یو این چیف اظہار یکجہتی کے لیے عنقریب لبنان کا دورہ کرینگے
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 جنوری 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش رواں ہفتے کے آخر میں لبنان جائیں گے۔ اس دورے کا مقصد ملک اور اس کے لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک کے مطابق، سیکرٹری جنرل اس دورے میں لبنان کے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔ متوقع طور پر وہ ملک کے جنوبی علاقے میں بھی جائیں گے جہاں وہ اسرائیل کے ساتھ عبوری سرحد پر تعینات اقوام متحدہ کی امن فورس (یونیفیل) کے اہلکاروں سے ملاقات کر کے ان کے کام کا شکریہ ادا کریں گے جو نہایت مشکل حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
نومنتخب صدر کو مبارک بادترجمان نے بتایا ہے کہ سیکرٹری جنرل نے ہفتے کو ٹیلی فون پر لبنان کے نومنتخب صدر جوزف عون سے رابطہ کیا اور عہدہ سنبھالنے پر انہیں مبارک باد پیش کی۔
(جاری ہے)
انہوں نے ملک کے نئے وزیراعظم نواف سلام کی تعیناتی کی اطلاعات کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔
یہ گزشتہ چند روز کے دوران لبنان میں سیاسی حوالے سے ہونے والی مثبت پیش رفت ہے کہ طویل تاخیر کے بعد بالآخر ملک کے صدر کا انتخاب عمل میں آ چکا ہے اور اب نئی حکومت تشکیل پا رہی ہے۔
نواف سلام عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے صدر ہیں جو اقوام متحدہ کا اعلیٰ ترین عدالتی ادارہ ہے۔ وہ 2018 سے عدالت میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اور گزشتہ سال فروری میں اس کے صدر مقرر ہوئے۔ قبل ازیں وہ 2007 س 2017 تک اقوام متحدہ میں لبنان کے مستقل نمائندے کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔
لبنان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار جینائن ہینز پلاشرٹ نے سلامتی کونسل کو بند کمرے میں بریفنگ دیتے ہوئے ان واقعات کو مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں قیام امن کے شعبے کے سربراہ ژاں پیئر لاکوا کے ساتھ ان کی یہ بریفنگ فرانس کی تجویز پر ہونے والی مشاورت کا حصہ تھی جس کا انعقاد سلامتی کونسل کے موجودہ صدر الجزائر نے کیا۔
خصوصی رابطہ کار نے لبنان کے نئے صدر کے انتخاب کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ لبنان میں اداروں کے استحکام اور اہم اصلاحات کے نفاذ کا آغاز ہے جس کی ملک کو اشد ضرورت تھی۔
انہوں نے سلامتی کونسل کو یہ بھی بتایا کہ 27 نومبر کو جنگ بندی عمل میں آنے کے بعد تشدد میں بہت بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔
امن کی جانب پیش رفتلبنان اور اسرائیل کی حکومتوں کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ حزب اللہ کے جنگجوؤں اور اسرائیلی فوج کے مابین ایک سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد ہوا۔
یہ لڑائی غزہ میں جنگ چھڑنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔قبل ازیں فریقین 2006 میں بھی جنگ لڑ چکے ہیں جس کے بعد سلامتی کونسل نے قرارداد 1701 کی منظوری دی تھی جس میں مسلح تنازعات ختم کرنے اور دونوں ممالک کی عبوری سرحد پر قائم کردہ 'بلیو لائن' کے احترام کی بات کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی امن فوج اس لائن پر گشت کرتی ہے۔
انہوں نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کی واپسی کے حوالے سے کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور لبنان کی فوج نے علاقے میں اپنی پوزیشنیں دوبارہ سنبھالی ہیں، تاہم اس معاملے میں ابھی مزید کام ہونا باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 60 روزہ جنگ بندی میں دو تہائی عرصہ گزر چکا ہے اور موجودہ وقت بہت اہم ہے۔ تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ باقی ماندہ عرصہ میں مشترکہ اور واضح سمجھ بوجھ کے ساتھ حالات کو بہتر بنائیں۔
2006 کی جنگ کے بعد مستقل امن کے لیے ٹھوس کوششیں نہ ہونے کے باعث تشدد اور تباہی کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
اس مرتبہ قرارداد 1701 پر فریقین کی جانب سے مکمل عملدرآمد کے حوالے سے بات چیت شروع کرنے کی غرض سے مذاکرات 60 روز کے بعد بھی جاری رہنا چاہئیں۔خصوصی رابطہ کار نے بتایا کہ جنوری تا مارچ کے عرصہ میں لبنان کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید مدد کی اپیل کی گئی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حالیہ صدارتی انتخابات کے نتیجے میں لبنان کو بحالی اور تعمیرنو کے لیے وسائل کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خصوصی رابطہ کار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل لبنان کے انہوں نے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے ادارے کا پاکستان سمیت 60 سے زائد ممالک میں عملے میں 20فیصد کمی کا اعلان
جنیوا(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے ادارے نے کہا ہے کہ وہ اپنے عملے میں 20 فیصد کمی کر رہا ہے جس سے پاکستان سمیت 60 سے زائد ممالک میں کام کرنے والے عملے کی ملازمتوں پر اثر پڑ سکتا ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق اس عملے کی مجموعی تعداد 2600 ہے عملے میں کمی کی وجہ فنڈنگ میں ہونے والی وہ سخت کٹوتیاں ہیں جن کے نتیجے میں ادارے کو تقریباً 60 کروڑ ڈالر کی کمی کا سامنا ہے.(جاری ہے)
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے ایک خط میں کہاگیا ہے کہ انسانی امداد سے وابستہ برادری پہلے ہی وسائل کی کمی، حد سے زیادہ دباﺅ اور بظاہر حملوں کی زد میں تھی اور اب فنڈ میں تازہ کٹوتیوں نے صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) کی موجودگی اور سرگرمیاں پاکستان، کیمرون، کولمبیا، اریٹریا، عراق، لیبیا، نائیجیریا، غازی انتپ (ترکی) اور زمبابوے میں محدود کر دی جائیں گی. ادارے کے عملے کو لکھے گئے خط میں فلیچر نے یہ نہیں بتایا کہ کس ملک کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتی کی گئی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کے اشارے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ملک انڈیا نہیں بلکہ امریکہ ہے فلیچر نے کہا کہ 2025 کے لیے اوچا کا مجموعی بجٹ تقریباً 430 کروڑ ڈالر ہے ان کا کہنا تھا کہ کئی ممالک نے ایجنسی کے اضافی بجٹ وسائل میں کٹوتیوں کا اعلان کیا یا پہلے ہی یہ کٹوتیاں نافذ کر چکے ہیں اس ضمن میں انہوں نے خاص طور پر امریکہ کا نام لیا. ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کئی دہائیوں سے انسانی امداد دینے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے امریکہ اوچا کے اضافی بجٹ وسائل میں بھی سب سے زیادہ حصہ دینے والا ملک ہے جو تقریباً 20 فیصد بنتا ہے یعنی 2025 کے لیے چھ کروڑ 30 لاکھ ڈالر انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا امریکہ نے یہ رقم کم کر دی یا نہیں جب چھ کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی رقم کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی تو امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اوچا سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کے لیے فنڈنگ ابھی جائزے کے مرحلے میں ہے وائٹ ہاﺅس نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا. فلیچر نے خط میں کہا کہ اب تک متوقع اخراجات کی مجموعی رقم 25 کروڑ 85 لاکھ ڈالر ہے اور اس کے مقابلے میں ہمارے پاس تقریباً پانچ کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا فنڈنگ خسارہ ہے انہوں نے کہا کہ اگرچہ انسانی امداد کی ضرورتیں بڑھ گئی ہیں لیکن اوچا پہلے ہی دیکھ رہا ہے کہ فنڈنگ میں کٹوتیاں زندگی بچانے والی امداد تک رسائی کو متاثر کر رہی ہیں انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے ساتھ کام کرنے والی انسانی امدادی تنظیمیں اس بحران سے شدید متاثر ہوئی ہیں جن میں سب سے زیادہ نقصان مقامی تنظیموں کو ہوا ہے اس کے بعد بین الاقوامی تنظیمیں اور پھر اقوام متحدہ کی اپنی انسانی امدادی ایجنسیاں متاثر ہوئی ہیں. فلیچر نے کہا کہ اوچا کو اپنی سرگرمیوں کو دستیاب وسائل کے مطابق ازسرنو ترتیب دینا ہوگا اور اس کے لیے اسے اپنے انتظامی ڈھانچے کو کم کرنا پڑے گا تاکہ وہ کم مرکزیت والا ادارہ بن سکے اس کا مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کے صدر دفتر اور کچھ علاقوں و ممالک میں سینیئر عہدوں کی تعداد میں نمایاں کمی کی جائے گی.