مسجد نبویؐ اور جمعتہ المبارک کی نماز… !
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
مدینہ منورہ میں ہفتہ 20 جولائی سے 28 جولائی تک 8 روزہ قیام کے دوران ہماری خوش نصیبی کہ بیچ میں 26 جولائی کو جمعہ کا دن تھا۔ اللہ کریم کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہمیں جمعتہ المبارک کی نماز مسجدِ نبوی ؐ میں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یوں تو سال کے تمام دنوں میں جس طرح مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں عمرہ کرنے والوں، خانہ کعبہ کا طواف کرنے والوں اور وہاں نمازیں ادا کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اسی طرح یقینی طور پر مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ میں نمازیں پڑھنے اور روضہ اقدسؐ پر ہدیہ درود و سلام پیش کرنے کے لیے حاضری دینے والوں کی بھی ہر وقت ان گنت تعداد موجود ہوتی ہے ۔پھر جمعتہ المبارک کے روز اس تعداد میں اور بھی بہت اضافہ ہو جاتا ہے کہ بہت سارے مقامی لوگوں کے ساتھ دوسرے شہروں کے لوگ بھی جمعتہ المبارک کی نماز ان متبرک ترین مقامات پر ادائیگی کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آن موجود ہوتے ہیں۔ مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں 19 جولائی کو نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے باب میں اس بات کا تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ مسجد الحرام میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے جانے والوں کے بے پناہ رش کی وجہ سے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے سامنے کا مسجد الحرام میں داخلے کا گیٹ نمبر 79 (باب الملک فہد ) جو عموماً ہرو قت کھلا رہتا ہے بند کر دیا گیا اور ہمیں مسجد الحرام کے مغربی سمت کے دور کے گیٹ سے مسجد الحرام میں داخل ہونا پڑا اور اسی سمت میں جمعہ کی نماز بھی ادا کرنا پڑی۔ مسجدِ نبوی ؐمیں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے اندر داخل ہونے میں اگرچہ ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی لیکن وہاں نمازیوں کا اتنا رش تھا کہ دور دور تک پھیلے برآمدوں میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں بچی تھی۔ عا م دنوں میں جہاں ہم نمازوں کی ادائیگی کے لیے آسانی کے ساتھ پہنچ جایا کرتے تھے، جمعہ کے روز نمازیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ہمارے لیے وہاں پہنچنا ممکن نہ سکا۔
جمعتہ المبارک 26 جولائی کو دن 12 بجنے میں ابھی 15 ،20منٹ باقی ہونگے کہ ہم مسجد نبویؐ میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کی نیت اپنے ہوٹل سے نکل آئے۔ ہمارا خیال تھا کہ اگلے 10,15 منٹوں میں ہم مسجدِ نبوی ؐکے جنوبی سمت کے بیرونی صحن میں وہاں پہنچ جائیں گے اور وہاں اسی سمت کے مسجدِ نبوی ؐکے دروازے باب المکہ یا بابِ بدر سے اندر داخل ہو کر مسجدِ نبوی ؐکے جنوبی سمت کے قدیمی حصے کی اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ کر جمعہ کی نماز اد اکر سکیں گے۔ ہم بابِ مکہ یا بابِ بدر سے مسجدِ نبوی ؐکے اندر داخل ہوئے اور جیسا اوپر میں نے بیان کیا ہے ہمارے لیے آگے بڑھنا کچھ آسان نہیں تھا۔ ہمارے دائیں ، بائیں اور سامنے دور دور تک لوگ صفوں کی صورت میں قالینوں پر بیٹھے ہوئے تھے تو ان کے ساتھ ہماری طرح بہت سارے لوگ آگے جانے اور اپنے لیے موزوں جگہ کی تلاش کرتے بھی نظر آئے۔ ہم نے حتی الوسع آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن مسجدِ نبوی ؐکے جنوبی سمت کے قدیمی حصے تک پہنچنا بہر کیف آسان نہیں تھا۔ میں اور عمران ساتھ ساتھ چل رہے تھے جبکہ واجد حسب معمول ہم سے کچھ آگے تھا۔ عمران سے میں نے کہا کہ اُسے روکیں اِدھر ہی کوئی جگہ کی گنجائش دیکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں اور عمران ایک صف میں کچھ خالی جگہ دیکھ کر ساتھ جُڑ کر بیٹھ گئے ۔ واجد نے ہم سے ایک دو صفیں آگے اپنے لیے جگہ بنا لی اور وہاں بیٹھ گیا۔
جمعہ کی پہلی اذان ہو چکی تھی۔ اب دوسری اذان کا انتظار تھا کہ وہ ہو تو اُس کے بعد امام صاحب (امامِ مسجدِ نبوی ؐ) جمعہ کے خطبے کا آغاز کریں۔ ہمارے ہاں جمعہ کی نماز کے خطبے کے لیے ذرا مختلف طرح کا معمول ہے کہ یہاں پہلی اذان ہوتی ہے اور مائیک وغیرہ کھلا رہتا ہے ۔ بچے جوان وغیرہ کچھ تلاوت کرتے ہیں یا نعتیں وغیرہ پڑھتے ہیں ۔ پھر خطیب صاحب یا امام صاحب کا اپنی زبان اُردو اور پنجابی وغیرہ میں خطاب شروع ہو جاتا ہے جو 15,20 منٹوں بعض اوقات اس سے بھی زیادہ وقت کے لیے جاری رہتا ہے۔ اس دوران نمازیوں کی مسجد میں آمد بھی بدستور جاری رہتی ہے ۔ امام صاحب خطاب ختم کرتے ہیں تو دوسری اذان سے قبل سنتوں کی ادائیگی کے لیے کچھ وقت دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد دوسری اذان ہوتی ہے اور امام صاحب یا خطیب صاحب مسنون عربی خطبہ جس کے دو حصے ہوتے ہیں پڑھتے، بولتے یا سُناتے ہیں ۔ پھر جمعہ کی دو فرض رکعتیں ادا کی جاتی ہیں اورنمازی بعد میں سنتیں اور نفل بھی ادا کر لیتے ہیں۔ حرمین شریفین (مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبویؐ مدینہ منورہ )میں اس سے ذرا مختلف معمول ہے ۔ وہاں پہلی اذان تو اپنے پہلے مقررہ وقت پر کوئی سوا بارہ بجے کے لگ بھگ ہو جاتی ہے 10,15 منٹ کے وقفے کے بعد دوسری اذان ہوتی ہے اوراُس کے ساتھ امام صاحب کا خطاب جسے خطبہ جمعہ کہا جاسکتا ہے شروع ہو جاتا ہے۔ یہ درمیان میں ایک وقفے کے ساتھ کم و بیش 15,20 منٹوں تک جاری رہتا ہے ۔ بلا شبہ مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں امام کعبہ اور مسجدِ نبوی ؐ مدینہ منورہ میں امام ِ مسجدنبویؐ کے خطبات کی بڑی اہمیت، درجہ اور مقام و مرتبہ ہے۔ یہ رُشد و ہدایت اور رہنمائی کا ایک تسلسل ہے جو چودہ ساڑھے چودہ سو سال سے چلا آ رہا ہے۔ اس سے جہاں دین کی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ کا فریضہ سرانجام پاتا ہے وہاں اُمتِ مسلمہ کو مشکل حالات اور مسائل و مشکلات سے عہدہ برآ ہونے اور عصرِ حاضر کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے جذبہ ، ولولہ اور رہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم مسلمان بحیثیت ایک ملت یا اُمت ان سے کس حد تک استفادہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ہیں ۔
امام مسجد نبوی ؐ کے جمعتہ المبارک کا خطبہ سُننے سے قبل اور اُس کے دوران میرے ذہن میں اس طرح کا خیال یا تاثر موجود تھا کہ مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں امام ِ کعبہ کا جمعہ کا خطبہ تو سُنا ہوا ہے دیکھتے ہیں کہ امام مسجدِ نبوی ؐ اپنے جمعہ کے خطبہ میں کیا ارشاد فرماتے ہیں اور کیسا اندازِ تخاطب اختیارکرتے ہیں۔ میں نے مسجد الحرا م میں جمعہ کی نماز کے خطبہ کا تفصیل سے ذکر کر رکھا ہے کہ امامِ کعبہ کی آواز اور اندازِ تخاطب میں ایک طرح کا جلال اور کچھ کچھ سختی تھی۔ آیاتِ قرآنی اور حدیثِ مبارکہ کے حوالے دیتے ہوئے اُن کے لہجے کی سختی اور بلند آہنگی بدستور برقرار رہی تھی۔ پھر انہوں نے فرض نماز کی دونوں رکعتوں میں قرأت بھی کسی حد تک طویل اور قرآن پاک کے آخری پاروں کی سورتوں کی جن میں آخرت اور قیامت کے حالات کا ذکر ہے کی، کی تھی ۔ اللہ کریم مجھے کسی غلطی سے معاف فرمائے مسجد نبوی ؐ کے امام صاحب کے خطبہ جمعہ کے حوالے سے میں کہوں گا کہ اُن کے خطبہ جمعہ کی طوالت تو شاید مسجد الحرام کے امام صاحب کے خطبہ جتنی ہی تھی لیکن آواز اور اندازِ تخاطب میں اُن کے مقابلے میں زیادہ نرمی اور مٹھاس پائی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ حدیثِ مبارکہ کا بیان اور حوالہ جات بھی کچھ زیادہ تھے ۔ عربی الفاظ کے معنی یقینا مجھے نہیں آتے تاہم امام صاحب جب صحاح ستہ (حدیث ِ مبارکہ کی سات مستند کتابوں) میں کسی کا حوالہ دے کر عربی الفاظ ادا کرتے تو پتہ چل رہا تھا کہ انہوں نے حدیث مبارکہ کا حوالہ کس مناسبت سے دیا ہے ۔ امام مسجد نبویؐ کے خطبہ کے حوالے سے میرے ذہن میں یہ بات بھی موجود ہے کہ انہوں نے فرض نماز کی دونوں رکعتوں میں کوئی زیادہ طویل قرأت نہیں کی تھی بلکہ ہر دو رکعتوں میں غالباً تیسویں پارے کی چھوٹی صورتوں کی قرأت کی تھی۔ بہر کیف مسجدِ نبوی ؐ میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی فضیلت اور سعادت میں سمجھتا ہوں اللہ کریم کا بہت بڑا احسان ہے اور دل چاہتا ہے کہ ایک بار پھر یہ سعادت نصیب ہو جائے۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں جمعہ کی نماز مسجد الحرام میں جمعتہ المبارک مکہ مکرمہ میں مسجد نبوی کرتے ہیں کے خطبہ نماز کی جاتا ہے اذان ہو کے ساتھ داخل ہو جمعہ کے ہے اور سمت کے تھا کہ کی تھی
پڑھیں:
امام ابن تیمیہؒ کے تجدیدی کارنامے
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے تجدیدی کارنامے کا احاطہ ممکن نہیں کیوںکہ وہ بے شمار علمی وعملی شعبوں اور پہلووں پر محیط ہے۔ البتہ مورخین نے ان کے تجدیدی کارناموں کے بعض اہم نکات درج ذیل بتائے ہیں:
ـ1۔ عقیدۂ توحید کی تجدید مشرکانہ عقائد ورسوم کا ابطال
سید ابوالاعلی مودودیؒ لکھتے ہیں: انہوں نے (شیخ الاسلام ابن تیمیہ) بدعات اور مشرکانہ رسوم اور اعتقادی اور اخلاقی گمراہیوں کے خلاف سخت جہاد کیا اور اس سلسلے میں بڑی مصیبتیں اٹھائیں۔ اسلام کے چشمۂ صافی میں اس وقت تک جتنی آمیزش ہوئی تھیں اس اللہ کے بندے نے ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑا ایک ایک کی خبر لی اور ان سب سے چھانٹ کر ٹھیٹھ اسلام کے طریقہ کو الگ روشن کرکے ساری دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ اس تنقید وتنقیح میں اس شخص نے کسی کی رو رعایت نہ کی، بڑے بڑے آدمی جن کے فضل وکمال کا سکہ مسلمانوں کی ساری دنیا پر بیٹھا ہوا تھا جن کے نام سن کر لوگوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں ابن تیمیہ کی تنقید سے نہ بچ سکے، وہ طریقے اور اعمال جو صدیوں سے مذہبی حیثیت اختیار کیے ہوئے تھے جن کے جواز بلکہ استحباب کی دلیلیں نکال لی گئی تھیں اور علمائے حق بھی جن سے مداہنت کررہے تھے، ابن تیمیہ نے ان کو ٹھیٹھ اسلام کے منافی پایا اور ان کی پرزور مخالفت کی، اس آزاد خیالی، صاف گوئی کی وجہ سے ایک دنیا ان کی دشمن ہوگئی اور آج تک دشمنی چلی آرہی ہے۔ جو لوگ ان کے عہد میں تھے انہوں نے مقدمات کراکے کئی بار جیل بھیجوایا، اور جو بعد میں آئے ان کی تکفیر وتضلیل کرکے اپنا دل ٹھنڈا کیا مگر اسلام خالص ومحض کے اتباع کا یہ صور پھونکا تھا اس کی بدولت ایک مستقل حرکت دنیا میں پیدا ہوگئی۔ (تجدید واحیائے دین: 78-79)
اس زبردست کارنامے کی تعریف امام حدیث علامہ ذہبی نے ان الفاظ میں کی ہے: ’’(ابن تیمیہ نے خالص سنت اور طریقۂ سلف کی حمایت کی اور اس کی تائید میں ایسے دلائل اور ایسے طریقوں سے کام لیا جن کی طرف ان سے پہلے کسی کی نظر نہ گئی تھی‘‘۔ (الرد الوافر: 17)
ـ2۔فکر اسلامی کی احیاء
شیخ الاسلام کے کارہائے تجدید واحیاء دین کا ایک تابناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے علمی وفکری جمود کو توڑا اور علوم شریعت کی تجدید کی، تقلید جامد کے خلاف نہ صرف ہلا بولا بلکہ قرون اولیٰ کے مجتہدین کے انداز میں اجتہاد کرکے دکھادیا۔ کتاب وسنت اور آثار صحابہ سے براہ راست استنباط اور مختلف مذاہب کے درمیان آزادانہ محاکمہ کیا اور اگر کسی مسئلے میں جمہور اہل علم کے دلائل کمزور پایا تو جمہور کی روش سے بھی الگ ہوگئے۔ ان کے زمانے کے علما جو اپنے گروہ کے فقہی دائرے سے سرمو قدم مخالفت بھی جرم سمجھتے تھے اور قرآن وحدیث کو ان فقہی مسلکوں اور اپنے گروہ کے عمل کے عینک سے دیکھتے تھے فقہی اختلافات میں قرآن وحدیث کے تابع ہونے کے بجائے قرآن وحدیث کو ہی اپنے امام کے قول کے مطابق ڈھالنے میں لگ جاتے تھے ابن تیمیہ نے اپنی اجتہادی بصیرت اور فقہی صلاحیت، تقابلی فقہ، ترجیحات اور اختیارات کی ایک نئی راہ ان کے سامنے پیش کی۔
ـ3۔غیراسلامی ادیان وفرق کی تردید
شیخ الاسلام کا تجدیدی کارنامہ صرف مسلمانوں کی علمی وفکری اور اخلاقی واصلاح پر ختم نہیں، بلکہ انہوں نے غیر اسلامی ادیان وفرق کے فکری یلغاروں کا بھی دندان شکن جواب دیا، چونکہ ان کی پیدائش سے کچھ سال قبل ہی اسلامی دارالخلافہ بغداد ہلاکو خان کی غارت گری سے تباہ ہوچکا تھا، مسلمان سیاسی زوال کے شکار تھے ایسے میں دوسرے مذاہب وادیان نے کروٹ لی اور اسلام پر فکری یلغار بھی شروع کردیا ، چونکہ شیخ الاسلام اپنے زمانے میں اسلام کے وکیل تھے انہوں نے دشمنوں کے ایک ایک حملہ کا منہ توڑ جواب دیا۔ ان کے زمانے میں سائپرس کے ایک عیسائی نے مسیحیت کے اثبات اور اسلام کے خلاف ہنگامہ خیز کتاب لکھی۔ شیخ الاسلام کی رگ حمیت بھڑکی اوار اس کتاب کا جواب دیا کہ ان کے معاصرین ہی نہیں بلکہ آج کے علما بھی انگشت بدندا ں ہیں۔ ابو زہرہ کو لکھنا پڑا: ’’امام ابن تیمیہ کی مناظرانہ تصنیفات میں یہ کتاب سب سے زیادہ ٹھنڈی وپرسکون ہے یہ کتاب تنہا ان کو باعمل علما، مجاہد، ائمہ اور غیر فانی مفکرین کا مرتبہ دلانے کے لیے کافی ہے‘‘۔ (ابن تیمیہ ، حیاتہ وعصرہ)
ـ4۔فلسفہ ومنطق پر تنقید
شیخ الاسلام کے زمانے میں منطق وفلسفہ کا طوطی بولتا تھا اس کے مسائل ومباحث کی سمجھ ذہانت وذکاوت کا معیار سمجھی جاتی، کسی کو اس کے مقابلے میں بولنے کی جرأت نہ تھی عام علمائے اسلام تو اس میدان کے آدمی ہی نہیں تھے، مسلم دنیا پر فلسفہ کا رعب چھایا ہوا تھا۔ غزالی جیسا شخص فلسفے کی عشوہ طرازیوں سے نہیں بچ سکا۔
شیخ الاسلام نے فلسفہ ومنطق کا ناقدانہ مطالعہ کیا، ان فلاسفہ کی ایک ایک بات کی خبر لی ان کے علمی قلعے میں گھس کر انہیں شکست دی، اس کی علمی کمزوریوںکا پردہ اس طرح فاش کیا کہ عقلیات کے میدان میں فلسفہ ومنطق کا زور اور تسلط ہمیشہ کے لیے ڈھیلا ہوگیا۔ بقول شبلی نعمانیؒ علامہ موصوف اگر نہایت متعصب متقشف اور فلسفے کے سخت دشمن تھے تاہم چونکہ تقلید کے پابند نہ تھے اور حق وباطل کی تمیز رکھتے تھے اس لیے متکلمین اور حکما کے مقابلے میں ہر جگہ نہایت انصاف سے رائے دی ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’باقی حکمائے یونان نے علوم طبعی اور ریاضی کے متعلق جو کچھ کہا تو ان علوم میں ان کے اقوال بہ نسبت متکلمین کے زیادہ صحیح ہوتے ہیں کیونکہ ان علوم میں متکلمین کا اکثر کلام نہ علم پر مبنی ہے نہ عقل پر نہ شریعت پر‘‘۔ (علم الکلام: 85-86)
یونانی فلسفہ ومنطق کی تنقید کے باب میں شیخ الاسلام کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ رقمطراز ہیں: امام ابن تیمیہ کا یہ مجتہدانہ کارنامہ اور فلسفہ ومنطق یونان کے علمی تنقید ومحاسبہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور نئے اجتہاد وتفکر کا دروازہ کھولتا ہے۔ (تاریخ دعوت وعزیمت: ج، 2، ص 258)