ہمارے سماجی و معاشرتی المیے
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
شیطان روزآنہ اپنے چیلوں (شاگردوں) سے دن بھر کی کارکردگی کی رپورٹ لیتا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے آج ایک قتل کروا دیا، دوسرا کہتا ہے میں نے دو نوجوان لڑکے اور لڑکی کو بہکایا اور وہ زنا کے مرتکب ہوگئے، ایک کہتا ہے میں نے آج ایک پکے نمازی کی نماز فجر قضا کروادی اس طرح اور دیگر اپنی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں ایک شیطان کہتا ہے کہ میں نے آج ایک میاں بیوی کے بیچ جدائی ڈلوادی شوہر نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو طلاق دے دی یہ رپورٹ سن کر بڑا شیطان اپنے اس شاگرد کو گلے لگالیتا ہے۔ اسلام میں یہ وہ جائز کام ہے جس کو آپؐ نے ناپسند فرمایا ہے۔ اور دیگر برائیاں اور گناہ کے کام تو اسلام میں تو ویسے ہی منع ہیں۔ لیکن شیطان کا اس عمل پر خوش ہونا اس لیے بنتا ہے کہ کسی معاشرے کی تباہی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ طلاق میں دو افراد ہی جدا نہیں ہوتے بلکہ دو خاندان ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ اور اگر ان کے بچے ہوں تو ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ عدالتوں کی سیڑھیوں پر ایسے بچوں اور ان کی مائوں کے رونے کی چیخیں در ودیوار کو ہلا دیتی ہیں جب کسی بچے کے بارے میں یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اسے باپ کے حوالے کیا جائے۔ ہمارے ملک میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح بہت خوفناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ خواتین اس وقت طلاق یافتہ ہیں۔ لاہور کی فیملی کورٹس میں سال بھر کے دوران 13ہزار سے زائد گھرانے ٹوٹ چکے اور روزآنہ خلع کے 40 سے زائد مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔
ایک لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر آتی ہے تو اس کی پہلے والی جیسی بات نہیں ہوتی۔ جس طرح کوئی شیشے کا برتن چٹخ جائے تو اسے احتیاط سے برتنا پڑتا ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسی بچیوں کے لیے ان کا میکہ بعض اوقات ان کی سسرال سے زیادہ خوفناک ہوجاتا ہے۔ وہی بہن بھائی جن سے شادی سے پہلے نوک جھونک ہوتی رہتی تھی اور ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی چلتی رہتی تھی لیکن کچھ دیر بعد سب نارمل ہوجاتا اور اب تو کوئی بات ہو تو دل کو بڑی ٹھیس لگتی ہے۔ ایک دفعہ مولانا طارق جمیل بتارہے تھے کہ ویسے تو بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنے بال بچوں پر خرچ کیا جائے۔ لیکن اگر گھر میں کوئی مطلقہ یا بیوہ لڑکی ہو تو اس پر خرچ کرنا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب کا کام ہے۔ ایک دفعہ ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ میں نے کہا مہنگائی، بیروزگاری، چوری و ڈکیتی، بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ، پانی کا بحران اور دیگر مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں یہ سب چیزیں اپنی جگہ تو ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ ان گھرانوں کا ہے جہاں گھر میں کوئی بیوہ یا مطلقہ لڑکی ہو اور پھر اسی سے جڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایسی بچیوں کے رشتے مشکل سے آتے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں کنواری لڑکیوں کے لیے مناسب رشتوں کا کال ہے نہ کہ بیوہ اور مطلقہ کے لیے کوئی ڈھنگ کا رشتہ آئے۔ چلیے بیوہ کو تو پھر کوئی مناسب بر مل جاتا ہے، اصل مسئلہ مطلقہ کا ہوتا ہے کہ اس کا رشتہ جب آتا ہے تو کئی سوالات اٹھتے ہیں، کیوں طلاق ہوئی کہیں لڑکی مزاج کی تیز تو نہیں ہے، کردار کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یعنی ساری خامیاں لڑکی ہی میں تلاش کی جاتی ہیں۔ نئی شادی شدہ خواتین کو سوچنا چاہیے کہ ہماری جو ارینج میرج ہوئی ہے تو والدین نے بہت کچھ دیکھ بھال کے اور اچھی طرح چھان پھٹک کرکے ہی ہاں کی ہوگی، اس لیے اب شادی کے بعد شوہر میں کچھ چیزیں آپ کے ذوق و مزاج کے خلاف ہوں تو بار بار یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پتا نہیں ہمارے ماں باپ نے کیا دیکھ کر شادی کی، بلکہ آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ رشتوں کے اس بحران میں آپ کو رشتہ مل گیا ورنہ اپنے خاندان میں یا اپنی ہی سہلیوں میں دیکھیں کئی ایسی لڑکیاں ہوں گی جو آپ سے عمر میں زیادہ ہوں گی اور گھروں میں بیٹھی ہیں اس سے احساس تشکر پیدا ہوتا ہے۔
ایک دفعہ نبی اکرمؐ جارہے تھے کہ راستے میں کچھ کچھ لڑکیاں ملیں آپؐ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے عورتوں! تم اپنے ماں باپ کے گھروں میں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہو پھر جب تمہیں رشتہ مل جاتا ہے اور تمہاری شادی ہوجاتی ہے تو تم اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔ ہمیں بہت کم ایسا دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر سے طلاق یا خلع حاصل کیا اور اسے دوسرا شوہر کوئی بہت اچھا مل گیا ہو، پھر ان کی قسمت میں یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی کی دوسری بیوی بن کے رہیں یا کسی اپنے سے زیادہ عمر والے کے ساتھ شادی ہوجائے۔ یہ ارینج میرج کی بات ہے لیکن جہاں پسند کی شادی کی جاتی ہے وہاں معاملات جلد ہی خراب ہوجاتے ہیں۔ آج کل تو لڑکی کے ماں باپ عموماً لڑکی کی پسند کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک سروے رپورٹ آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا جتنے گھر ٹوٹے ہیں یعنی میاں بیوی کے درمیان طلاق ہوئی ہے، تو اس میں زیادہ تعداد ان جوڑوں کی تھی جنہوں نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔ لیکن سو فی صد ایسا نہیں ہے اکثر پسند کی شادیاں عمر بھر چلتی ہیں اسی طرح یہ بھی نہیں ہے کہ ارینج میرج سو فی صد کامیاب ہی ہوں ان میں بھی علٰیحدگیاں ہوجاتی ہے لیکن اس کا تناسب کم ہوتا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے سانحے کی نوبت کیوں آتی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں پہلی بات تو یہ کہ صبر و برداشت کی کمی دونوں فریقین میں ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ میاں بیوی اگر خاندان سے الگ زندگی گزار رہے ہیں تو وہاں کم لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، لیکن جہاں مشترکہ خاندانی نظام ہوتا ہے وہاں جلد ہی اختلافات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ وہی خواتین جو چاند سی بہو ڈھونڈ کر لاتی ہیں اور وہ بہنیں جو اپنے بھائی کے لیے حور پری تلاش کرتی ہیں چاہے وہ خود کیسی ہی ہوں۔ شادی کے کچھ عرصے بعد یہی چاند سی بہو کلموہی ہوجاتی ہے اور بہنوں کی نظر میں حور پری ’’دور پرے‘‘ ہوجاتی ہے۔ اور دوسری طرف لڑکی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی ساس کا بڑی محبت و اخلاس سے استقبال کرتی ہے نندوں کو پیار سے گلے لگاتی ہے لیکن شادی کے کچھ عرصے بعد یہی ساس خناس بن جاتی ہے اور نند بہت بڑی گند ہوجاتی ہے۔ پہلے زمانے میں شادی سے پہلے لڑکیوں کو یہ بتایا جاتا تھا کہ دیکھو بیٹا ایک چپ ہزار بلائوں کو ٹالتی ہے۔ فرماں برادر بچیاں اسی نصیحت پر عمل کرتی تھیں (جو کہ بہت مشکل کام ہے) تو ان کی پوری زندگی بغیر کسی بڑی لڑائی جھگڑے کے خیر و عافیت سے گزر جاتی تھی۔
ایک اہم وجہ جو میرے نزدیک سب سے پہلی وجہ ہے کہ ہم دین کی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں۔ اگر ہمارے دل میں خوف خدا ہے (زبانی نہیں عملاً) تو ہمیں خود اپنی خامیوں پر غور کرنا چاہیے لیکن یہاں تو ہم ایک دوسرے کی خامیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں ایک گھر کو بنانے میں زیادہ ذمے داری بیوی کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھنے کی کوشش کرے لیکن مردوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ جن والدین نے اپنی جگر کا ٹکڑا آپ کے حوالے کیا ہے آپ اس کی قدر کریں۔ خواتین کے ایک اجتماع میں ایک عالم دین تقریر کرتے ہوئے بتارہے تھے کہ ایک دفعہ سیدہ بی بی فاطمہ (یہ بھی ذہن میں رہے کہ بی بی فاطمہ کون ہیں جنت کی خواتین کی سردار اور افضل الانبیاء کی بیٹی) آپؐ کے پاس آئیں اور کہا کہ میری سیدنا علیؓ سے لڑائی ہوگئی میں ستر مرتبہ (کتنی مرتبہ ستر مرتبہ) انہیں منانے گئی وہ مان گئے اور اب ہمارا میل ہوگیا آپؐ نے فرمایا کہ اے فاطمہ اگر علی کی ناراضی کے دوران تمہارا انتقال ہوجاتا تو میں تمہاری نماز جنازہ نہیں پڑھاتا۔ ان ہی عالم صاحب نے دوسرا واقعہ بتایا کہ سیدہ خدیجہؓ بیوہ تھیں اور بڑے کاروبار کی مالک تھیں وہ آپؐ کا بہت خیال رکھتی تھیں اپنا سارا کاروبار آپؐ کے حوالے کردیا تھا وہ بڑی خدمت کرتی تھیں آپؐ جب گھر جاتے تو وہ کھانا لے کر آتیں ایک دفعہ وہ کھانا لارہی تھیں کہ اتنے میں حضرت جبرائیلؑ آگئے اور نبی کریم ؐ سے کہا کہ سیدہ خدیجہ آپؐ کے لیے کھانا لارہی ہیں آپؐ کی بڑی خدمت کرتی ہیں،آپؐ نے کہا ہاں وہ تو روز کھانا لاتی ہیں اور خدمت بھی کرتی ہیں پوچھا آپؑ کیسے آئے، حضرت جبرئیلؑ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدہ خدیجہ کو سلام بھیجا ہے میں وہ سلام لے کر آیا ہوں۔ پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ اے میری بہنوں شوہر غلطیاں کرتے ہیں آپ صبر کریں اللہ ان سے خود پوچھ لے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایک دفعہ ہوتا ہے کی شادی جاتی ہے ماں باپ نہیں ہے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
پی ایس ایل کی فریاد
’’میں ہوں پی ایس ایل نام تو سنا ہوگا‘‘ اگر آپ پاکستان، بھارت یا کسی بھی ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کرکٹ کے مداح موجود ہیں تو مجھے نہ پہچاننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ میں سے بہت سے لوگ اس وقت چند سال کے بچے ہوں گے جب انکل ذکا اشرف نے سوچا کہ ملک میں کوئی لیگ کرانی چاہیے۔
کیونکہ بھارت اپنی آئی پی ایل کے ذریعے غالب ہوتا جا رہا ہے، انھوں نے کروڑوں روپے خرچ کیے، لوگو بنوایا، باہر سے لوگ بھی بلائے پھر بھی منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا، یوں میری فائل ریکارڈ روم میں جمع ہو کر گرد میں چھپ گئی۔
پھر انکل نجم سیٹھی آئے، گوکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے انھوں نے چیئرمین کا لیبل خود پر نہیں لگوایا لیکن سب جانتے تھے کہ وہ چیئرمین شہریار خان انکل سے بھی زیادہ طاقتور تھے، ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کرکٹ کی کوئی سمجھ نہیں وہ کہاں کوئی لیگ کروا سکیں گے۔
لیکن انھوں نے سب کو غلط ثابت کر دکھایا، بورڈ کے لوگ بھی مخالفت کرتے رہے لیکن یہاں سیٹھی انکل سلمان خان بن گئے کہ ’’ایک بار میں نے کمٹمنٹ کرلی تو پھر اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا‘‘ ٹیمیں فروخت کرنے میں انھیں بہت زیادہ مشکلات ہوئیں لیکن ندیم عمر، رانا برادرز (عاطف و ثمین)،علی نقوی، جاوید آفریدی اور سلمان اقبال نے مجھ پر یقین کیا اور اپنا قیمتی وقت اور پیسہ لگا کر دنیا میں متعارف کرایا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ملک کے حالات ایسے نہ تھے کہ غیرملکی کرکٹرز کو یہاں مدعو کیا جا سکتا لہذا سیٹھی انکل نے دبئی میں مقابلوں کا انعقاد کرا دیا، ممکنہ مالی نقصان کی وجہ سے جو لوگ پہلے ہی سال مجھے دوبارہ فائلز کی زینت بنوانے کا خواب دیکھ رہے تھے انھیں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ میری وجہ سے بورڈ کو آمدنی ہوئی، فرنچائزز کو بھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور ملی۔
اگلے سال فائنل لاہور میں ہوا جس میں ندیم انکل اور جاوید انکل کا بھی بڑا کردار تھا جنھوں نے اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان آنے پر قائل کیا، آپ کو شاید میرے حوالے سے ’’اپنے منہ میاں مٹھو‘‘ بننے والی فیلنگ آئے لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس لانے میں میرا بڑا کردار ہے، اسی وجہ سے کھلاڑیوں کا خوف ختم ہوا اور وہ لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کو بھلا کر دوبارہ پاکستان آنے لگے۔
اب وہ وقت آ چکا جب پاکستان نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبان کا اعزاز پایا اور ان دنوں ویمنز ورلڈکپ کوالیفائر جاری ہے، میری وجہ سے ہی ملک کو نیا ٹیلنٹ بھی ملا، زیادہ دور کیوں جائیں آپ بنگلہ دیش یا سری لنکا میں دیکھ لیں وہاں کی لیگز کا کیا حال ہے۔
انگلینڈ جیسا ملک دی ہنڈرز کو اسٹیبلش نہیں کر سکا، میں نے خود کو کبھی آئی پی ایل جیسا ہونے کا دعویٰ تو نہیں کیا لیکن آپ کم بھی نہ سمجھیں، مجھ سے پہلے پی سی بی کا انحصار صرف آئی سی سی سے ملنے والی سالانہ رقم سے ہوتا تھا، براڈ کاسٹ رائٹس وغیرہ سے بھی اخراجات میں آسانی ہوتی تھی لیکن میری وجہ سے اب اسے دنیا کے چند امیربورڈز میں شمار کیا جا رہا ہے۔
اب آئی سی سی کے بعد آمدنی کا بڑا ذریعہ میں ہوں، ماں باپ اس اولاد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو گھر چلاتی ہے لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہے، چند برسوں سے میں نے خود کو تنہا محسوس کیا، میرے وہ انکلز جنھیں میں نے سیلیبریٹی بنوایا آج وہ مجھے خوش نظر نہیں آتے تو افسوس سا ہوتا ہے۔
پھل دینے والے درخت کو کیا کوئی کاٹتا ہے؟ مگر مجھے نجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ اپنے ہی میری جڑیں کاٹنے میں لگے ہیں، دنیا میرے گن گاتی ہیں لیکن کچھ اپنے ہی مجھ میں خامیاں تلاش کرنے میں مگن ہیں، کیا وہ ایسا کر کے کچھ فائدہ حاصل کر سکیں گے؟
طعنے سہہ کر اگر میری حالت خراب ہوئی تو پھر وہ کیا کریں گے؟ اگر میں آپ سے ملک کی چند بڑی کمپنیز کے مالکان کے نام پوچھوں تو شاید آپ نہ بتا سکیں لیکن پی ایس ایل فرنچائز مالکان کے نام بچے بچے کو پتا ہیں،5 انکلز جب تک رہے مسئلہ نہ تھا، اصل قربانی انھوں نے ہی دی کیونکہ اس وقت کسی کو نہیں پتا تھا کہ فائدہ ہوگا بھی یا نہیں لیکن چھٹے کے آنے سے مسائل ہوئے۔
پہلے جو آئے انھوں نے خود کو دیوالیہ قرار دے کر جان چھڑا لی، پھر جو نئے آئے وہ اب تک نقصانات کا رونا رو رہے ہیں، حالانکہ کسی نے ان سے زبردستی تو نہیں کہا تھا کہ پی ایس ایل میں آئیں، اب بھی وہ چاہیں تو جا سکتے ہیں لیکن نہیں انھیں صرف مجھے ہی برا بھلا کہنا ہے، مجھے پتا ہے مسائل ہیں، ہر ٹیم کی الگ فیس مگر یکساں منافع، پر پیچئٹی رائٹس (دائمی ملکیت) نہ ملنا، لاہور قلندرز یا کوئی اور ٹیم اگر گراؤنڈ بھر لے تو بھی گیٹ منی سب میں یکساں تقسیم ہونا یہ سب بڑے مسائل ہیں جنھیں حل ہونا چاہیے۔
کیا کروں سیٹھی انکل اور ان کے ساتھ ایک صاحب ہوا کرتے تھے سلمان سرور بٹ یہ سب ان کا کیا دھرا ہے، انھیں ایسا ماڈل نہیں بنانا چاہیے تھا، اب ویلیویشن کے بعد فیس مزید بڑھ جائے گی، ملتان سلطانز ایک ارب 8کروڑ فیس دیتے ہیں، باقی اخراجات الگ ہیں۔
اسی لیے شاید اب مجھے برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکال رہے ہیں، اگر مجھ سے اتنی نفرت ہے تو چھوڑدیں، کئی اور لوگ ملکی کرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ آ جائیں گے، علی بھائی میٹنگ میں تو مائیک میوٹ کر کے بیٹھے رہتے تھے اب میڈیا پر باتیں کر رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں جتنی منفی باتیں کریں گے اتنی ہی ویڈیو وائرل ہوگی، آپ یوٹیوب پردیکھ لیں اچھی باتوں پر کتنے ویوز آتے ہیں،محسن نقوی انکل کو چاہیے کہ دیکھیں کون مجھے بدنام کر رہا ہے،اسے سمجھائیں اور اگر وہ نہ مانے تو کہیں اتنا دکھ ہے تو جاؤ ہم کسی اورکو لے آئیں گے۔
سلمان نصیر انکل نے میری دیکھ بھال اچھے انداز میں شروع تو کی ہے لیکن سب کام وہ اکیلے نہیں کر سکتے، ان کو ٹیم بنانی چاہیے،آئی پی ایل کے مقابلے میں پی ایس ایل کی مسابقتی کرکٹ کی سب بناتیں کرتے ہیں تو مجھے مل کر اور بڑا کیوں نہیں بناتے، آپ جتنا میرا خیال رکھیں گے اتنا ہی فائدہ ہوگا۔
اگر مجھے بھی بنگلہ دیشی لیگ جیسا بنانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے جو کرنا ہے وہ کریں لیکن مجھے یقین ہے آپ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا، لہذا نہ صرف مجھے بلکہ پاکستانی کرکٹ کو بھی مضبوط بنائیں، مجھے یقین ہے آپ سب ایسا ہی کریں گے، کیوں انکلز۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)