذکرہ
جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ آپ کا سارا انحصار ایف بی علی کیس پر ہے، ایف بی علی کیس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران دونوں ملوث تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا موجودہ کیس میں کسی پر فوج کو کام سے روکنے پر اکسانے کا الزام ہے، آرمی ایکٹ کے تحت تو جرم تب بنے گا جب کوئی اہلکار شکایت کرے یا ملوث ہو۔
خواجہ حارث نے کہا کہ فوج کا ڈسپلن جو بھی خراب کرے گا وہ فوجی عدالت میں جائے گا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا فوج کے قافلے پر حملہ کرنا بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کسی فوجی کا چیک پوسٹ پر سویلین سے تنازع ہو تو کیا یہ بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا دائرہ جتنا آپ وسیع کررہے ہیں، اس میں تو کوئی بھی آسکتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے خواجہ حارث سے کہا کہ اس پہلو کو مدنظر رکھیں کہ ایف بی علی کیس مارشل لا دور کا ہے، ذوالفقار علی بھٹو اس وقت سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، انہیں ہٹانے کی کوشش میں ایف بی علی کیس بنا تھا، مارشل لا اس وقت ختم ہوا جب آئین بنا۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بات ٹھیک ہے لیکن عدالتی فیصلے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا ذکر موجود نہیں۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بات ٹھیک ہے لیکن عدالتی فیصلے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا ذکر موجود نہیں، ایف بی علی کیس میں جن افراد پر کیس چلایا گیا وہ ریٹائرڈ تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کنٹونمنٹ میں اگر کسی سپاہی کا سویلین کیساتھ اختلاف ہو جائے تو کیس کہاں جائے گا۔
’آخر کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا؟‘
خواجہ حارث نے کہا کہ اختلاف الگ بات ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری ٹرائل کے معاملے کو بہت وسعت دی جا رہی ہے۔ خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ زمانہ امن میں بھی ملٹری امور میں مداخلت کرنے پر سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہی چلے گا۔
جسٹس حسن اظہر بولے کہ آخر کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا، سازش کس نے کی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا،
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ملٹری کورٹ میں فوجی عدالتوں بھی ملٹری کا کیس
پڑھیں:
9مئی واقعات میں نامزد ملزمان کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کا فیصلہ چیلنج کریں گے، بابر اعوان
9 مئی واقعات میں محمد فہیم قیصر کی ضمانت منسوخی کے لیے دائر اپیل پر سماعت کے دوران نامزد ملزم کے وکیل بابر اعوان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، انہوں نے بتایا کہ 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے حکمنامے سے کارکنان کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ کوئی چھلیاں بیچنے والا ہے تو کوئی جوتے پالش کرنے والا، جنہیں 200 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑ رہا ہے، ٹرائل سرگودھا کے بجائے میانوالی میں کرنے کی استدعا ہے، میانوالی میں بہترین کچہری ہے وہاں ٹرائل کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی: سپریم کورٹ نے ملزمان کی ضمانت منسوخی کی اپیلیں نمٹادیں، 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
جس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بولے؛ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ طے کریں عدالت کہاں ہوگی، یہ ٹرائل کورٹ نے خود طے کرنا ہے، بابر اعوان کی جانب سے ایف آئی آر ختم کرنے کی استدعا پر چیف جسٹس نے انہیں متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
بابر اعوان کا موقف تھا کہ انسانی طور پر 4 ماہ میں ٹرائل مکمل ہونا ممکن نہیں ہے، ہم سے تعاون کرنے کی بات کی جا رہی ہے، تو اور کیا سر کاٹ کر دیدیں، جس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے یاد دہانی کرائی کہ قانون میں ٹرائل 3 ماہ میں مکمل کرنے کا ذکر ہے۔
مزید پڑھیں: اسد قیصر کی ضمانت کیخلاف دائر اپیل واپس لینے کی بنیاد پر خارج، پنجاب پولیس کو مایوسی کیوں؟
چیف جسٹس بولے؛ ہم اپنے تحریری حکمنامے میں ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ڈیڈ لائن والی تاریخ بھی لکھ دیں گے، بابر اعوان نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تو ہر ہفتے عمل درآمد رپورٹس لے رہی تھیں، ہم 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔
جس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بولے؛ ٹھیک ہے آپ چیلنج کر لیجیے گا، ہم اپیل خارج کر رہے ہیں، اس موقع پر اسپیشل پروسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عرض کی کہ ضمانت منسوخی کے لیے انہیں گزارشات تو کرنے دیں کیونکہ ضمانت کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: سانحہ 9 مئی پر پنجاب حکومت کی سپریم کورٹ میں جمع کردہ رپورٹ کیا کہتی ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ضمانت کا غلط استعمال کیا گیا تو آپ متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتے ہیں، 9 مئی کے تمام مقدمات پر ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کا ایک ہی مرتبہ آرڈر جاری کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی واقعات اسپیشل پروسیکیوٹر بابر اعوان ٹرائل ٹرائل کورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس ذوالفقار نقوی سپریم کورٹ سرگودھا ضمانت منسوخی محمد فہیم قیصر میانوالی