شاید افغانوں میں ہی کوئی خامی ہے
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
وزارت خارجہ کی غلام گردشوں کا تو نہیں معلوم البتہ کچھ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ضرور کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ کیا ماضی قریب کے ’اچھے افغان طالبان‘ اب ’برے انڈیا‘ کی گود میں جا رہے ہیں؟
جب گزشتہ نومبر میں بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری برائے مغربی ایشیا جے پی سنگھ کی کابل میں وزیر دفاع ملا یعقوب سے ملاقات ہوئی تب پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ حالانکہ اس ملاقات سے بہت پہلے سے طالبان انتظامیہ اور نئی دلی کے درمیان برف پگھلنی شروع ہو گئی تھی۔ تب تک بھارت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈیڑھ ملین کوویڈ ویکسینز، 300 ٹن ادویات، 40 ہزار لیٹر کیڑے مار زرعی کیمیکلز، 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور سردی سے بچاؤ کے کپڑوں کی کئی کھیپیں کابل بھیج چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خوشی خوشی کون زمین چھوڑتا ہے؟
جے پی سنگھ اور ملا یعقوب کی ملاقات سے بہت پہلے نومبر سنہ 2023 میں بھارت نے دلی میں قائم افغان سفارتخانے کے عملے کے سفارتی ویزوں میں توسیع سے انکار کر دیا کیونکہ سفیر سمیت بیشتر عملہ سابق اشرف غنی حکومت کے دور سے تعینات تھا اور بھارت نے طالبان انتظامیہ کو سفارتی درجہ نہیں دیا تھا۔
بھارت اب بھی افغان انتظامیہ کو مکمل سفارتی درجہ نہیں دیتا مگر روس، چین اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کی طرح کابل میں بھارتی سفارت خانہ بھی بغیر کسی رسمی سفیر کی تعیناتی کے کھلا ہوا ہے۔ جبکہ ممبئی کے افغان قونصل خانے میں طالبان انتظامیہ کے نامزد کردہ اکرام الدین کامل بطور قائم مقام قونصل جنرل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مگر ہم نے ان خبروں کا شاید ہی نوٹس لیا ہو۔
البتہ گزشتہ بدھ کو دبئی میں بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات پر ہماری تیوری پر بل پڑنا لازم تھا کیونکہ بی بی سی اور الجزیرہ نے بھی اس ملاقات کو یوں اہم پیش رفت قرار دیا کہ اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ بھارت اور طالبان کا سب سے کھلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔
اس ملاقات کی جو تفصیلات کابل اور دلی سے بیک وقت جاری ہوئیں ان کے مطابق بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان کو تجارت کی پیش کش کی۔ یعنی پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک عملی متبادل پیش کیا۔ اس کے علاوہ صحت اور کھیلوں (کرکٹ) کے شعبے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ بھارت میں مقیم لگ بھگ 38 ہزار افغان پناہ گزینوں کی گھر واپسی کے لیے سہولتوں میں اضافے کی یقین دہانی کروائی۔
مزید پڑھیے: انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا کیا کریں؟
بدلے میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے وعدہ کیا کہ افغان سرزمین کو بھارت مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(یہ یقین دہانی اس لیے اہم ہے کیونکہ طالبان کی سنہ 1996 تا سنہ 2000 حکومت پر بھارت الزام لگاتا تھا کہ افغان سرزمین کشمیری علیحدگی پسندوں اور القاعدہ سے جڑے کچھ بھارتی باشندوں کی تربیت کے لیے استعمال ہوتی ہے)۔
سوال یہ ہے کہ وہ بھارت جس نے طالبان کی پہلی حکومت کے مخالف شمالی اتحاد کی حمایت آخری وقت تک ترک نہیں کی۔ اکتوبر 2001 میں کابل پر امریکی بموں کے سائے میں طالبان حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کرنے والے اولین ممالک میں بھارت بھی شامل تھا۔
بھارت نے دہلی یونیورسٹی کے گریجویٹ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ حکومت کی بھرپور امداد کا دروازہ کھولا۔ بعد ازاں اشرف غنی حکومت سے بھی تعاون میں کمی نہیں آئی۔ بھارت نے سنہ 2001 سے سنہ 2021 تک افغانستان میں طبی مراکز، ہائی ویز اور ڈیمز کی تعمیر پر تقریباً 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور کابل میں نیا پارلیمنٹ ہاؤس بطور تحفہ تعمیر کر کے دیا۔
بھارت طالبان اور امریکا کے درمیان دوحا مذاکرات سے بھی کبھی خوش نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں دسمبر 1999 کی قندہار ہائی جیکنگ اور سال 2008 میں کابل میں اپنے سفارتخانے پر خودکش حملے کے نتیجے میں 58 ہلاکتوں کی یاد بھی تازہ تھی۔ اگست 2021 میں کابل سے بھارتی سفارتی عملے کو جس طرح ایئر لفٹ کر کے نکالا گیا وہ بھی اس کے ذہن میں ہوگا۔
مزید پڑھیں: دراصل معذور کون ہے ؟
دوسری جانب یہی افغان طالبان اور ان سے پہلے بائیں بازو کی سوویت نواز افغان حکومتوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین پاکستان کو مصیبت میں کام آنے والا بڑا بھائی قرار دیتے رہے۔ وہ 40 لاکھ پناہ گزینوں کو برداشت کرنے کا شکریہ ادا کرنا بھی کبھی نہیں بھولے۔ پاکستان نے نجیب اللہ کی جگہ مجاہدین اور برہان الدین ربانی کی جگہ ملا عمر اور اشرف غنی کی جگہ ملا ہبت اللہ کے طالبان کو اقتدار دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور اب بھی لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔
مگر پھر ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ یہ ’احسان مند‘ بھی ظاہر شاہ، سردار داؤد، نور محمد ترہ کئی اور ببرک کارمل کی طرح پاکستان کی نیت پر کبھی 100 فیصد اعتماد نہیں کرتے۔ ملا عمر کی پہلی حکومت کو چھوڑ کے ہر افغان حکومت نے بھارت کو سرحد نہ ملنے کے باوجود جو عزت دی اس سے پاکستان جیسا محسن ہمیشہ محروم کیوں رہا؟
پاکستان کی افغان پالیسی کا اختتام ہمیشہ بطور بلیک کامیڈی ہی کیوں ہوتا رہا اور یہ پالیسی ہمیشہ ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘ پر ہی کیوں ختم ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس بابت کوئی بھی سوال پوچھنے پر بس اتنا ہی کیوں کہتی ہے کہ ’ڈونٹ وری، ایوری تھنگ ول بی اوکے‘۔
افغانستان کے 5 اور بھی ہمسائے ہیں ( ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، ایران، چین) ۔ ان ہمسائیوں کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو افغانوں کو شانت رکھتی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارا ہر ’نیاز مند‘ ہر پچھلی افغان حکومت کی طرح ہمارے ہی سامنے بھارت سے آنکھ مٹکا کرتا آیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ’ڈونٹ وری ایوری تھنگ ول بھی اوکے‘۔ پھر بھی جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اپنی ذہنی جامہ تلاشی ( سول سرچنگ ) میں کیا حرج ہے۔
یہ بھی پڑھیے: چین سے کچھ اقوالِ زریں بھی امپورٹ کر لیں
کوٹلیہ (چانکیا) کا نام تو سنا ہو گا۔ اور رموز مملکت پر آپ کے سینکڑوں اقوال میں ایک قول یہ بھی شامل ہے کہ ’ہمسائے سے زیادہ ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھو‘۔
کم ازکم چانکیا کو ہی پڑھ لیں۔ شاید کچھ افاقہ ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسعت اللہ خانوسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں
افغان طالبان پاکستان پاکستان طالبان تعلق چانکیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان طالبان پاکستان پاکستان طالبان تعلق چانکیا میں بھارت کابل میں بھارت نے میں کابل کے لیے
پڑھیں:
سویلینز کے ملٹری ٹرائل،’’آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق 9 مئی واقعات پر نہیں ہوسکتا‘‘جسٹس نعیم اختر افغان کے ریمارکس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق نو مئی کے واقعات پر نہیں ہوسکتا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی، بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی دلائل دیئے۔
تحریک انصاف نے حکومت کو اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کردیئے،اہم نقاط سامنے آ گئے
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے آج بھی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سیکشن 2 ڈی ون اگر درست قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہوگا؟قانون کے سیکشنز درست پائے تو یہ ٹرائل کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت تھیں، ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا، عدالت کو یہ ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا گیا، حکومتی وکیل کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔
آرمی چیف سے بیرسٹر گوہر کی ملاقات، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ساری کہانی سنا دی
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم اگست 2023 میں ہوئی تھی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق نو مئی کے واقعات پر نہیں ہوسکتا۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس بات سے متفق ہوں اطلاق ماضی سے نہیں ہوسکتا، اس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس عائشہ ملک کے نوٹ میں لکھا کہ کسی مجسٹریٹ نے فوج کو ملزمان کی حوالگی کی وجوہات پر مبنی حکم نامہ نہیں لکھا، اگر کوئی حکم نامہ ہے تو ریکارڈ پر لے آئیں، اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ حکم نامے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حصہ ہیں کل ان پر روشنی ڈالوں گا۔
این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے سندھ اور بین الاقوامی نمائندوں کا پی ڈی ایم اے ہیڈ آفس کا دورہ
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ایف آئی آرز میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں تھیں، 28 ملزمان کو سزائیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 3 اور 7 کے تحت ہوئیں، ترمیم سے پہلے والا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا تھا اس کا جائزہ لیں گے۔
مزید :