Nai Baat:
2025-04-15@09:23:36 GMT

لاس اینجلس پیسے کی چنگاری میں جھلس اٹھا

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

لاس اینجلس پیسے کی چنگاری میں جھلس اٹھا

قدرت کا قہر پوری دنیامیں کسی نہ کسی طرح ظاہر ہو رہاہے۔ ہر رنگ ، نسل مذہب اس سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں قدرتی آفات نے گزشتہ کچھ دہائیوں سے عوام کو چیلنج دیا ہے وہیں اب امریکا بھی تاریخ کی بدترین پکڑ میں آ گیا ہے۔ امریکی ریاست لاس اینجلس کے جنگلات میں دو مقامات پر لگنے والی آگ پھیلنے سے کم از کم 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔۔۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اعلان کیا ہے کہ وہ لاس اینجلس میں مدد کے لیے کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کے مزید ایک ہزار اہلکاروں کو تعینات کر رہے ہیں۔۔۔انہوں نے کہا کہ اب تقریباً 2500 فوجی متحرک ہیں، جو آگ سے تباہ ہونے والے علاقوں کے لوگوں کو محفوظ رکھنے میں مدد جاری رکھیں گے۔۔۔ آگ کے پھیلاؤ سے متعلق ریڈ فلیگ وارننگ بدھ تک نافذ رہے گی جس کے تحت شمال اور شمال مشرق میں 35 سے 55 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔ تیزہواؤں کی وجہ سے ایل اے کاؤنٹی کا پورا علاقہ آگ کے خطرے میں پڑ جائے گا عملے کے ارکان اب بھی پالیساڈیز کی آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پالیسڈس نامی مقام پر 20 ہزار سے زیادہ ایکڑ کا رقبہ آگ کی زد میں ہے۔ آگ پر قابو پانے میں فائر فائٹرز کو کچھ پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔یہ آگ مشرقی حصے میں پھیل رہی ہے جس کے پیش نظر برینٹ ووڈ نامی علاقے کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ اب آگ کے شعلے کم ہو گئے ہیں، لیکن خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ زمین پر آگ کی موجودگی کی نشاندہی کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔اسی دوران پولیس کا کہنا ہے کہ افسران لوگوں کے محفوظ انخلا، ٹریفک کنٹرول اور لوٹ مار کی روک تھام میں مدد کر رہے ہیں۔ پولیس نے لوٹ مار کے واقعات میں 20 سے زیادہ افراد کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے۔ ایک واقعے میں دو افراد کو فائر فائٹر کا روپ دھار کر گھروں میں داخل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ امریکی حکام نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور یہ کہ خطرہ ختم نہیں ہوا ہے۔فی الحال شہر میں چار مقامات پر آگ پھیل رہی ہے جسے بجھانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ یہ شہر کی تاریخ کا سب سے تباہ کن اور نقصان دہ آتشزدگی کا واقعہ ثابت ہوا ہے۔لاس اینجلس میں کتوں اور امدادی عملے کی مدد سے ملبے تلے دبے لوگوں کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشن میں تیزی کا بھی پلان ہے۔خیال ہے کہ 35 ہزار گھروں اور کاروباروں کی بجلی منقطع ہے۔۔۔ ماہرین کی رائے ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے حالات بدلے ہیں اور آگ لگنے کے امکان میں اضافہ ہوا ہے۔لاس اینجلس کے شیرف رابرٹ لونا کا کہنا ہے کہ تفتیش کار ممکنہ وجوہات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔امریکہ میں آسمانی بجلی گِرنا آگ لگنے کی سب سے عام وجہ ہے تاہم متاثرہ علاقوں میں یہ نہیں ہوا۔ جبکہ اب تک آتشزنی کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ماہرین کو خدشہ ہے کہ تیز ہواؤں کے سلسلے سے آگ پھیلنے کی رفتار بڑھ سکتی ہے۔ایل اے کاؤنٹی فائر چیف انتھونی میرون کا کہنا ہے کہ تیز ہواؤں اور کم نمی کے باعث آگ کا خطرہ ’بہت زیادہ ہے۔‘ان تمام حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی قومیں تمام تر وسائل کے باوجود قدرتی آفات کے آگے کیوں سر خم کر رہی ہیں؟ جی ایٹ ممالک کے اجلاسوں سے لے کر اقوام متحدہ کے سیشنز تک سب کچھ بے سود دکھائی دے رہاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مرتبہ پھر بڑی قومیں جنگوں اور لڑائیوں سے باہر نکل کر اصل مسئلے کی طرف آئیں اور سوچیں کہ حالات کس طرف جارہے ہیں۔ جو پیسہ دفاع پر خرچ کیا جا رہا ہے وہ ماحولیاتی تبدیلی کے لئے مختص کیا جائے۔ اسی طرح دنیا بھرمیں جہاں جہاں ممالک آمنے سامنے ہیں ، باہمی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آنے کی کوشش کریں اور سمجھیں کہ اصل مسئلہ لڑائی نہیں کچھ اور ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلاتی آگ کی وجہ سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لاس اینجلس جیسا مہنگا ترین شہر محض بہتر گھنٹوں میں جل کر کھنڈر بن جائے گا۔ امریکی میڈیا اب یہ کہنے پر مجبور ہے کہ یوں لگتا ہے کہ یہ شہر نہیں گھوسٹ ٹاؤن ہے جہاں آسیب اور موت کا پہرا ہے۔ جو پُرتعیش لگژری فارم ہاؤسز تھے اب وہاں کوئی پاس سے بھی گزرنے کی ہمت نہیں رکھ پا رہا۔ امدادی کاموں کا احوال تو آپ نے جان ہی لیا۔ یہ سب حالات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ امن کی طرف آنا ہوگا۔ بعض لوگ اسے خدائی غضب قرار دیتے ہوئے غزہ سے جوڑ رہے ہیں الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ اصل بات یہی ہے کہ دنیا کی بڑی قوتوں کو اب اپنی پالیسی بدلنا ہوگی ورنہ کہیں دیر نہ ہوئے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ لاس اینجلس کر رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

اس کا حل کیا ہے؟

’’ابھی میں کسی سے سن رہا تھا کہ کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے پتا نہیں کتنے ارب روپے میرے ذہن سے تعداد نکل گئی، نقصان ہوا۔ تو آپ مجھے بتائیے کہ فلسطین کے لیے اس طرح کی ہڑتال کرنے کا فائدہ کسے ہوا، کسی کو نہیں ہوا بلکہ آپ کو الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔‘‘

’’بالکل درست فرمایا، اس طرح تو بھئی! ہماری قوم ہی کا نقصان ہوا ہے، میں تو کہتی ہوں کہ اس سے بہتر یہ تھا کہ آپ کام کرتے اور ایک دن کی کمائی جو بھی بنتی وہ ان کو پہنچا دی جاتی تو کم ازکم ان کا بھلا تو ہوتا۔‘‘

’’میں کہتا ہوں کہ اگر ہم صرف یہاں چند ایک لائن کی دکانوں سے بھی جمع کرتے تو کم از کم پچیس لاکھ تو جمع ہو جاتے اور اس طرح صرف اس علاقے سے کم از کم ایک کروڑ اور تخمینہ لگائیں تو اور بھی بلکہ کروڑوں روپے جمع ہو سکتے تھے کم از کم ان فلسطینیوں کے لیے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں کچھ تو بھلا ہو سکتا تھا لیکن نہیں، الٹا اپنا نقصان کر دیا۔ یہ کام دراصل کسی اور کا ہے اور کر عوام رہے ہیں۔‘‘

’’ان کی پروڈکٹس خریدنا بند کردیں یہ تو کر سکتے ہیں بھئی۔‘‘

’’دیکھیں ان کی پروڈکٹس جو امپورٹ ہوتی ہیں وہ چلیں بائیکاٹ کی بات سمجھ آتی ہے، پر وہ جو کہتے ہیں ان کی یہ اشیا نہ کھاؤ، وہ نہ کھاؤ۔ تو ایک بات سمجھ لیں کہ یہ ان کی فرنچائز ہیں، یہ ان کی ملکیت نہیں ہے، یہ دراصل ان کی بنی بنائی مشہور پروڈکٹس کا نام جو آپ کے ملک میں خریدے گئے یہ آپ کے اپنے پاکستانی بھائیوں کی ہیں بلکہ پہلے تو ان فرنچائز میں چیزیں امپورٹ ہو کر آتی تھیں لیکن اب سب کچھ یہاں پاکستان میں بنتا ہے۔

وہ لوگ تو اپنا نام بیچتے ہیں کہ جی آپ یہاں کتنی فرنچائز کھول سکتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں تاثر یہ ہے کہ اس طرح ہم اسرائیل کو نقصان پہنچائیں گے، درحقیقت نقصان تو ہمارا بھی ہے ناں، یہاں ہمارے کتنے لوگ کام کرتے ہیں، وہاں نقصان تو ہمارا بھی ہوا ہے، لوگوں کی تنخواہیں کیسے نکالیں گے۔۔۔ ان کا کیا فائدہ؟‘‘

’’نہیں، نقصان تو ہو سکتا ہے ناں، پیسے تو ان تک پہنچتے ہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ لوگ پھر کام ہی بند کردیں، اس طرح اسرائیل کو تو نقصان ہوا ناں۔‘‘

اسرائیل کی فلسطینی عوام پر دوبارہ بمباری نے دنیا کی آزمائش شروع کر دی ہے، کون کیا سوچتا ہے؟ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اور کس کے حق میں ہے۔ دو واضح پلیٹ فارم ہیں ایک مضبوط، بظاہر طاقتور اور اتحادیوں کے نرغے میں جب کہ دوسرا شکستہ، زبوں حال، خون سے رنگا۔ ایک ظالم ہے اور ایک مظلوم کہ آج کی دنیا لاکھوں سال پہلے پتھر کے دور میں پہنچ چکی ہے۔ ایسا وقت جب انسانوں کے دل بھی شاید پتھر کے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔

بڑے بڑے طاقتور اور انصاف کے علم بردار آج فرعون کے ساتھ ہیں۔ فرعون سے خوب یاد آیا کہ اس مغرور اور ظالم و جابر کی بھی بس ہوگئی تھی، اس کا وقت مقرر تھا اور اس مدت تک پہنچنے کے لیے تو تماشا خون و آگ کا تو ظالموں کے لیے چلتا ہی رہے گا۔

ادھر ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم سے ملنے کے پروگرام بناتے ہیں اور وہاں غزہ میں ان زخمیوں کے کیمپوں پر حملے کیے گئے جنھیں عارضی طور پر اسپتالوں کے باہر قائم کیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوجی دعوے کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتے ہیں لیکن منظر عام پر ان کی وحشت میں ڈوبی وڈیوز آ چکی ہیں جو مسلمانوں کی نفرت میں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ دیوانوں کی مانند مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہے تھے جب کہ وہ نہ صرف خیموں میں قائم عارضی کیمپوں پر بلکہ گھروں پر بھی حملے کر رہے ہیں۔

دو سو اکیاون اسرائیلی شہریوں کے عوض جو دہشت گردی اور بربریت کا بازار غزہ میں بپا کیا گیا ہے،کیا اسے انصاف کی عالمی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے،کیا نیتن یاہو کا مظلوم فلسطینیوں کی رضاکارانہ ہجرت کا پلان مکمل ہو سکتا ہے،کیا واقعی بچے کچھے فلسطینی دنیا کے دوسرے ممالک میں منتقل ہو جائیں گے؟

یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کی سنہری انبیا کی زمین پر قبضے کا خواب تو دیکھنے والے کب سے دیکھ رہے ہیں لیکن 19 جنوری کو طے کیا جانے والا جنگ بندی کا وہ معاہدہ جس کے ثالث امریکا، قطر اور مصر تھے گو اس کے مراحل تو تین تھے پر وہ سب تین تیرہ ہوکر رہ گئے۔

کیا جنگ بندی کے بعد تھکے ہارے اپنوں کے دکھوں میں کھوئے جنگ ختم کی فلم چلا دینے سے اصل مقصد کیا تھا؟ باقی ماندہ مظلوموں کو بھی ٹھکانے لگانا یا کچھ اور؟ یہ بھی تو کسی منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن اس پوری حقیقت کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ تو اسرائیل کی پارٹی کا مضبوط حصہ بن چکے ہیں۔

پھر دنیا کے ٹھیکے داران اب کیا کر سکتے ہیں، منصوبہ کیا ہے، اس کے اصل مقاصد سے کون کون واقف ہے، کون کون اس منصوبے کا حصہ ہے؟ وائرل وڈیوز میں مظلوموں پر ظلم کرنے والوں کی وردیوں پر اتحادیوں کے جھنڈوں کے نشانات واضح ہیں۔ ایک کھلا جرم جو سینہ تان کر کیا گیا۔ پاکستان ایٹمی طاقت کا مالک مختلف مسائل میں گھرا اپنوں سے ڈسا فلسطین کے مسئلے کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے یا آزمائش کے مراحل میں ہے۔ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ:

’’ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘

سورۃ الطور کی آیت نمبر اکیس میں یہی بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے اور النفس و آفاق کی آیات پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کو عقل دی گئی ہے لیکن وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا، رب العزت نے عمل اور سعی کو بہت اہمیت دی ہے۔

انسان کا عمل ہی اسے ترقی کی جانب لے جاتا ہے لیکن ہم تنزلی کی جانب جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس عقل و شعور تو ہے لیکن نفسانی خواہشات نے بحیثیت قوم ہمیں گھٹنوں پر بٹھا دیا ہے، ہمیں خوف ہے کہ اگر ہم کسی بھی سپر پاورکے خلاف ری ایکٹ کرتے ہیں تو پکڑے جائیں گے بالکل ایسا ہی دیگر مسلم طاقت بھی سوچ رہی ہیں۔

بہت ساری عداوتیں کمزوری کو جنم دیتی ہیں اور یہ کمزوری ہمارے تعصب، اقربا پروری اور نفس کی کمزوری جیسی بیماریاں ابھارتی ہے۔ امت مسلمہ ان بیماریوں میں ڈوب چکی ہے۔ ہماری تقدیر کا فیصلہ کاتب نے لکھ دیا ہے۔ جیت، ہار یا بے عزتی اور شرمندگی اب ہم کس جانب بہتے چلے جاتے ہیں کون جانے۔عالمی عدالت نے تو اسرائیل کو غیر قانونی ریاست قرار دے دیا ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں اسرائیل کو ایک خود مختار قوم کے طور پر تسلیم نہیں کرنا چاہیے لیکن اس عدالت کے فیصلے پر عمل ہو سکتا ہے یا نہیں یا یہ بھی جنگ بندی کے معاملے کی مانند اوپر سے میٹھا اور اندر سے کڑوا ہو، پر ہم اپنے رب پر یقین رکھتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں پیٹرولیم مصنوعات ساڑھے 8 روپے فی لیٹر تک سستی ہونے کا امکان
  • ملک میں پیٹرولیم مصنوعات ساڑھے 8 روپے فی لیٹر تک سستی ہونے کا امکان 
  • وزیراعظم کو پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کی تجویز بھیج دی گئی
  • کروڑوں روپے کا فراڈ، نادیہ حسین کا اہم انکشاف سامنے آگیا
  • پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ،آخرکار وہ خبر آہی گئی جس کاسب کوانتظار تھا
  • کراچی ’لبیک یا اقصیٰ، لبیک یا غزہ‘ کے نعروں سے گونج اٹھا، یکجہتی غزہ مارچ کی جھلکیاں 
  • ’پولیس کا کام پیسے پکڑنا ہی رہ گیا؟‘، شادی پر پیسوں کا تھال پکڑے پنجاب پولیس کے اہلکار کی ویڈیو وائرل
  • عوام کے لیےخوشخبری: پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں بڑی کمی کا امکان
  • تاجکستان زور دار زلزلے سے لرز اٹھا
  • اس کا حل کیا ہے؟