سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ ایک بار پھر مؤخر کیا گیا جس کی بازگشت ہمارے اخباری صفحات سے لیکر ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا پیجز پر بھرپور طریقے سے سنائی دے رہی ہے۔ سابق وزیراعظم پر درجنوں مقدمات ہیں جن کا وہ سامنا بھی کر رہے ہیں مگر یہ معاملہ برطانیہ میں ایک پراپرٹی کے حوالے سے ہونے والے 190 ملین پاؤنڈ کی وصولی سے متعلق ہے اور سابق وزیراعظم اپنی اہلیہ سمیت اس میں شامل ہیں۔ نہ جانے کیوں بار بار اس کا فیصلہ مؤخر کردیا جاتا ہے۔ ہر مرتبہ نئی وجہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اب کی بار تو ملزمان کا پیش نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ وکلا ء کی عدم حاضری ان کی عدم دلچسپی کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ ایک لمبی کہانی کا دلچسپ موڑ معلوم ہوتا ہے۔ یہ کیس نہ صرف قانونی اور سیاسی حلقوں میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے بلکہ عوامی حلقوں میں بھی اس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ حکومت کو اپنی سطح پر اس حوالے سے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا بلا وجہ ایک مہم برپا کردیتا ہے اور لا ء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
جہاں تک اس کیس کی بنیاد کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ معاملہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے 2019 ء میں تحقیقات کے بعد سامنے آیا۔ این سی اے نے برطانیہ میں موجود ایک پاکستانی شخصیت کے اکاؤنٹس اور پراپرٹیز کو غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ اثاثہ جات قرار دیتے ہوئے منجمد کیا تھا۔ بعد ازاں، یہ رقم برطانوی حکومت کی طرف سے پاکستان کو واپس کر دی گئی۔ عمران خان کی حکومت نے اس رقم کو سپریم کورٹ کے جرمانے کی مد نجی ہاؤسنگ کالونی کے مالک ایک بڑے بلڈر کے اکائونٹ میں منتقل کیا۔ یہ فیصلہ اس وقت کی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ قرار دیا گیا اور اسے ایک سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن حکومت کے جانے کے بعد جب اس پر تحقیقات کا آغاز ہوا تو بہت سے حیران کن پہلو سامنے آئے۔
190 ملین پاؤنڈ کی اس رقم کی واپسی اور اس کے استعمال پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ رقم کس قانونی جواز کے تحت ایک پرائیویٹ شخص کے ذاتی اکائونٹ میں منتقل کی گئی؟ کیا یہ عمل شفافیت کے اصولوں پر پورا اترتا تھا یا اس میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا؟
قانونی ماہرین کے مطابق، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حکومت نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا یا اس رقم کو کسی ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ عمران خان جو ہمیشہ کرپشن کے خلاف کھڑے ہونے کا دعویٰ کرتے اور دوسروں کو مسلسل چور چور کہتے رہے ہیں، اب خود مبینہ طور پر ایک ایسے کیس میں ملوث ہیں جس میں شفافیت اور احتساب کے اصولوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین اس کیس کو ان کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ اب جبکہ اس کا فیصلہ سنائے جانے کا وقت تھا تو اس سے قبل فیصل واوڈا اور سینئر وفاقی وزیر خواجہ آصف کی پریس کانفرنسز نے مزید سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت تمام حکومت کی حمایتی سیاسی جماعتیں یہ الزام لگا رہی ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے اس معاملے میں غیر قانونی طریقے سے فائدہ اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کیس عمران خان کے ’’کرپشن کے خلاف جدوجہد‘‘کے بیانیے کو جعلی اور جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
عوامی سطح پر بھی اس کیس کے حوالے سے ملا جلا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عمران خان کے حامی ان الزامات کو سیاسی انتقام کا حصہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ دوسری جانب، ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ کیس عمران خان کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے اور ان کے دعوؤں کی قلعی کھولتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس وقت عالمی سطح پر جن پیچیدہ مسائل میں الجھے ہوئے ہیں یہ کیس بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ پر اثر ڈال سکتا ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی تحقیقات اور رقم کی واپسی کے عمل کو دنیا بھر میں شفافیت اور احتساب کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستان میں اس رقم کا غلط استعمال ہوا، تو یہ عالمی سطح پر پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ کیس عمران خان کے سیاسی مستقبل اور تحریک انصاف کی ساکھ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر عدالتوں میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کوئی غیر قانونی عمل ہوا، تو عمران خان کو سنگین قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ان کی جماعت کی مقبولیت اور ان کے بیانیے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
190 ملین پاؤنڈ کا یہ کیس نہ صرف عمران خان کے لیے بلکہ پاکستان کی سیاست اور قانون کے لیے بھی ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ کیس اس بات کا تعین کرے گا کہ پاکستان میں احتساب اور شفافیت کے دعوے کس حد تک حقیقی ہیں۔ عوام کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ معاملہ ایک نئی تبدیلی کی طرف لے جائے گا یا پھر یہ بھی دیگر کیسز کی طرح سیاسی بھنور میں گم ہو جائے گا۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عمران خان کے ملین پاو نڈ حوالے سے کے خلاف رہے ہیں ثابت ہو سکتا ہے کے لیے یہ کیس
پڑھیں:
’آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟‘ امریکی وفد کی آرمی چیف کی ملاقات پر پی ٹی آئی کے حامی مایوس
’آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟‘ امریکی وفد کی آرمی چیف کی ملاقات پر پی ٹی آئی کے حامی مایوس WhatsAppFacebookTwitter 0 15 April, 2025 سب نیوز
امریکی کانگریس کے رکن جیک برگمین کی سربراہی میں آنے والے تین رکنی امریکی وفد کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین نے وفد پر تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ آخر وہ عمران خان سے ملاقات کیوں نہیں کر سکے۔
تفصیلات کے مطابق آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی وفد نے جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس وفد میں امریکی کانگریس کے ارکان تھامس سوزی اور جوناتھن جیکسن بھی شامل تھے۔
پی ٹی آئی حامیوں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ امریکی وفد کو اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے بھی ملاقات کرنی چاہیے تھی۔
صارف محمد صدیقی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جیک برگمین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’مسٹر برگمین، آپ نے کہا تھا کہ آپ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو غیر قانونی حراست سے آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟‘
اسی طرح ایک اور صارف احمد حسن نے بھی برگمین کے ماضی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دہانی کرائی کہ اصل صورتحال جاننے کے لیے انہیں عمران خان اور ان کی بہن علیمہ خان سے ملاقات کرنی چاہیے تھی۔
جیک برگمین نے صحافی معید پیرزادہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عمران خان سے ملاقات ایک مثبت پیش رفت ہو گی اور اس کی کوشش کی جائے گی، مگر موجودہ دورہ صرف کاکس کی نمائندگی کے طور پر ہو گا، امریکی حکومت یا ٹرمپ انتظامیہ کی نمائندگی نہیں۔
تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے کئی اکاؤنٹس نے صارفین سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ وہ امریکی وفد کے ارکان جیک برگمین، تھامس سوزی اور جوناتھن جیکسن کو ای میل کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کریں۔
اس معاملے پر صحافی شاہین صہبائی نے بھی سوال اٹھایا کہ آیا امریکی کانگریس کے یہ اراکین صرف پاکستانی فوج کا مؤقف سننے آئے تھے یا وہ کسی متوازن ملاقات کے لیے آئے تھے۔
تجزیہ کار مزمل سہروردی نے پی ٹی آئی کی کوششوں پر طنز کرتے ہوئے کہا، ’تمام لابی ناکام ہو گئی۔۔۔ ڈالرز ضائع ہو گئے۔‘
واضح رہے کہ ماضی میں ان ہی کانگریس ارکان نے عمران خان کی رہائی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے آواز اٹھائی تھی، جس پر پی ٹی آئی کے حامیوں کو توقع تھی کہ ان کا حالیہ دورہ بھی اسی تسلسل کا حصہ ہوگا، مگر آرمی چیف سے ملاقات اور عمران خان سے عدم ملاقات نے ان میں مایوسی پیدا کر دی ہے۔