WE News:
2025-01-18@13:23:04 GMT

افغان عبوری حکومت کی بڑھتی مشکلات

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

افغان عبوری حکومت کی بڑھتی مشکلات

ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے تھے اور بتایا جانے لگا کہ اب افغانستان ایک پرامن اور پُرسکون ہمسایہ بنا رہے گا۔ ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ آپ کی خوشی کے دن کم ہی رہتے ہیں کیونکہ جب اشرف غنی اقتدار میں آیا تو پاکستان میں ان کی شرافت کے چرچے تھے، ان سے پہلے کرزئی کو شمالی اتحاد کے مقابلے میں بھرپور سپورٹ دی گئی۔

بہرحال طالبان کی حکومت میں آنے کے بعد یوں لگ رہا تھا کہ جیسے افغان عبوری حکومت کی وزارت خارجہ پاکستان میں واقع ہے۔ وزیراعظم پاکستان و وزیر خارجہ عالمی فورمز پر طالبان حکومت کی حمایت میں ایک طرح سے لابنگ کرتے رہے مگر ہمیشہ کی طرح ہماری پالیسی ڈرامائی انداز میں بدلی اور آج حالت یہ ہے کہ افغانستان میں دوبارا تبدیلی کے لیے رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے جوکہ افسوسناک ہے۔ افسوسناک اس لیے ہے کہ ہمیں کب دوست ملیں گے کہ جن سے ہم مطمئن ہوں؟

اس وقت حالانکہ یوں محسوس ہورہا ہے کہ افغان عبوری حکومت کے ذمہ دار جس طرح کی گورننس دے رہے ہیں ان کے ہوتے ہوئے طالبان حکومت کے خلاف کسی سازش کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے سے افغان عبوری حکومت افغانوں کی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے اور ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی حکومت مستحکم نہیں رہ سکتی جن کے پاس عوامی حمایت نہیں بچتی۔

حالانکہ اس حوالے سے 3سالوں سے پر امید ہیں کہ حکومت میں اندرونی طور پر خواتین کی تعلیم کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں اس کا کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے گا لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ افغان طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ صاحب کو خواتین کی تعلیم گناہ عظیم لگتی ہے۔

گناہ سے یاد آیا کہ امریکی کانگریس مین ٹم برچٹ نے نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ سے درخواست کی ہے کہ وہ ہر ہفتے افغانستان کو دی جانے والی 40میلین ڈالر دینے پر پابندی لگائیں۔ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس حوالے سے کہا کہ یہ بات ان کے لیے حیران کن ہے۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو میلین نہیں بیلین ڈالرز دیے گئے ہیں۔

افغان عبوری حکومت کے عہدیدار حمد اللہ فطرت نے امریکی امداد کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے افغانوں کے اربوں ڈالر اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ یہ امداد افغان عبوری حکومت کے حوالے نہیں کررہی بلکہ غیر سرکاری اداروں کو دے رہی ہے البتہ بائڈن ایڈمنسٹریشن امداد کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کی جو بعض مبصرین کے خیال میں چیزیں پوشیدہ رکھنے کی کوشش ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس امداد پر افغان عبوری حکومت اثر انداز ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے ہم سنتے ضرور آئے ہیں لیکن کبھی یقین نہیں کیا کیونکہ نہ تو کوئی ثبوت موجود تھا اور دوسری طرف ہم اس غلط فہمی کے بھی شکار تھے کہ افغان عبوری حکومت اس طرح براہِ راست امریکی مدد قبول نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے طالبان کا مکمل فلسفہ اور بیانیہ بیٹھ جاتا ہے لیکن اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہم غلط سوچ رہے تھے۔

ہمارے سوچنے سے کیا ہوتا ہے ہم تو یہ بھی عرض کرتے آئے ہیں کہ آج کی جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے طالبان حکومت کو خود میں جدت لانی پڑے گی کیونکہ عوام کو بھوک و افلاس سے بچانے کا صرف یہی طریقہ ہے مگر افغان عبوری حکومت سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ اگر امریکا سے اربوں ڈالر لینا غیر شرعی نہیں ہے تو خواتین کی تعلیم غیر شرعی کیسے ہوسکتی ہے؟

بہرحال یہ تو وہ سوالات ہیں جو ہماری خواہشات پر مبنی کہے جا سکتے ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ افغانستان کا استحکام اس پورے خطے کا استحکام ہے مگر اب جب صدر ٹرمپ اقتدار سنبھالے گا تو شاید ہمارا یہ خواب بس خواب ہی رہ جائے کیونکہ اگر وہ یہ امداد بند کردیتا ہے تو پہلے سے معاشی مشکلات کے شکار افغان مزید مشکلات کے شکار ہو جائیں گے۔

اس وقت ایران اور پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں اور دونوں ممالک کے ارادوں سے لگتا ہے کہ وہ مزید افغان مہاجرین کو اپنے ہاں رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ لاکھوں مہاجرین افغانستان واپسی کریں گے تو پھر افغان عبوری حکومت کے پاس اس کو سنبھالنے کے لیے کیا آپشنز رہیں گے؟ یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کے جوابات پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ملیں گے۔ پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کے حوالے سے لچک دکھاتی آئی ہیں لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخ کے انتہائی خراب موڑ پر ہیں۔

ہم جیسے عام لوگ دونوں اطراف کے حالات دیکھ کر بس پریشان ہی رہ سکتے ہیں مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اگر ان حالات میں سر جوڑ کر نہ سوچا گیا تو پہلے سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کو میچورٹی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ افغانستان کے آنے والے حالات پہلے سے زیادہ خطرناک ہوں گے جس کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا اور دوسری طرف افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کو آج کی جدید دنیا کے ساتھ ہاتھ ملاکر چلنے کی سوچ اپنانی پڑے گی کیونکہ اس وقت آپ کے پاس حکومت ہے اور آپ لوگوں پر ہی کروڑوں افغانوں کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شہریار محسود

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان عبوری حکومت کے خواتین کی تعلیم طالبان حکومت پاکستان میں ہے کہ افغان حوالے سے کے لیے

پڑھیں:

ملالہ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے

طالبان خواتین کو انسان نہیں سمجھتے۔ افغان حکومت کو قانونی حیثیت نہ دی جائے۔ ایک دہائی سے لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھا۔ یہ اپنے جرائم کو مذہب اورکلچر کے پیچھے چھپاتے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کا پورا تعلیمی نظام تباہ کردیا۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا بیانیہ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں تعلیمی کانفرنس میں خطاب اس خطے میں تعلیم کی زبوں حالی، افغانستان اور غزہ میں تعلیمی نظام کی تباہی کی حقیقی عکاسی کر رہا ہے۔

ملالہ نے اس کانفرنس میں بتایا کہ دنیا میں 12کروڑ اور پاکستان میں ایک کروڑ لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ ملالہ یوسف زئی 12جولائی 1997 کو خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقام سوات کے شہر مینگورہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ضیاء الدین یوسفزئی نوجوانی سے بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھے، یوں وہ لڑکیوں اور لڑکوں میں کوئی تفریق نہیں رکھتے تھے۔ ضیاء الدین یوسفزئی نے اپنی بڑی بیٹی کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔

انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سوات میں ایک اسکول بھی قائم کیا تھا، یوں ملالہ کو ابتدائی عمر سے تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوا۔ وہ ابھی سیکنڈری اسکول تک پہنچی تھی کہ ایک منظم منصوبے کے تحت سوات پر طالبان نے قبضہ کرلیا اور مولوی فضل اللہ نے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے رجعت پسندانہ پروپیگنڈہ شروع کیا۔ مولوی فضل اللہ عورتوں کی تعلیم کے مخالف تھے۔ وہ اپنی تقاریر میں خواتین کو گھروں میں مقید رکھنے اور مردوں کو رجعت پسندانہ نظریات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے تھے۔ طالبان نے پورے سوات میں اپنے قوانین نافذ کیے۔ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار کی سہولتوں سے محروم کردیا۔ طالبان جنگجو سوات میں شہروں میں چوک پر عدالتیں لگاتے ۔

جو شخص ان کے نظریے پر عمل پیرا نہیں ہوتا، اس کو کوڑوں کی سزاؤں کے علاوہ سزائے موت بھی دیتے۔ مولانا فضل اللہ اپنے ریڈیو پر اعلان کرتے تھے کہ آج ان مجرموں کو پھانسی دی جائے گی اور ان کے اس اعلان پر باقاعدہ عمل ہوتا تھا ۔ جب سوات کے شہروں اور دیہاتوں میں لوگ علی الصبح باہر نکلتے تو کھمبوں پر لٹکی لاشیں نظر آتی۔ طالبان نے اخبارات پر بھی پابندی لگائی اور جو رپورٹر دوسرے شہروں اور غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے کام کرتے تھے ان کے گرد گھیرا تنگ ہوا۔

جب پوری دنیا میں یہ خبریں عام ہوئیں کہ سوات اسلام آباد سے صرف 340 کلومیٹر دور ہے اور طالبان اسلام آباد کی طرف نظریں گاڑے ہوئے ہیں اور اسلام آباد اور راولپنڈی کی اعلیٰ قیادت میں اس امر پر اتفاق رائے ہوا کہ سوات کو طالبان سے خالی کرایا جائے۔ یوں اس سوات کو خالی کرانے کے لیے ایک محدود نوعیت کے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ اس آپریشن سے پہلے سوات میں آبادی کو جو لاکھوں افراد پر مشتمل ہے مردان اور دیگر میدانی علاقوں میں منتقل کیا گیا۔

ملالہ کا خاندان سوات چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ اس طرح ملالہ کی تعلیم میں رخنہ پیدا ہوا۔ ملالہ کو اپنے خاندان والوں کے ساتھ اپنا آبائی گھر چھوڑ کر مردان کے علاقے میں ایک کیمپ میں منتقل ہونا پڑا۔ ملالہ نے اس ساری صورتحال کو اپنی ڈائری میں لکھنا شروع کی۔ پشاور میں مقیم بی بی سی کے ایک نمایندہ کو خبر ہوئی کہ سوات کی ایک نوجوان دختر اردو میں اپنی ڈائری باقاعدہ لکھ رہی ہے جس میں تمام حالات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

بی بی سی کے اس نمایندہ نے ملالہ کے والد سے رابطہ کیا ۔ ملالہ کی ڈائری گل مکئی کے نام سے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر وائرل ہونے لگی۔ گل مکئی کی اس ڈائری میں طالبان کے مظالم کا بھی ذکر ہوتا تھا اور حکام کی نااہلی اور آپریشن کے دوران شہریوں کو درپیش مشکلات بھی تحریر کی جاتی تھیں مگر گل مکئی کی اس ڈائری نے پوری دنیا کے سامنے سوات کے حالات کو آشکار کردیا تھا، پھر سوات میں کسی حد تک امن قائم ہوا۔ مولوی فضل اللہ اور ان کے حواریوں کو افغانستان میں منتقل ہونے کا موقع دیا گیا۔

 اب سوات میں زندگی معمول پر آئی، خواتین کو تعلیم کا حق مل گیا۔ طالبات اپنے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے لگیں مگر طالبان نے ملالہ کو معاف نہ کیا۔ ملالہ اور ان کے اہلِ خانہ طالبان کے مذموم عزائم سے ناواقف تھے ۔ ملالہ کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کا جنون تھا، یوں ملالہ نے اسکول جانا شروع کیا۔ ملالہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ 9 اکتوبر 2012ء کو اسکول وین میں اسکول سے واپس آرہی تھی تو طالبان جنگجوؤں نے ملالہ پر حملہ کیا۔ ملالہ اس حملے میں شدید زخمی ہوئیں۔ حملے میں ان کی ساتھی بھی زخمی ہوئیں۔ ملالہ پر قاتلانہ حملہ کی خبر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

اس وقت پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے، یوں حکومت کی ہدایت پر ملالہ کو ہیلی کاپٹر میں پشاور منتقل کیا گیا مگر ملالہ شدید زخمی ہوگئی تھیں تو ان کو علاج کے لیے خصوصی طیارے میں برطانیہ منتقل کیا گیا۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا ارتقاء پذیر تھا اور رجعت پسند عناصر روایتی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کو بھی اپنے مقاصد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کرتے تھے۔ ان رجعت پسند عناصر نے ملالہ کے خلاف مہم شروع کردی ۔

ملالہ کے خلاف منظم انداز میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ رجعت پسند طالبان کے حامیوں نے یہ بیانیہ اختیار کیا کہ ملالہ پرکوئی حملہ ہوا ہی نہیں، نہ ہی اسلحہ کا استعمال ہوا۔ کئی نام نہاد استاد اور ماہرین نے ملالہ کی زخمی حالت میں کھینچی جانے والی تصاویر سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملالہ پر حملہ ہوا ہی نہیں۔ یہ پروپیگنڈہ اتنا منظم تھا کہ صرف عام آدمی ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جن میں یونیورسٹیوں کے پروفیسر، صحافی اور ڈاکٹرز بھی شامل تھے سبھی متاثر ہوئے مگر برطانوی ڈاکٹروں کی کوششوں سے ملالہ کی جان بچ گئی۔

اس وقت کے برطانیہ کے وزیر اعظم نے ملالہ کا نام نوبل انعام کے لیے پیش کیا۔ سویڈن کی نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی نے تیسری دنیا کی ایک لڑکی کی تعلیم کے لیے قربانی کی اہمیت کو تسلیم کیا اور ملالہ اس نوبل انعام کی مستحق قرار پائیں۔ ملالہ سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کو فرانس کا نوبل پرائز دیا گیا تھا۔

ملالہ کی اس کامیابی پر پڑوسی ممالک میں خوشی کا اظہارکیا گیا مگر ملک میں رجعت پسند قوتیں اتنی مضبوط تھیں کہ کسی یونیورسٹی،کالج یا اسکول میں ملالہ کو نوبل پرائز ملنے کی خوشی میں تقریب نہ ہوسکی مگر صدر اور وزیر اعظم نے ملالہ کو نوبل انعام ملنے پر ضرور مبارکباد دی۔ ملالہ نے اضافی رقم سے ایک انڈوومنٹ فنڈ قائم کیا اور یہ انڈوومنٹ فنڈ پاکستان کے علاوہ غزہ اور دوسرے ممالک میں تعلیم کے لیے وقف کردیا گیا۔

کابل حکومت نے تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان میں دہشت گردی کا موقع دیا۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختون خوا کے سابقہ قبائلی علاقے میں ٹی ٹی پی کے جنگجو روز معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملالہ کے خلاف ہونے والا پروپیگنڈہ جھوٹا ثابت ہوا۔ ملالہ نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شام میں کیے گئے جرائم، بین الاقوامی عدالت کا وفد دمشق میں
  • ملالہ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے
  • حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پوری کرتے ہوئے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے گوادر بندرگاہ کی بینک گارنٹی واپس لینے کی منظوری دی
  • حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کردی،گوادر بندر گارہ کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو حاصل بینک گارنٹی واپس لینے کی منظوری دے دی گئی
  • چین میں مسلسل 3 سالوں سے شرح پیدائش میں کمی
  • سرکاری ملازمین کی تقسیم اور انکی مالی مشکلات
  • مشکلات حل ہونے میں تھوڑا سا وقت لگتا ہے، علی محمد خان
  • چیمپئنز ٹرافی میں پاک بھارت میچ، محمد عامر کا بڑا اعلان
  • سویلینز کے ملٹری ٹرائل،’’آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق 9 مئی واقعات پر نہیں ہوسکتا‘‘جسٹس نعیم اختر افغان کے ریمارکس
  • بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کو اسلام قبول کرنے کے بعد کیا مشکلات پیش آئیں؟ سب بتا دیا