Nai Baat:
2025-01-18@11:00:59 GMT

میری آواز سنو

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

میری آواز سنو

ہالی وڈ میں 2005ء میں ایک فلم بنی۔ اْس کا نام تھا میونخ۔ فلم کا موضوع یہ تھا کہ 1972ء کے میونخ اولمپکس میں گیارہ عرب دہشت گردوں نے گیارہ اِسرائیلی کھلاڑیوں کو نہایت بے دردی سے قتل کردیا۔ یہ فلم حقیقی واقعات کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی تھی۔ فلم میں یہ بتایا گیا کہ جب عرب دہشت گردوں نے اِسرائیلی کھلاڑیوں کو قتل کردیا تو موساد نے کس نے طرح اْن گیارہ دہشت گردوں کو چن چن کر مارا۔اِسرائیل کی اْس وقت کی وزیراعظم گولڈا میئر نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم بدلہ لیں گے اَور دْنیا کو بتائیں گے کہ ہم کتنے طاقت ور ہیں۔یہ فلم بے حد مقبول ہوئی اَور اِس نے ساری دْنیا میں 131ملین ڈالر کا بزنس کیا۔ اِس فلم کو اگر ایک مسلمان بھی دیکھے گا تو اِس کے اَندر گم ہوجائے گا اَور اْس کی تمام تر ہمدردیاں اِسرائیل کے ساتھ ہوجائیں گی۔ یہ اِس فلم کی خوبی ہے۔ گویا یہ فلم ایک بہت کامیاب پروپیگنڈا مشین ثابت ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اِس قسم کا پروپیگنڈا کیوں نہیں کرپاتے۔ کیا وجہ ہے کہ دْنیاوالے صرف ایک طرف کی آواز ہی سنتے ہیں اَور اْسی کے مطابق اَپنی رائے قائم کرلیتے ہیں؟
اِس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمان آج بھی اِس تذبذب کا شکار ہیں کہ تصویر، کیمرا، فلم وغیرہ حلال ہیں یا حرام۔ آج بھی کم از کم پچاس فی صد مسلمان اَیسے ہیں جو فلم کو حرام قرار دیتے ہیں۔ فلم میں کام کرنا اْن کے نزدِیک ایک گناہ کا کام ہے۔ چنانچہ ڈرامے، فلمیں، موسیقی وغیرہ سے یہ لوگ دْور بھاگتے ہیں اَور اْن لوگوں کوپسندنہیں کرتے جویہ کام کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے کوئی مسلمان ملک عمدہ فلمیں نہیں بنا پاتا۔ چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر پوری اسلامی دْنیا میں اچھی فلمیں نہیں بنتیں۔ یہاں ایک کمال بات یہ ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے تک پاکستان میں بہت اعلیٰ معیار کے ڈرامے پی ٹی وی پر نشر کیے جاتے تھے۔ اْس کے بعد اچانک کچھ اَیسا ہوا کہ ہماری یہ صنعت بھی زوال کا شکار ہوگئی۔

دْوسری وجہ یہ ہے کہ آج تک مسلمانوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ ایٹم بم سے بھی زیادہ طاقت ور ہوچکی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اَب ایٹم بم بنایا تو جاسکتا ہے ا َور دْوسروں کو ڈرانے کے کام بھی آسکتا ہے لیکن اِسے چلانا شاید ممکن نہیں رہا۔ لیکن میڈیا ہر وقت، ہر جگہ لوگوں پراثر انداز ہوسکتا ہے اَور ہوتا ہے۔ آپ بھارت کی مثال لے لیں۔ اْس نے اَپنی فلموں کے ذریعے ہی ساری دْنیامیں اپنی بات، اپنا مؤقف پہنچایا ہے۔ ساری دْنیا یہ سمجھتی ہے کہ بھارت ایک محبت والا اَور امن پسند ملک ہے۔ دراصل یہ پاکستان ہے جس نے اِنہیں مصیبت میں مبتلا کررکھا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں پاکستان میں کیا کیا مصیبتیں بھارت کی وجہ سے آئیں۔ پانی کے مسئلے پر ہم اقوام متحدہ میں چیختے چلاتے رہتے ہیں لیکن اب اقوام متحدہ کا زمانہ نہیں ہے۔ اب میڈیا کا دور ہے۔ وہاں اپنی بات پہنچانا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ پانی کے مسئلے پر ہماری کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی اِس کام کو اِتنی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں کہ ہم دْنیا میں اپنا نقطہ نظر پھیلائیں۔ پاکستان میں آرمی پبلک اسکول، پشاور کا اِتنا بڑا سانحہ ہوا۔ یہ سانحہ میونخ اولمپکس یا بھارت میں تاج محل ہوٹل کے واقعے سے زیادہ بڑا اَور دردناک تھا۔ کیا ہم نے اِس پر ایک مؤثر فلم بنائی؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ساری دْنیا کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کلبھوشن یادیو کے اْوپر ایک نہایت عمدہ فلم بن سکتی ہے۔ اْس نے جیسے جیسے پاکستان کو نقصان پہنچایا وہ ساری دْنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے سوا ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمارے دْشمن کون ہیں۔ کیا طالبان پاکستان کے دْشمن ہیں؟ کیا اسرائیل پاکستان کا دْشمن ہے؟ ہم کبھی طالبان کی محبت کا دم بھرنے لگتے ہیں اَور ہمارے منہ بولے دانش وریہ بتاتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مددکرنی ہے۔ پھر جب ہمیں بہت مار پڑی تو ہمیں سمجھ آئی کہ ہم غلط سمجھا کرتے تھے۔ لیکن اْس وقت تک بہت دیر ہوگئی تھی۔

اِس بات کی پاکستان کو بالخصوص اَور مسلمانوں کو بالعموم اشد ضرورت ہے کہ وہ یہ جانیں کہ ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو ساری دْنیا ہمارے بارے میں سمجھے گی۔ صحیح یا غلط، حق یا ناحق وغیرہ پر کون ہے کون نہیں، اِس سے کسی کو واسطہ نہیں۔ اَب وہ زمانہ ہے کہ آپ سچ بولیں یا جھوٹ ، نہایت زوردار طریقے سے بولیں۔ ہمیں تو جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہمارے ساتھ اِتنی زیادتیاں ہوئی ہیں کہ اگر ہم صرف اْن کا تذکرہ ہی کردیں تو بہت فرق پڑے گا۔ صرف اپنی بات، اپنے مؤقف، اپنی طرف کی کہانی بہترین طریقے پر سنانی آنی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انگریزی میں فلمیں بنائیں اَور اْنہیں ساری دْنیا میں ریلیزکریں۔ Netflixیا اِسی قسم کے دْوسرے پلیٹ فارموں کا اِنتخاب کریں اَور وہاں اَپنی بات پہنچائیں۔ بھارت کتنی ہی ہندی فلمیں اِن پلیٹ فارموں پر ریلیزکرتا ہے۔ حال ہی میں اْس نے بمبئی حملوں پر ایک فلم بنائی ہے۔ آپ اْسے دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ بھارتی تو بہت اچھے ہیں۔ وہ تو اِسلام کی بہت عزت کرتے ہیں۔ آج جو ساری دْنیااسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے تو اِس کے پیچھے میڈیا کی صنعت کا بہت ہاتھ ہے۔ وہ یہودی جن کو ساری دْنیا میں کوئی منہ نہیں لگاتا تھا آج سب کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ہیں اَور دْنیا کے نزدیک اِن سے زیادہ مظلوم قوم اَور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ سارے مسلمان ممالک غزہ میں ہونے والی زیادتیوں پر چیخ رہے ہیں لیکن کوئی نہیں سن رہا۔

یہ بھی جان لیں کہ اِسلام ہرگز کسی نئی چیز کو حرام قرار نہیں دیتا۔ اْس نے حلال اَور حرام کے چندایک قاعدے مقرر کردیئے ہیں۔ اْن کے اَندررہ کر ہر کام حلال ہے۔ آپ غور کریں کہ کوئی یہ نہیں کہتا کہ سیاسی پروگرام، خبرنامہ، مذہبی پروگرام کرنا حرام ہے۔ تب تصویر کی حرمت کہاں جاتی ہے؟ ہمیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت میڈیا سے دْور رکھا گیا تاکہ ہماری آواز دْنیا میں نہ پھیل سکے۔ ہم اَیسے بے وقوف ہیں کہ اَیسی ہر سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنی آواز دْنیا تک پہنچانا بیحد ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اَیسے اسکرپٹ لکھوائیں جن پر اَیسی فلمیں بن سکیں جو ہماری بات کو زوردار اَنداز میں دْنیا میں پھیلاسکیں۔ اِس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم خواہ انگریزی میں ہو یا اْردو میں، اْسے اِتنا اچھا ہونا چاہیے کہ جو بھی دیکھے اْس میں گم ہوجائے۔ اْسے ساری دْنیا تک پہنچانے کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ یہ پیار محبت، شادی، ساس کے مظالم، عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کے موضوعات کو چھوڑ کر ہمیں اِس طرف آنا ہوگا تاکہ دْنیا کو معلوم ہوسکے کہ پاکستان اَور مسلمانوں کے کیا مسائل ہیں۔ دْنیا کو ہمارے اندرونی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمیں اب بین الاقوامی سطح پر اپنا نقطہ نظر بتانا ہوگا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ساری د نیا د نیا میں ہیں ا ور د نیا کو ہے کہ ا ہیں کہ

پڑھیں:

خدا خیر کرے

آتشزدگی سے تباہ ہونے والا شہر لاس اینجلس دنیا کے متمول ترین افراد کی بستیوں میں سے ایک ہے، اسے فرشتوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ دنیائے فلم کا سب سے بڑا مرکز ہالی وڈ بھی یہیں ہے جہاں اداکار، موسیقار، ہدایتکار اور فن کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار بڑی تعداد میں مقیم ہیں، یہاں کے باسی اپنے آپ کو دیگر دنیا میں بسنے والوں سے ایک درجہ اوپر سمجھتے ہیں، ان کا طرز زندگی نمائشی ہے۔ یہاں کم سے کم مالیت کا چھوٹا سے چھوٹا گھر بھی کئی ملین ڈالر کا ہے جبکہ بڑے گھر کروڑوں ڈالر مالیت کے ہیں۔ یہ خواب بیچنے والا شہر ہے، تباہ کن آگ کے حوالے سے مختلف تھیوریاں سامنے آ رہی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ برسوں قبل یہاں سمارٹ سٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جہاں ہر وہ چیز میسر ہو جو اس وقت دنیا میں ایجاد ہو چکی ہے اور انسان کے کام آ سکتی ہے۔ اس شہر کی تعمیر 2030ء میں مکمل ہونا تھی لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آگ کا کھیل رچایا گیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو موجودہ شہر کو تباہ کرنے اور عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ نیا شہر اور سمارٹ سٹی تو ایسا نہ کرنے کے باوجود تعمیر ہو سکتا ہے۔

ایک تصور یہ بھی موجود ہے کہ کبوتر کی سی معصومیت اور مور پنکھ کے رنگوں کے سنگھار سے آراستہ طوطے کی تیزی و طراری کا حامل اسی سائز کا ایک پرندہ ہے جو انتہائی جارحانہ مزاج رکھتا ہے۔ یہ پرندہ اگر کہیں آگ جلتی ہوئی دیکھ لے تو جلتی ہوئی ٹہنیاں اپنی چونچ میں پکڑ کر انہیں کہیں دور پھینک آتا ہے۔ وہ یہ عمل اس وقت تک جاری رکھتا ہے جب تک وہ تھک نہیں جاتا۔ عین ممکن ہے یہ پرندہ اپنی دانست میں جلتی ہوئی ٹہنیوں کو دور اس لئے پھینک آتا ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار میں آگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں تو کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے اس عمل سے آگ دیگر علاقوں میں پھیل جاتی ہے۔ لاس اینجلس اور اس سے ملحقہ علاقوں میں یہ پرندہ ایسے کام کرتے اکثر پایا جاتا ہے، اسے پرندوں میں دہشت گرد یا تخریب کار سمجھا جاتا ہے۔ آگ لگنے سے ایک رات قبل ہالی ووڈ میں گولڈن ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد ہوا جس میں فلمی دنیا کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں جمع تھے، نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔ سٹیج پر آنے والے فنکاروں نے اپنے فنی سفر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی۔ مبینہ طور پر ایوارڈ شو کی اینکر نے کہا جس شخصیت کو بھی ایوارڈ ملا ہے کسی نے اسے اپنی محنت کا صلہ کہا ہے۔ کسی نے اسے اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔ کسی نے اسے اہل خانہ کی دعائوں کا سبب قرار دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں پروگرام کی ہوسٹ نے کہا کہ کوئی ایک بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے خدا کی مہربانی سمجھتے ہوئے خدا کا شکریہ ادا کیا ہو۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوں لگتا ہے جیسے ’’نعوذ باللہ‘‘ یہاں خدا ہے ہی نہیں۔ ان کلمات کفر کا اس وقت کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا کیونکہ اس تقریب میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو خدا اور اس کی وحدانیت پر یقین نہ رکھتے تھے نہ ہی وہ اسے خالق کائنات سمجھتے تھے۔ غالباً زیادہ تر ایسے تھے جو ڈارون کی تھیوری کے مطابق بندر سے انسان بنے تھے، انہیں بندر سے انسان بننے میں لاکھوں برس لگ گئے۔ اب بندے سے بندے کا پتر بننے میں صرف ایک رات لگی۔ اگلے روز جب سب کچھ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہا تھا تو درجنوں افراد مرد و زن، بچے، بوڑھے آسمان کی طرف دیکھ کر آہ و بکا کرتے اور التجا کرتے نظر آئے کہ یاخدا ہم پر رحم فرما، اے خدا ہمیں اس آگ سے بچا لے۔ اے خدا ہماری غلطیوں کو معاف کر دے لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ خدا کی لاٹھی بے آواز تھی لیکن اس نے ہر راہ میں آنے والی چیز کو سرمہ بنا ڈالا۔

ہالی ووڈ کی تقریب میں اس شہر کو ’’گاڈ لیس ٹائون‘‘ کہنے والی آج کہاں ہے اور کس حال میں ہے، کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا خدا کے حضور پہنچ چکی ہے۔ خدا کو اس موقع پر یاد کرنے والے خدا سے بارش کی دعائیں کر رہے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات جاری تھی، خدا نے خوب یاد دلایا، وہی قادر مطلق ہے۔

کیتھ ایزمنٹ نے پرائیویٹ فائر فائٹر کی خدمت کرکے اپنے گھر کو جلنے سے بچایا اور خدا کا شکر ادا کیا، سیکڑوں فلمی ستاروں، ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں اور تیکنیک کاروں کے گھر ان کی نظروں کے سامنے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ یہاں ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ آپ اسے محل بھی کہہ سکتے ہیں جس میں بہترین انداز میں آراستہ بیڈ رومز تھے، بہت بڑی بار تھی جہاں سیکڑوں افراد کے لئے سامان مے نوشی موجود رہتا تھا، بہت بڑا ڈانسنگ فلور وسیع اور عریض لان تھے جہاں ہزاروں افراد پر مشتمل تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا کئی گھروں سے بڑا ایسا ڈرائنگ روم بھی تھا کہ تاروں بھری رات کا وہیں بیٹھے ہوئے لطف اٹھانا چاہتے تو ایک بٹن دبانے سے اس کی چھت کھل جاتی تھی۔ اسی جگہ بارش میں نہانے، لپٹنے، جھپٹنے کے شغل بھی ہوتے تھے، ہزاروں گاڑیوں کی پارکنگ اور ملازمین کی رہائش گاہیں بھی تھیں، بہت بڑے کئی سوئمنگ پول تھے جہاں پارٹیاں منعقد ہوتی تھیں، سب کچھ اس طرح جل کر راکھ ہوا جیسے کچھ تھا ہی نہیں، ان عمارتوں کی راکھ کو بھی ہوا اپنے ساتھ اڑا کر جانے کہاں لے گئی۔
جدید ترین مشینری، ٹینکر، جہاز اور ہزاروں فائر فائٹر آگ پر تاحال قابو نہیں پا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے تک لگنے والی آگ کے فقط سترہ فیصد حصے پر اسے بجھانے میں کامیابی ہوئی ہے۔

ایک شخص کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں اسے عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ وہ خوش قسمت تھا، امریکہ میں تھا، پاکستان میں نہیں تھا ورنہ دنیا بھر میں ہر جگہ آگ لگانے کا جرم قبول کرکے پورے نظام کو سرخرو کر سکتا تھا۔ لاس اینجلس حکومت اور انتظامیہ نے پہلے ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے 7070ڈالر فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہمارے سیلاب کے زمانوں میں دیئے گئے امداد پیکیج سے ملتا جلتا ہے، لاکھ ڈالر کے گھر اور املاک تباہ ہو گئیں تو اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا ذکر بھی سننے میں آ رہا ہے کہ جب فلسطین پر بم برسائے جا رہے تھے، بے گناہوں کا قتل عام ہو رہا تھا تو دنیا کے کونے کونے سے آواز اٹھی، ان کے حق میں احتجاج ہوئے لیکن اس شہر سے مظلوموں کے لئے کوئی آواز بلند نہ ہوئی بلکہ ایک آواز تو ایسی تھی جس نے کہا فلسطینیوں کو جلد سے جلد ملیامیٹ کر دو۔ یہ جیمز وڈ تھا جس کا اپنا گھر ملیا میٹ ہو گیا، غلطیوں اور غفلت کی سزا پوری بستی پر بانٹ دی جاتی ہے پھر سب کو اس میں اس کا حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔ لاس اینجلس کی آگ میں تباہی تو ہے ہی کچھ سبق بھی پوشیدہ ہیں۔
ہم بھی صداقت، امانت اور دیانت کا سبق بھولے ہوئے ہیں۔ خدا خیر کرے، آگ ہم سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سربراہ پاک بحریہ سے بنگلہ دیش کی مسلح افواج ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف افسر کی ملاقات ،باہمی دلچسپی کے امورپر تبادلہ خیال
  • سربراہ پاک بحریہ سے بنگلہ دیشی لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کی ملاقات
  • ساری دنیا کو چور کہنے والے بانی پی ٹی آئی نے چوری کی، خواجہ آصف
  • مطالبات پھیل کر 2 صفحات تک چلے گئے، عرفان صدیقی
  • مجھے کوئی ریلیف نہیں چاہیئے، تمام کیسزکا سامنا کروں گا۔ بانی پی ٹی آئی کے سخت الفاظ
  • خدا خیر کرے
  • پاک بحریہ نے مشترکہ ٹاسک فورس کی کمانڈ رائل نیوزی لینڈ نیوی کو سونپ دی
  • خواب نے امریکی خاتون کو لاکھوں کا مالک بنا دیا
  • آرمی چیف سے بیرسٹر گوہر کی ملاقات، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ساری کہانی سنا دی
  • سر ایک چھوٹا سا کام ہے