ایک غریب شخص دربار رسالتؐ میں حاضر ہوا۔ عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں بہت غریب ہوں، میرے پاس کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں، میری مدد فرمایئے۔ آپ ﷺ نے فریادی سے سوال کیا، کہ تمہارے گھر میں کیا کچھ ہے، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ صرف ایک ٹاٹ ہے جس پر میں رات کو سوتا ہوں اور ایک پیالہ جس میں پانی پیتا ہوں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا جائو اور وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آئو، فریادی تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں چیزیں لیکر حاضر ہو گیا تو آپ ﷺ نے محفل میں موجود صحابہ اکرامؓ سے فرمایا کہ کوئی اس کا خریدار ہے۔ ایک صحابی ؓ نے عرض کی وہ ایک دینار کے بدلے خریدار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی اور جو اس سے زیادہ کا خریدار ہو۔ ایک دوسرے صحابیؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں دو درہم میں خریدار ہوں۔ آپ ﷺ نے وہ دونوں چیزیں دو درہم میں فروخت کر دیں اور اس فریادی کو فرمایا کہ جائو ایک درہم سے کلہاڑی خرید کر لائو اور دوسرے درہم سے اپنے اہل و عیال کیلئے کھانے کا بندوبست کرو۔ فریادی فوراً بازار سے کلہاڑی خرید کر لایا تو آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ نصیب کیا اور اسے فرمایا کہ جائو اور جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور انہیں بازار میں فروخت کرکے اپنا روزگار کمائو، چند ہفتوں کے بعد وہ فریادی دوبارہ بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوا، تو عرض کی یارسول اللہ ﷺ میرے پاس اب دس درہم جمع ہو چکے ہیں اور میرے حالات پہلے سے بہتر ہیں۔
یہ اصول کائنات کے عظیم ترین رہنما، مفکر، دانشور جناب رسالت مآب ﷺ نے مقرر فرمائے ہیں، یہی دین اسلام ہے جو تاقیامت لاگو ہیں جو قوم بھی ان اصولوں کو اپنائے گی، کامیابی انہی کو ملے گی، روگردانی کرنے والوں کے حصے میں ناکامی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
بدقسمتی سے 70سال سے ہماری اشرافیہ وقتی ضرورت اور اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے اور سرکاری وسائل پر اپنا اپنا ووٹ بینک پکا کرنے کیلئے پالیسی وضع کرتے ہیں۔ جن کا مقصد قوم یا ملک کا مفاد نہیں بلکہ ان کے اقتدار کی طوالت ہوتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں لگ بھگ 600ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ رقم محض اپنے اپنے منظور نظر افراد کو نوازنے کے لئے استعمال ہوگی، قومی خزانے سے اتنی بھاری رقم کا ناجائز استعمال کسی بھی قومی سانحہ سے کم نہیں۔
600ارب روپے سے اگر ایک بینک قائم کیا جائے جو صرف ہنرمند، بے روزگار نوجوانوں کو بلاسود قرضہ فراہم کرے تاکہ وہ نہ صرف خود کفیل ہوں بلکہ معاشی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں بلکہ جن غریب لوگوں کے نام پر یہ بھاری رقم خرچ کی جاتی ہے، ان لوگوں کو بھی منظم طریقے سے ہینڈل کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اگر مخلص ہے اور واقعی عوام کی خدمت پر یقین رکھتی ہے تو ایک ایسا ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے جو بے روزگار، غریب افراد کو مختلف قسم کے کاروبار کی تربیت فراہم کرکے اور پھر انہی افراد کو بینک چھوٹے، چھوٹے کاروبار کیلئے قرض فراہم کرے تاکہ سب افراد اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر غربت سے نجات پا سکیں۔
کئی سال سے بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اب کسی چوک، چوراہے پر دیکھ لیں بھکاریوں کا جھرمٹ ہو گا، یونہی کوئی گاڑی رکتی ہے، تو وہ ایسے امڈ پڑتے ہیں جیسے کسی قرضدار سے، قرض وصول کرنے والا ہم بھی عجیب قوم ہے۔ ہم رشوت، خیانت، ملاوٹ یعنی مختلف حرام کے طریقوں سے پیسہ کما کر، کسی بھکاری، مدرسے یا مسجد کو چندہ دے کر خود کو معصوم سمجھ لیتے ہیں اور بری الذمہ ہو جاتے ہیں جبکہ صدقہ و خیرات کیلئے بھی رزق حلال شرط ہے۔
حال ہی میں ہمارے برادر اسلامی ممالک نے بے شمار بھکاریوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کیا جن میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی، یہ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ ہم بیرون ملک بھی بدنامی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے پھر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاسپورٹ کی عزت نہیں۔ ارے عزت کیلئے خودداری اپنانا پڑتی ہے، بھکاریوں کی کوئی عزت نہیں کرتا۔
صرف خوددار، محنتی اور باصلاحیت اقوام ہی دنیا میں اپنا تحکم قائم رکھ سکتی ہے، بحیثیت قوم ہم جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوگئے۔ اس خلا کو پر کرنے کیلئے سخت جدوجہد اور ریاضت کی ضرورت ہے۔
قوموں کی تربیت لیڈر کیا کرتے ہیں، ہماری سرزمین لیڈران سے محروم رہی ہے، وقت کے حاکم لیڈر نہیں صرف حکمران ہیں اور یہ حادثات کی پیداوار ہیں، وژن اور دور اندیشی سے مکمل عاری، اپنی اپنی دنیا میں مگن، دولت، دھن، اقتدار کے یہ رسیا لوگ صرف اپنی تجوریاں تو بھر سکتے ہیں مگر عوام کی حالت زار کو نہیں بدل سکتے۔
عوام کو بھی اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے، صرف حکمرانوں کو برا بھلا کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی، کیا کبھی؟ ہم نے غور کیا ہے کہ ہمارا اپنا طرز عمل کیسا ہے؟ کیا ہم اسلامی تعلیمات پرکس قدر عمل پیرا ہیں۔
قومیں انفرادیت سے نہیں اجتماعیت سے بنتی ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دے کر ہی اجتماعی مفادات بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ ہمارے ذاتی مفادات ہیں، آج بھی ہم صرف اپنے اپنے مفادات کے حصول کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں۔
بے ضمیری وہ دیمک ہے جو قومی حمیت کو کھا جاتی ہے۔ کرپشن، خیانت کرکے دولت اکٹھی کرنے والوں کو جب امیر کہا جائے، ان کی دولت کے چرچے ہوں، رزق حلال کمانے والوں کو احمق کہا جائے تو پھر بھکاری ہی پیدا ہوتے ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
کسی کے دباؤ میں آکر ایوان کی کارروائی نہیں چلاؤں گا، اسپیکر قومی اسمبلی سردارایازصادق
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جنوری2025ء)اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اہم ریماکس دیئے ہیں کہ کسی کے دباؤ میں آکر ایوان کی کارروائی نہیں چلاؤں گا، ایوان کی کارروائی اسمبلی کے قواعد کے مطابق چلاؤں گا،ایوان کی کارروائی بہت اہمیت کی حامل ہے ایوان میں عوامی مسائل کو زیر بحث لانا چاہیے۔(جاری ہے)
جاری اعلامیہ کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی نے کہاکہ طے ہوا تھا کہ اپوزیشن کے ممبران کورم کی نشاندہی نہیں کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ یہ بھی طے ہوا تھا کہ وقفہ سوالات کے دوران نقط اعتراض نہیں لیا جائے گا اور نا ہی کورم کی نشاندہی کی جائے گی۔ سر دار ایاز صادق نے کہاکہ وقفہ سوالات کا دورانیہ کا تعلق براہ راست عوام کے مسائل سے ہوتا ہے، ہمیں عوام نے منتخب کر کے اپنے مسائل کے حل کیلئے پارلیمان میں بھیجا ہے۔ سر دار ایاز صاد ق نے کہاکہ اپوزیشن سیاست کر رہی ہے، عوامی مسائل پر توجہ نہیں دے رہی۔