Nai Baat:
2025-01-18@10:13:50 GMT

’’اِن کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں‘‘

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

’’اِن کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں‘‘

ماں کے بارے میں میرے گزشتہ کالم نے نہ جانے کتنے دلوں کے تار چھیڑ دئیے۔ کتنوں کے زخموں کا موم ادھیڑ ڈالا۔ مجھے بے شمار فون آئے اور اَن گنت پیغامات۔ ان میں سے ہر ایک نے میرے کالم کے آئینے میں اپنی ماں کا چہرہ دیکھا۔ لاریب ساری دنیا کی مائیں ایک سی ہوتی ہیں لیکن ہر ایک کی ماں، صرف اس کی ماں ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی مائوں جیسی لیکن سب سے جدا، سب سے منفرد۔ ماں کے ذکر سے کہانیوں کی ایک طلسمِ ہوش رُبا کھلتی ہے تو کھُلتی ہی چلی جاتی ہے۔ میں نے کسی کالم میں ماں کی ایک انگوٹھی کا ذکر بھی کیا تھا جو وہ ہمیشہ اپنے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ساتھ والی انگلی میں پہنے رکھتی تھیں۔ جانے وہ تنگ دستی کی کون سی دہکتی دوپہر تھی جب ماں نے وہ انگوٹھی انگلی سے اتا کر مجھے دی اور کہا کہ اسے بیچ آئو۔ میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا لیکن وہ دوپٹہ اپنی آنکھوں پہ رکھے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ شاید یہ چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کی کتابوں یا فیس کا معاملہ ہو گا۔ میں بازار گیا تو اُس کی قیمت 25 روپے پڑی۔ دِل نہ مانا۔ جان پہچان والے ایک مردِ شریف سے 25 روپے ادھار لے کر ماں کو دے دئیے۔ برسوں بعد ماں کا انتقال ہوا تو وہ انگوٹھی اُن کی اُسی انگلی میں تھی۔ میرا بس چَلتا تو اُن کی تدفین بھی اس انگوٹھی کے ساتھ ہی کرتا لیکن یہ ممکن نہ ہوا۔ وہ انگوٹھی اب ہماری واحد بہن تسمیہ کے پاس ہے۔

سیلف میڈ (Self Made) اُن لوگوں کو کہا جاتا ہے جو منہ میں سونے یا چاندی کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتے۔ اُن کی پشت پر جاگیریں ہوتی ہیں نہ کارخانے، بڑے بڑے کاروبار ہوتے ہیں نہ سیم و زر اُگلنے والے عُہدے اور مناصب۔ وہ کسی پتھریلی زمین سے پھوٹ نکلنے والے پودے کی طرح ہوتے ہیں جس کی چھوٹی چھوٹی، نیم جاں سی جڑیں، مرطوب مٹی اور پانی سے بہت دیر تک محروم رہتی ہیں۔ پروان چڑھانے اور برگ و بار لانے والی مہربان ہوائیں اُن سے کترا کے گذر جاتی ہیں۔ میں ’’سیلف میڈ‘‘ کا ترجمہ ’’خودساز‘‘ کیا کرتا ہوں۔ لیکن میری زندگی کا تجربہ کہتا ہے کہ ’’خود ساز‘‘ بھی درحقیقت ’’خدا ساز‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اشفاق احمد نے، تیشہ فرہاد لے کر سنگلاخ پہاڑوں سے جوئے شیر بہا لانے والے ’’خود سازوں‘‘ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’تمنا کے بغیر کوئی پھول نہیں کھلتا‘‘ لیکن کسی کشت ویراں میں تمنا کا بیج بونے والا بھی تو کوئی ہے نا جو یہ بیج بوتا ہے اور پھر اُسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے کھُلا چھوڑ دیتا ہے۔
پرائمری سکول ٹیچر سے ایوان بالا کی رکنیت تک کے سفر پہ نگاہ ڈالتا ہوں تو ’’خود سازی‘‘ سے کہیں زیادہ ’’خدا سازی‘‘ پر ایمان پختہ تر ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود جب کبھی میرا تعارف ایک ’’سیلف میڈ‘‘ شخص کے طور پر ہوتا ہے تو دِل طمانیت سے بھر جاتا ہے۔ میں کوئی دو تین کلومیٹر پیدل چل کر لال کرتی کے پرائمری سکول پڑھانے آتا تھا۔ ڈیڑھ دو سال بعد جب نیا سائیکل خریدا تو اتنی بے پایاں خوشی ہوئی جو برسوں بعد کار خریدنے پر بھی نہ ہوئی۔ آج میں سینیٹ میں، خود کو ارب اور کھرب پَتی رفقا کے جلو میں دیکھتا ہوں تو لمحہ بھر کے لیے بھی دل میں کم مائیگی کی خلش کسمساتی ہے نہ احساس تفاخر پھن پھیلا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کم و بیش ہر روز، رات کتاب بند کر کے سونے کی کوشش کرتے ہوئے، جوں ہی بتی گل کرتا ہوں گئے زمانوں کا نگار خانہ کھل جاتا ہے۔ میں اور کچھ دیکھوں نہ دیکھوں، ایک نیم تاریک سی کوٹھڑی کے کونے میں پڑے زنگ آلود جستی صندوق کا ڈھکنا اٹھا کر ضرور دیکھتا ہوں جس میں میرے کتنے ہی بے آب و رنگ سے روز و شب، پھٹے پرانے میل خوردہ کپڑوں کی طرح ڈھیر ہوئے پڑے ہیں۔ ان میں کچھ پیوند لگے کرتے بھی ہیں جنہیں پہنتے ہوئے مجھے کبھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ عجیب بات ہے، میرا دل بھی ماں کے دل کی طرح خواہشوں اور آرزوئوں سے پاک ہو گیا تھا۔ پائوں کا پہناوا بدلنے کی نوبت اُس وقت آتی جب اس کے بخیے اڈھڑنے لگتے اور وہ چیتھڑا بن جانے کو ہوتا۔ میں جانتا تھا کہ میرے ماں باپ میری کسی خواہش کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ سو اُسے زبان پر لانے سے پہلے کسی مرگھٹ کی نذر کر دیتا تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں میزبان نے مجھ سے عہد جوانی کے بارے میں پوچھا تھا۔ میں نے اُسے بتایا … ’’بیٹا کون سا عہد جوانی؟ ہم جیسے لوگوں کا ایک بچپن ہوتا ہے جو غیر محسوس طریقے سے اُدھیڑ پن میں ضم ہو جاتا ہے۔ ہم بچے ہوتے ہیں یا اُدھیڑ عمر لوگ۔ ہم جیسوں پہ جوانی کی رُت آیا ہی نہیں کرتی۔ زندگی کے بکھیڑوں اور جھمیلوں سے کتراتی ہوئی کہیں دور نکل جاتی ہے۔ ’’سیلف میڈ‘‘ لوگ اُسے آنکھ بھر کر دیکھ بھی نہیں پاتے۔‘‘

والد فوت ہوئے تو مجھے راولپنڈی کے ایک نامور کالج میں پڑھاتے، گیارہ برس ہو چکے تھے۔ پَت جھڑ کی رُت زرد سوکھے پتوں کی گٹھڑی باندھے رُخصت ہو رہی تھی۔ عشرت تو نہ تھی مگر عُسرت کا عہد تمام ہو چکا تھا۔ والدہ اُن کے بعد بائیس برس تک زندہ رہیں۔ گلوں میں رنگ بھرنے لگا تھا اور باد نو بہار چلنے لگی تھی۔ طوفانوں کے طمانچے کھاتی کشتی ساحلوں سے ہم کنار نیلگوں ہموار پانیوں تک آ پہنچی تھی۔ ماں کامرانی کی آسودگی لیے رخصت ہوئیں۔

دل میں اکثر ایک آرزو نشتر کی طرح چبھتی رہتی ہے کہ کاش آج میرے والد اور میری ماں زندہ ہوتے۔ بلاشبہ عسرت و تنگ دستی کی نامرادیاں بہت پیچھے رہ گئی ہیں لیکن کاش یہ موسم دو تین دہائیاں پہلے آ گئے ہوتے؟ ’’سیلف میڈ‘‘ لوگوں کی زندگیوں میں آنے والے یہ موسم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں؟ امجد اسلام امجد کی نظم ہے ’’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘‘
روشنی مزاجوں کا
کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں
بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے
آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں
گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے
پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو
قتل کرتے جاتے ہیں
درگذر کے گلشن میں
اَبر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں
کشتیاں چلاتے ہیں
یہ نہیں کہ اُن کو اِس
روزوشب کی کاہَش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا
خون بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں
جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں
وقت پر نہیں آتیں
یعنی اُن کو محنت کا
اَجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی
قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہے
پَس نوشت ہو جائے
فصل گل کے آخر میں
پھول اِن کے کھِلتے ہیں
اِن کے صحن میں سورج
دیر سے نکلتے ہیں

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: نے والے جاتا ہے کی طرح

پڑھیں:

بی جے پی حکومت برقرار رکھنے کیلیے مسلم دشمنی کے ہتھکنڈے استعما ل کرتی ہے

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) بی جے پی اپنی حکومت کو برقرار رکھنے اور اپنے سیاسی عزائم کو ممکن بنانے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا تاکہ ہندو قوم پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے اپنی سیاست اور حکومت کو استحکام دے سکے۔ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہ بین القوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں اورسندھ ہائی کورٹ کی ممتاز وکیل ڈاکٹر عنبر مہرایڈووکیٹ نے جسارت کے سوال’’ بھارت میں بڑھتی ہو ئی مسلم دشمنی کے محرکات کیا ہیں‘‘؟میں کیا۔پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ بھارت میں اکثر اوقات فسادات اور جھڑپیں تشویش کا باعث ہیں‘ اس کی بنیادی وجہ حکمران جماعت بی جے پی اور ہندو قوم پرست ہیں‘ پچھلے دنوں ریاست ہریانہ میں قوم پرست ہندوؤں کے ایک گروپ نے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں مذہبی جلوس کے دوران فسادات کو بھڑکایا ‘اس تازہ واقعے میں نوح کے علاقے کا تشدد دیگر مختلف علاقوں تک پھیل گیا تھا، جہاں ایک ہندو ہجوم نے مسجد کو آگ لگا دی تھی اورامام مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ جبکہ دوسری طرف حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ جن املاک کو نقصان پہنچا ہے وہ غیر قانونی طور پر بنائے گئے مکانات تھے جن کا انہدام کیا گیاہے۔ عام طور پر بی جے پی حکومت میں اس طرح کا اقدام فسادات کے بعد
کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا جاسکے۔ انہدام کی جانے والی عمارتوں کی تعداد تقریباً 750 سے زائد ہو گئی تھی جس کے بعد ریاست کے ہائی کورٹ نے کارروائی روکنے کا حکم دیا۔ سخت گیر ہندو تنظیموں کی جانب سے بار بار ایسے واقعات دہرانے کا مطلب مسلمانوں کو اکسانا اور انہیں دہشت زدہ کرنا ہے۔ خاص طور پر جلوسوں میں ایسے نعروں کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔بی جے پی بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتی ہے جس میں ہندوؤں کو تمام حقوق حاصل ہوں اور اقلیت ان کے ماتحت ہو۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بی جے پی حکومت نے دیگر اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ منظم امتیازی سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کی ممتاز وکیل ڈاکٹر عنبر مہرایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر زمانہ ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو ”مغل بادشاہوں کی حکومت کو ہندو قوم پرست حلقے ”غاصبانہ” تصور کرتے ہیں”۔1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان جونفرت کا ایسابیج، بویا گیاو جو آج بھی بھارت میں بعض جگہوں پر برقرار ہے۔مسلمانوں کی یہ ذہنیت بن گئی ہے یا بنا دی گئی ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے۔ چونکہ بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا اس لیے جو مسلمان انڈیا میں رہ گئے ان میں یہ احساس اچھی طرح سے تھا کہ انھیں ہندوؤں کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ رہنا ہے۔اور اگر مسلمان اپنی آبادی کے گمان پر ایک اور مسلم پارٹی بناتے ہیں تو اس کا حشر پھر سے ایک اور پاکستان ہو سکتا۔اسی لیے مسلمانوں کے سرکردہ رہنما اور مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کو بھی ملک بھر کے مسلمانوں کی جانب سے حمایت حاصل نہیںہے۔ بھارتی مسلم نے بھارت کی ترقی وتعمیر اوربھلائی کے لیے مختلف پارٹیوں”جنتادل ”،لالو پرشاد کی پارٹی،کانگریس پارٹی،مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کا ساتھ دیالیکن وہ اپنی ذات برادری کے لیے سیاست کرتے رہے اور مسلم پر مذہب کی چھاپ گہری ہوتی گئی،اور آج مودی جیسا لیڈر ہی ان کا مخالف ہے۔ کیونکہ بڑی وجہ ہندو قوم پرستی پر مبینہ نظریہ، جس کی قیادت آر ایس ایس اور نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کرتی ہیں،وہ بھارت کو ایک ”ہندو ریاست” بنانے پر زور دیتی ہے۔ اس نظریے کے تحت مسلمانوں کو ”غیرمکی” یا ”دوسرے درجے کے شہری” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کا جینا دشوار ہے۔خاص طور پر دیہاتی پسماندہ علاقوں میں حالات بہت کشیدہ ہیں۔بھارت کے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں، جس سے امتیاز اور تعصب میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کے خلاف منفی تصورات کو بڑھایا دیا جاتا ہے۔ تین طلاق، حجاب، اور دیگر مسائل کو اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلم کمیونٹی کو بدنام کیا جاسکے۔ مسلم کی علیحدہ ثقافتی اور مذہبی شناخت کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نفسیاتی طور پر ہندوؤں کو ڈرانا کہ مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ مستقبل میں”ہندو اکثری” کو اقلیت میں بدل دیں گے۔ جس سے ان میں قوم پرستی کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ”ریڈیکل اسلام” کے نمائندہ کے طور پر پیش کرکے خوف کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا چینلز میں مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں، دہشت گردی، غداری، یا ملکی سلامتی کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنا عام ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی نفرت انگیز مواد کی بھرمار ہے، جو مسلم دشمنی کو ہوا دیتا ہیں یہاں تک کہ ان کے تعلیمی نظام میں تاریخ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو ”غاصب” اور”ظالم” کے بتایا جاتا ہے جس سے بچپن ہی سے ہندوؤں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے لیے نفرت جیسا جذبہ فروغ پاتا چلا جاتا ہے۔ اور بچے اپنے ہم جماعت مسلمان کو ”نالی کا کیڑا” یاگائے کے گوشت کو کاروبار کے حوالے سے تاجر حضرات کو تشددکا نشانہ بنانا، بابری مسجدکی جگہ مندر ہونے کا دعوی دائر کرنا، مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر سے منسوب سنبھل کی جامع مسجدکے نیچے مندر، بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے ساتھ ساتھ اجمیر کی درگاہ پر بھی مندر ہونے کا دعوی کرنا، اور تو اور ریاست اتر پردیش کے شہر مراد آباد میں مسلمان ڈاکٹر میاں بیوی کا ہندو ہمسائیوں کے احتجاج کے باعث اپنا مکان بیچنا، مسلمانوں کو قتل کرتے وقت وڈیو بنانا اور وائرل کرنا بھارتیوں کی مسلمانوں سے شدید نفرت کی واضح مثالیں ہیں۔ فرقہ ورانہ فسادات میں بھارتی پولیس اکثرمسلم مخالف رویہ اختیار کرتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا اثر بھارتی مسلمانوں پر بھی پڑتا ہے، اور انہیں اکثر ”پاکستانی” یا ”غدار” کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے مربوط اقدامات اور تمام سماجی، سیاسی، اور تعلیمی سطحوں پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر عوامی شعور، قانون کی حکمرانی، اور بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کیا جائے تو اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • معاشی کامیابیاں اور کچھ رکاوٹیں
  • جیل میں ایک وقت کا کھانا دیا جاتا تھا، اچھی بات ہے میرا وزن کم ہوگیا، مریم نواز
  • بی جے پی حکومت برقرار رکھنے کیلیے مسلم دشمنی کے ہتھکنڈے استعما ل کرتی ہے
  • کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
  • فی الحال بحران کا نتیجہ نکلتے دکھائی نہیں دے رہا: شیخ رشید
  • فی الحال بحران کا نتیجہ نکلتے دکھائی نہیں دے رہا، شیخ رشید احمد
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کو 14 سال قید ہو سکتی ہے : فیصل واوڈا 
  • خدا کا عذاب
  • پاکستان کبھی باضابطہ اتحادی نہیں رہا،لیکن ایک مضبوط شراکت دار ہے،امریکا
  • پاکستان کبھی باضابطہ اتحادی نہیں رہا لیکن ایک مضبوط شراکت دار ہے؛ وائٹ ہاؤس