موت کی کوکھ سے زندگی جنم لے سکتی ہے تو سنگلاخ چٹانوں میں جھیلیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ایسی جھیلیں جن میں لاکھوں زندگیاں جنم لیتی ہوں اور پھر ان سانسیں لیتے جسموں سے ہم اپنی توانائی کشید کریں۔ کوئٹہ ائرپورٹ پر اترنے سے پہلے، جب ایک بورنگ سفر ختم ہونے کا اعلان ہوا تو جہاز کی کھڑکی سے مجھے وہ جھیل نظر آئی، نیلے آسمان جیسے رنگ کا نگینہ ہو چکی جھیل۔ میں نے اسی وقت وادی غذر کی خلطی جھیل ایسی ہنہ لیک پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔
جس منیر نامی ڈرائیور نے ہمیں ائرپورٹ سے لیا تھا میں نے اسی سے پوچھ لیا کہ ہنہ جھیل کیسے جایا جا سکتا ہے۔ صرف تیس منٹ منیر نے بس اتنا ہی بتایا اور ہم ہوٹل پہنچنے کے بعد پہلی آوارگی کے لیے نکل گئے۔
سطح سمندر سے سترہ سو میٹر سے زائد بلندی والے کوئٹہ شہر کا تعارف جھیلوں، چشموں اور برف زاروں کے حوالے سے کبھی نہیں ہوا، یہ شہر صوبائی تعصب اور بم دھماکوں کے حوالے سے بدنام کر دیا گیا، پنجاب دشمنی ایک سازش کے تحت کوئٹہ سے جوڑی گئی مگر یہ شہر اپنے اطراف میں زندگی تقسیم کرتے منظر بھی رکھتا ہے، اس کا یہ چہرہ پوشیدہ رکھا گیا۔
ہم ہوٹل سے نکلے اور شمال جانب دس کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے پہاڑی راہداریوں کی غلام گردشوں میں چکر کاٹتے ہنہ جھیل پر پہنچ گئے۔ اوڑک وادی میں موجود زرغون رینج کی یہ جھیل برطانوی راج کے دوران 1894 میں سیر و تفریح کے لیے بنائی گئی تھی۔ 1818 ایکڑ رقبہ پر پھیلی اس جھیل کی گہرائی 43 فٹ ہے جس میں بتیس کروڑ بیس لاکھ گیلن پانی کے ذخیرے کی گنجائش ہے۔ یہ جھیل قدرتی نہ سہی مگر 1894 سے لے کر 1997 تک یہ جھیل پانی سے یوں آباد رہی کہ مرغابیوں نے یہاں اپنے مسکن بنائے اور افزائش بھی کی۔ سائبیریا سے آنے والے پرندے موسم سرما میں یہاں آتے اور بہار کی آمد تک یہیں رہتے۔ اوڑک کے چشموں اور برف پگھلنے سے رواں ہونے والے پانی کو جھیل ہنہ تک لانے کے لیے برطانوی راج نے لوہے کے پانچ دروازوں اور پلوں پر مشتمل سرپل تعمیر کیا۔
ہنہ جھیل دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سال سن دو ہزار سے دو ہزار چار تک خشک رہی۔ اب بھی ٹکٹوں کی مد میں وصولی کے باوجود ہنہ جھیل مناسب دیکھ بھال سے محروم ہے۔
جھیل کم ہوتی پانی کی سطح کی وجہ سے اپنا حسن کھو رہی ہے اور طرفین میں لگے باغ بھی اپنی فطری کشش کھو چکے ہیں۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہم جنوری کے آغاز میں وہاں تھے جب پت جھڑ نے ہریالی نوچ لی تھی مگر اس کے باوجود یہاں انتظامی غفلت بھی نظر آتی۔ کیا ہی اچھا تھا کہ جہاز پر بیٹھے ہوئے ہم نے جس جھیل کو دیکھا تھا اسے یوں روبرو نہ دیکھتے، مگر جستجو نے جھیل کا وہ تاثر زائل کر دیا جو دوران پرواز بنا تھا۔ ہنہ جھیل میں کشتی رانی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ چند سال قبل کشتی الٹ جانے سے ہونے والا حادثہ پندرہ سے زائد افراد کی جان لے گیا تھا۔ اب چیئر لفٹ بھی فعال نہیں تھی۔ ہم نے چنار، پائن اور ایش کے درختوں کو چھوڑا اور جھیل کی سطح تک جانے کے لیے زینے استعمال کیے اور نیچے اترتے چلے گئے۔ جھیل جو بلندی سے ایک دائرہ لگتی تھی ہم پانی کی سطح کے قریب آئے تو اب یہی جھیل وسیع ہو کر پھیلتی گئی۔ کوئٹہ کے باسیوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہفتہ وار چھٹی تفریحی مقام پر مناتے ہیں اور قریب ترین سیرگاہ ہنہ جھیل ہی ہے اس لیے شام ہونے سے پہلے یہاں لوگوں کی بڑی تعداد بچوں اور خواتین سمیت موجود تھی۔ پاک فوج کے زیر انتظام آ چکی یہ جھیل سیاحوں کے لیے احساس تحفظ بھی برقرار رکھتی ہے۔
ہم جو جھیلوں کی تلاش میں کوچہ کوچہ گھومتے ہیں اور گلگت و سکردو کی کتنی بلندیاں سر کرتے ہیں، ہمیں ہنہ جھیل بیٹھے بٹھائے دستیاب ہو گئی۔ کوئٹہ جیسے کاروباری اور خوشحال شہر میں ایسی سیرگاہ پر توجہ دی جائے تو یہ جھیل بھی شمالی پاکستان کی جھیلوں جیسی توجہ حاصل کر سکتی ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
کوئٹہ، ہڑتال کرنیوالے سرکاری ڈاکٹروں کیخلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز
صوبائی وزیر صحت کے مطابق اسپتالوں کی بندش میں ملوث پیرا میڈیکس اور فارماسسٹ کیخلاف محکمانہ کارروائی کرتے ہوئے 29 ڈاکٹروں اور فارماسسٹ کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ حکومت بلوچستان نے غیر قانونی ہڑتال اور اسپتالوں کی بندش میں ملوث ڈاکٹروں، پیرا میڈیکس اور فارماسسٹ کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے اعلان کیا کہ ہڑتالی ڈاکٹروں اور عملے کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ ان کے مطابق 29 ڈاکٹروں اور فارماسسٹ کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا ہے کہ اسپتالوں کی زبردستی بندش میں ملوث ڈاکٹروں، فارماسسٹوں، اور پیرا میڈیکس کو ملازمت سے معطل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہڑتال میں شامل ڈاکٹروں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے لئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کو خط لکھنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ صحت عامہ کی خدمات کی بندش تشویشناک اور قابل مذمت ہے اور اس طرح کے اقدامات عوام کو صحت کی سہولیات سے محروم کرنے کے مترادف ہیں۔ حکومت بلوچستان نے واضح کیا ہے کہ صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں رکاؤٹ ڈالنے والے کسی بھی عملے کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔