زکربرگ کا یوٹرن اوربرطانوی مسلمان ایلون مسک کے نشانے پر
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسماعیل صدیقی
مارک زکر برگ مشور پوڈ کاسٹر جو روگن کی پوڈ کاسٹ میں جلوہ افروز ہوئے۔ دو گھنٹے سے زائد یہ طویل انٹرویو ایک ’’وعدہ معاف گواہ‘‘ کی عدالت میں حاضری تھی۔ دو تین دن پہلے وہ فیس بک اور انسٹا گرام کی سنسر پالیسی کے حوالے سے مکمل تبدیلیوں کا عندیہ دے چکے ہیں اور ’’فیکٹ چیکرز‘‘ کو اپنے پلیٹ فارم سے فارغ کررہے ہیں۔ جو روگن ایک مشہور ترین پوڈکاسٹر ہیں جنہوں نے موجودہ الیکشن میں ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کی فتح میں اس کی پوڈ کاسٹ میں ٹرمپ کی شمولیت نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔
مارک زکربرگ نے کھلے الفاظ میں بتایا کہ بائیڈن دور میں ان پر حکومت کی طرف سے کچھ مخصوص موضوعات پر سنسر کا دباؤ تھا جس پر عملدرآمد کرنے پر ان کو ندامت ہے۔ خصوصی طور پر 2020 میں ایف بی آئی نے جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے لیپ ٹاپ سے ملنے والے مواد کو روس کی طرف سے پھیلائی جانے والی فیک نیوز کہہ کر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنے کی پابندی لگوادی تھی۔ بعد میں وہ اسٹوری حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ یہ اسٹوری 2020 کے الیکشن پر اثر انداز ہوسکتی تھی۔ دوسرے کووڈ کے موقع پر ڈبلیو ایچ او اور حکومت امریکا کی طرف سے لیے گئے اقدامات سے اختلاف کرنے والے جید ترین میڈیکل پروفیشنلز کی آواز تک کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ ان میڈیکل پروفیشنلز کی ویکسین اور لاک ڈاؤن کے مضمرات کے حوالے سے بات صحیح ثابت ہوئی۔ ٹرانس جینڈرزم بھی ایک ایسا موضوع تھا جس پر صرف دو جینڈر ہونے کی بات تک کرنا معتوب ٹھیرا۔ اس ماحول میں ایلون مسک نے ٹوئٹر خرید کر ان موضاعات کی حد تک ٹوئٹر کو آزاد کردیا اور فری اسپیچ کے چمپئن کے طور پر سامنے آئے۔ شروع شروع میں تو صہیونی تنظیم اے ڈی ایل کے میڈیا پر گرفت کے خلاف کچھ ٹوئٹ بھی کیے مگر پتا نہیں کیا مجبوری تھی (ایپسٹین کلائنٹ لسٹ؟؟) کہ نیتن یاہو کے در پر سر جھکا کے حاضری دی اور پھر ان کا پلیٹ فارم غلیظ ترین صہیونی پروپیگنڈے کا گڑھ بن گیا اور خود ان کے ذاتی اکائونٹ سے دن رات اسلاموفوبیا پر مبنی پوسٹ اور ری پوسٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب انہوں نے منفی جذبات پر مبنی پوسٹوں کو ’’ڈی بوسٹ‘‘ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ سنسر شپ کا پینڈولم ایک جگہ سے دوسری جگہ گھوم گیا ہے۔
ایلون مسک ایک انا پرست اور دوغلی شخصیت کے حامل ہیں اور ٹوئٹر کے بارے میں ان کے ارادوں کا اندازہ اسی وقت ہی ہوگیا تھا جب انہوں نے ورلڈ اکنامک فورم سے تعلق رکھنے والی لنڈا یاکرینو کو ٹوئٹر کا سی ای او بنایا تھا۔ رہی بات مارک زکر برگ کی تو انہوں نے ریس میں ہارنے والے گھوڑے پر جوا کھیلا تھا اور اب ان کی حیثیت ایک جنگی قیدی کی ہے جو آج جیلر جو روگن کی عدالت میں مجرم کی طرح پیش ہوئے۔ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کی دھمکی نے مارک زکربرگ کا رویہ تبدیل کیا ہے تو انہوں نے اس سے انکار نہیں کیا۔ لگتا یہی ہے کہ مارک زکربرگ کا انسٹا گرام اور فیس بک اب ایلون مسک کے ایکس کا منظر پیش کرے گا جہاں صہیونیوں کے خلاف بات کرنے پر تو اپ کو شیڈو بین کیا جائے گا مگر اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کی کھلی اجازت ہوگی۔ جبکہ ماضی میں فیس بک میانمر میں مسلم نسل کشی کا باعث بن چکا ہے۔ بہرحال techno-oligarchs کے اس موجودہ معرکے میں مارک زکربرگ ایک شکست خوردہ پارٹی ہیں اور یہ راؤنڈ ایلون مسک اور پیٹر ٹیل نے جیت لیا ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے ایلون مسک اپنا پلیٹ فارم برطانیہ کی سیاست میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے اسلاموفوبیا کا بدترین استعمال کررہے ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں اور خصوصی طور پر پاکستانی مسلمانوں کے حوالے سے مسلسل نفرت آمیز پوسٹس ان کے ذاتی اکائونٹ سے کی جارہی ہیں جن کا واحد مقصد وہاں کی سیاست میں بھونچال پیدا کرنا اور شدت پسند سیاستدانوں کو آگے لانا ہے اور اب اس سلسلے میں وہ کھلم کھلا موجودہ برطانوی حکومت پر حکومت چھوڑنے کا دبائو ڈال رہے ہیں۔ یہ واضح طور پر بیرونی مداخلت کی ایک بدترین مثال ہے۔ اس سے پہلے وہ برازیل میں مداخلت کی براہ راست کوشش کرچکے ہیں جس کو برازیل کی عدالت عظمیٰ نے پابندیوں کے ذریعے روکا۔
برطانیہ میں کچھ پاکستانی افراد یقینی طور پر جنسی جرائم میں ملوث رہے ہیں جس کی مذمت ہمیشہ سے وہاں کے مین اسٹریم مسلمان بھی کرتے رہے ہیں مگر جس انداز میں اس کو بڑھا چڑھا کر ایلون مسک نے ٹوئٹر پر ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں مسلسل گمراہ کن اور جعلی اعداد و شمار اپنے اکائونٹ سے شیئر کررہے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ایلون مسک اب گلوبل سیاست میں ’’بادشاہ گر‘‘ کے طور پر ابھر کر آنا چاہتے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی اور بدترین جنسی جرائم کے بارے میں ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں مگر برطانیہ میں مسلمانوں کے حوالے سے محاورے کے مطابق ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا کیا ہوا ہے۔ سلی کون ویلی پر بے تاج بادشاہی کرنے والی ’’پے پال مافیا‘‘ کے کلیدی ارکان ایلون مسک اور پیٹر ٹیل نے ٹرمپ کے صاحبزادے ڈونالڈ ٹرمپ جونیر کی مدد سے جے ڈی وینس کی صورت میں خالص اپنا تیار کیا ہوا امیدوار نائب صدر بنوادیا ہے جو ٹرمپ کے کسی بھی صورت میں ہٹنے کے بعد امریکا کا صدر ہوکا۔ خود ایلون مسک ٹرمپ کی موجودگی میں ہی ایک صدر کی طرح اپنی شخصیت کو پیش کررہے ہیں۔ اس وقت امریکا طاقت کی راہداریوں میں ایک نئی جہت دیکھ رہا ہے اور طاقت اپنے پرانے روایتی مرکز سے ہٹ کر ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے Techno Oligarchs کی طرف منتقل ہوگئی ہے جس کے سرخیل ایلون مسک اور پیٹر ٹیل ہیں۔ یہ Techno Oligarchs امریکا میں شاندار کامیابی کے بعد اب پوری دنیا پر اپنے سیاسی اثر رسوخ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے اس وقت برطانیہ کے مسلمان ان کے بدترین نشانے پر ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے حوالے سے پلیٹ فارم ایلون مسک کررہے ہیں انہوں نے رہے ہیں ٹرمپ کی کی طرف
پڑھیں:
ٹرمپ کی حلف برداری، تارکینِ وطن میں خوف کی لہر
امریکا میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن شدید خوفزدہ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو دوسری مدت کے لیے امریکی صدر کے منصب کا حلف اٹھانے والے ہیں۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کئی بار یہ بات زور دے کر کہی ک وہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں تمام غیر قانونی تارکینِ وطن کو ترجیحی بنیاد پر ملک بدر کریں گے۔
امریکی میڈیا نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ ڈونلڈ ٹرپ اور اُن کے رفقائے کار نے بظاہر پوری تیاری کر رکھی ہے کہ حلف برداری کی تقریب ہوتے ہی غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا اور ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے دن سے اس کام میں جُت جائیں گے۔
ٹرمپ امریکا کی تاریخ کی غیر قانونی تارکینِ وطن کی سب سے بڑی ملک بدری شروع کرنے والے ہیں۔ اس حوالے سے ملک بھر میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن شدید خوفزدہ ہیں۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ اگر انہیں غیر قانونی تارکینِ وطن کی ملک بدری کے لیے طاقت استعمال کرنا پڑی تو اِس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
امریکا کی جن ریاستوں میں دیموکریٹس کی حکومت ہے وہاں سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کیے جانے کا امکان کم ہے۔ امریکا بھر میں غیر قانونی تارکینِ وطن ورک فورس کا حصہ ہیں۔ بہت سے کاروباری ادارے اور عام امریکی بھی اپنے کارخانوں، دکانوں اور گھروں میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو کام پر رکھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ غیر قانونی تارکینِ وطن زیادہ اجرت بھی نہیں لیتے اور سہولتوں کے لیے بھی آجروں کو پریشان نہیں کرتے۔