20 جنوری کو صدر ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہائوس میں جلوہ گر ہورہے ہیں۔ ان کی اس جلوہ گری میں ایلون مسک کی حرکتوں اور ڈالروں کا بھی دخل ہے۔ ٹرمپ کو ریسلنگ اور دوسروں کو بے عزت کرنے کا شوق ہے اور مسک کو الیکٹرونکس کا۔ ان کا بس چلے تو پیار محبت اور حسن کو بھی مصنوعی ذہانت میں شامل کردیں۔ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں پہلے صدر ہوں گے جنہوں نے مجرمانہ ریکارڈ بنانے کے لیے امریکا کے صدر بننے کا انتظار نہیں کیا۔ وہ ’’پہلے ہی‘‘ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ جن میں سے ایک ریکارڈ فحش فلموں کی اداکارہ اسٹارمی ڈینئلز کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کی ادائیگی کو مخفی رکھنا ہے۔ امریکا میں فحش اداکارائوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا جرم نہیں، تعلقات کے عوض رقم کی ادائیگی بھی جرم نہیں بس تعلقات چھپانا جرم ہے۔ حالانکہ اس جرم پر مقدمہ چلانے کے بجائے سراہا جانا چاہیے تھا کہ امریکیوں کو ایسا صدر نصیب ہوا ہے جو طوائفوں کو بھی پوری پوری ادائیگی کرتا ہے۔ البتہ ایک مسئلہ ہے جس کا امریکیوں کو سامنا کرنا پڑے گا کہ کون کون سی طوائف خاتون اوّل ہے اور کس کس طوائف کی تکریم کرنا ہوگی؟
ٹرمپ ہر ایک کے لیے واضح ایجنڈا، دھمکیاں اور ڈیمانڈز رکھتے ہیں۔ ہر ایجنڈے کا ایک اختتام ہوتا ہے لیکن ان کی دھمکیوں اور ڈیمانڈز کا کوئی انت ہے اور نہ سمت۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں کسی کو بھی لتاڑ سکتے ہیں۔ وہ یورپی اور غیر یورپی اتحادی سبھی کو ’’سلطان تیری قدرت‘‘ کا ورد کراتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف وہ میکسیکو اور کینیڈا کو درآمدات پر 25 فی صد ٹیرف عائدکرنے کی وارننگ دے رہے ہیں تو دوسری طرف کینیڈا کو امریکا کی 51 ویںریاست بنانے، امریکا میں ضم کرنے اور کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو کو اس اسٹیٹ کا گورنر بنانے کا کہہ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ میکسیکو سے امریکا کی طرف ہجرت کرنے والوں کو روکنے کے لیے جنوبی سرحد بند کرنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ ٹرمپ کی موشگافیوں پر ٹروڈو نے استعفا دے دیا ہے، جب کہ میکسیکو کی خاتون صدر کلاڈیا شیئن بام سے ٹرمپ نے سرحد بند کرنے کی بات کی تو انہوں نے ’’ہم ہنس دیے ہم چپ رہے‘‘ سے اس کا جواب دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ جیسے بدمعاشوں کو عورتیں بہتر ڈیل کر لیتی ہیں۔ دوسرے یہ بھی کہ بری بات اور برے گانے پر چپ ہوجانا، مسکرانا اور ہنسنا زیادہ بہتر جواب ہے۔
برف سے ڈھکے ہوئے گرین لینڈ جزیرے کے باسیوں کے لیے بھی گالی دیے بغیر ٹرمپ کا ذکر کرنا ممکن نہیں جسے ٹرمپ مزے مزے سے ہنہناتے ہوئے چرنا ہی نہیں مکمل کھانا چاہتے ہیں۔ ڈنمارک کی بادشاہت کے نزدیک ان کا گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے۔ اس پر ان کا قانونی حق ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر گرین لینڈ پر ڈنمارک کا کوئی قانونی حق ہے بھی تو اس سے ان کو دستبردار ہوجانا چاہیے کیونکہ ہم ایسا کہہ رہے ہیں اور چونکہ ہم ایسا کہہ رہے ہیں اس لیے کسی کے چوں کرنے کی گنجائش نہیں۔
دنیا بھر میں امریکی بالادستی کے لیے کوشاں رہنے والے ناٹو اتحادیوں کی بھی صدر ٹرمپ نے کلاس لے رکھی ہے۔ 2016 میں انہوں نے ناٹو کو فرسودہ قرار دیا تھا اور کہا تھا اگر وہ تنظیم ٹوٹ جائے تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ ستمبر 2018 میں انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’امریکا کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں ناٹو پر بہت زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے‘‘۔ امریکا ناٹو کے تمام رکن ممالک کے دفاع پر کل اخراجات کا تقریباً 70 فی صد ادا کرتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ٹرمپ کی تنقید کے باوجود کئی برس پہلے امریکی کانگریس نے ملک کے ناٹو سے نکلنے کو روکنے کے لیے قانون سازی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ڈیموکریٹ اور ریپبلکن دونوں پارٹیوں نے اس کی زبردست حمایت کی تھی اور اس کے حق میں 357 ووٹ تھے اور اس کے مخالف صرف 22 ووٹ ڈالے گئے تھے تا ہم اس کے باوجود ٹرمپ ناٹو کو محض خرچ کے حساب کتاب کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ ناٹو امریکا اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں سوویت یونین سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ آج اس کے رکن ممالک کی تعداد 29 ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ وہ ڈینٹسٹ ہیں جو یہودی ریاست اسرائیل کے لیے خطے کے تمام اسلامی ممالک کے دانت نکال سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو وہ انتشار سے تعبیر کرتے ہیں جس میں بیس جنوری تک، ان کی حلف برداری کی تقریب سے پہلے، یہودی یرغمالی رہا نہ ہونے پر وہ جہنم کے دروازے کھول دیں گے۔ بقول ان کے ’’ہر طرف عذاب مسلط‘‘ کر دیا جائے گا، اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہوں گے، انہیں امریکا کی طویل اور تاریخ کی سب سے سخت ترین سزا دی جائے گی‘‘۔ 7 اکتوبر 2023 سے، اسرائیل مکمل امریکی حمایت کے ساتھ، غزہ کی پٹی پر ایک خونریز نسل کشی کی جنگ برپا کیے ہوئے ہے، اس جنگ میں 153,000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے اور زخمی ہوئے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے جب کہ 11,000 سے زیادہ افراد لاپتا ہیں، اس دوران بڑے پیمانے پر تباہی اور قحط نے بچوں اور بزرگوں کی زندگیوں کو بھی نگل لیا ہے۔ مصر کا فرعون جنرل سیسی صدر ٹرمپ کے پسندیدہ آمر ہیں۔ جس شخص کی پسند ایسی خونیں ہو اس سے اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن لے کر آئے گا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے تیزاب سے حسن دوبالا کرنا۔ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کو مزید قتل وغارت، بربادی اور مسلمانوں کی تباہی
کے سوا کچھ نہیں دے گا جو اسلامی دنیا کے لیے ان کی پالیسی ہے۔
جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے تو صدر ٹرمپ خالص تجارتی انداز میں اس معاملے کو حل کریں گے اور کچھ فوائد سمیٹ کر اسے روس کے حوالے کردیںگے۔ اس کے عوض کچھ تو وہ شام میں حاصل کر چکے ہیں اور ایک اور ڈیل کے لیے صدر پیوٹن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی جہاں تک بات ہے تو یہ بظاہر مقامی سطح پر میڈیا پر دھاک بیٹھانے کے لیے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر امریکا ہی تیسری جنگ عظیم کے لیے پیش رفت نہیں کرے گا تو کون کرے گا۔ اگرآئندہ جنگیں ہوں گی تو یہ امریکا ہی ہوگا جوان کا محرک ہوگا ان کی پشت پر ہوگا اور انہیں بھڑکائے گا۔
امریکاکے حوالے سے دیکھا جائے تو ٹرمپ کے پاس ایسی کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے جس سے وہ ان مسائل کو حل کر سکے جو امریکا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے امریکا کو بھی تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، جہاں دولت کا ارتکاز اس چھوٹی سی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے جو ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جس کی وجہ سے امریکا بھی دنیا کی ان ناکام ریاستوں سے مختلف نہیں جہاں کرپٹ حکمران اور ایک منتخب اشرافیہ ملک کی دولت پر قابض ہے۔ امریکا کی دولت بڑی بڑی کارپوریشنوں کے مالکان کے قبضے میں ہے جو دنیا بھر سے لوٹی کھسوٹی گئی ہے جب کہ امریکا اور دنیا بھر کے غریب عوام ان بچے کُھچے ٹکڑوں پر گزارا کر نے پر مجبور ہیں جو یہ سرمایہ دار انہ نظام ان کی طرف پھینک دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اجارہ داری، دولت کا ارتکاز، سُود اور سُودی اندازوں پر مبنی ہے۔ کوئی ذی شعور یہ سوچ سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ سرمایہ داریت کے دائرے سے باہر نکل کر سوچ سکتے اور عمل کرسکتے ہیں جبکہ وہ خود اس کا حصہ ہے اور اس نظام کی کرپشن اور جہنمی سڑاند سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ٹرمپ جہنم کی اس دنیا کا اشتہار نہیں مسلسل پروگرام کی ایک قسط ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکا کی رہے ہیں کے لیے کو بھی
پڑھیں:
20 جنوری کے بعد
کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب زندگی کو انجوائے کر رہا تھا‘ فائر پلیس میں آگ دہک رہی تھی اور صاحب ریشمی گاؤن میں گھوڑے کی کھال کے صوفے پر آگ کے قریب بیٹھا تھا اور فضا میں سگار کی ہلکی ہلکی خوشبو پھیل رہی تھی‘ ماحول میں آسائش‘ فراوانی اور خوش حالی کی مہک تھی‘ ہم جب دوسروں کے گھروں اور دفتروں میں جاتے ہیں تو ہمیں ہر گھر‘ ہر دفتر میں ایک خاص مہک ملتی ہے‘ یہ مہک اس عمارت میں رہنے والے لوگوں کے حالات اور ذہنی صورت حال کی گواہ ہوتی ہے‘ خوش حال لوگوں کے گھروں اور دفتروں کی مہک بیمار اور پریشان حال لوگوں کی عمارتوں سے مختلف ہوتی ہے اور پرسکون‘ مطمئن اور اللہ لوگ انسانوں کے گھروں کی فضا دولت‘ طاقت اور شہرت کے گھوڑوں پر سوار لوگوں کی رہائش گاہوں کی فضا سے مکمل الگ ہوتی ہے۔
صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کیوں کہ آسائش اور فراوانی سے نواز رکھا ہے لہٰذا ان کے ڈرائنگ روم میں خوش حالی کی خوشبو تھی‘ صاحب نے سگار کا کش لگایا اور ہوا میں دھوئیں کا سرکل بنا کر بولے ’’تم یہ پوچھنا چاہتے ہو 20 جنوری کے بعد کیا ہو گا؟‘‘ وہ اس کے بعد ہنسے اور اس وقت تک ہنستے رہے جب تک انھیں کھانسی کا دورہ نہیں پڑ گیا‘ میں انھیں حیرت سے دیکھتا رہا‘ انھوں نے ریشمی رومال سے آنکھیں صاف کیں اور پھر مجھ پر نظریں جما کر بولے ’’ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو حلف لے گا لیکن یہ یاد رکھو پاکستان کی باری مارچ اپریل میں اس وقت آئے گی جب ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت پڑے گی‘ ٹرمپ کا پہلا چیلنج یوکرائن اور غزہ ہو گا‘ غالب امکان ہے امریکا کی اسٹیبلشمنٹ اسے شروع میں ہی گھیر لے اور یہ غزہ اور یوکرائن ہی سے باہر نہ آ سکے اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہماری باری جلد نہیں آئے گی لیکن اگر ٹرمپ نے یوکرائن اور غزہ جلد نبٹا لیا تو پھراپریل میں ہماری باری آ جائے گی۔
یہ افغانستان کے ساتھ ہمیں بھی لپیٹ لے گا‘ طالبان کو ہر ہفتے امریکا سے 40 ملین ڈالر ملتے ہیں‘ یہ بند کر دیے جائیں گے اور اس کے بعد یہ ہم پر دباؤ ڈالے گا کہ تم لوگ افغانستان سے طالبان کی چھٹی کراؤ‘ کولیشن گورنمنٹ بناؤ اور ہم اس دباؤ میں پھنس جائیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ’’کیا افغانستان میں کولیشن گورنمنٹ ہمیں سوٹ کرتی ہے؟‘‘ وہ ہنسے اور پھر بولے ’’اس کا دارومدار حالات پر ہے اگر امریکا ہمارے ساتھ پیار سے پیش آتا ہے‘ یہ ہمارے مطالبات مان لیتا ہے اور ملک کے موجودہ جمہوری نظام کو سپورٹ کرتا ہے تو پھر ہم دس دن میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیں گے لیکن اگر ہمیں فوری فائدہ نہیں ہوتا تو بھی ہم یہ کام کریں گے مگر اس میں سال چھ مہینے لگ جائیں گے کیوں کہ طالبان کے بعد افغانستان میں جو حکومت آئے گی وہ بھارت کو دوبارہ قونصل خانے کھولنے کی اجازت دے گی اور اس کے بعد ایک بار پھر کابل میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ آ کر بیٹھ جائیں گے اور یہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
صاحب کے ڈرائنگ روم میں بڑی دیر تک خاموشی رہی‘ اس دوران صرف آتش دان کی لکڑیاں بول رہی تھیں یا پھر وال کلاک کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی‘ میں نے کھنگار کر گلا صاف کیا اور پھر آہستہ آواز میں پوچھا ’’کیا ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے لیے دباؤ ڈالیں گے؟‘‘ صاحب نے چونک کر میری طرف دیکھا اور ایک لمبا شیطانی قہقہہ لگایا‘ وہ دیر تک ہنستے رہے‘ یہ عموماً ایسی صورت حال میں ایسا ہی خوف ناک قہقہہ لگاتے ہیں‘ یہ ان کی ایکسائٹمنٹ کی دلیل ہوتی ہے‘ وہ رکے اور یک دم سنجیدہ ہو کر بولے ’’ضرور کرے گا لیکن اس کوشش کے پیچھے تین موٹو ہو سکتے ہیں‘ ہمارا ری ایکشن ان تینوں میں الگ الگ ہو گا مثلاً اگر امریکا ہمیں لیبیا‘ شام یا عراق بنانا چاہتا ہے تو پھر یہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرا کر سڑکوں اور گلیوں میں چھوڑ دے گا اور وہ چند ماہ میں پاکستان کو شام یا لیبیا بنا دے گا‘ ایسی صورت میں آپ یہ یاد رکھیں پاکستان میں لیبیا اور شام سے زیادہ قتل وغارت گری ہو گی کیوں کہ ہمارے ملک میں بے تحاشا اسلحہ ہے اور اگر خدانخواستہ یہ ایک بار باہر آ گیا تو پھر حالات کو سمیٹنا ممکن نہیں رہے گا لہٰذا امریکا اگر صرف بانی پی ٹی آئی کی رہائی چاہے گا تو پھر ریاست کو خوف زدہ ہو جانا چاہیے اور یہ ہو جائے گی اور اس کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا عمران خان یا پھر ملک‘ آپ سمجھ دار ہیں۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں ریاست کیا فیصلہ کرے گی‘ دوسرا موٹو امر یکا عمران خان کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے‘ یہ اگر بانی پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانا چاہے گا تو یہ پھر اس کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح کرائے گا بالکل اسی طرح جس طرح امریکا نے ابوظہبی میں 2007میں بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کو آمنے سامنے بٹھا دیا تھا‘ امریکا خان کے کیس میں بھی کسی نہ کسی دوست ملک کو درمیان میں ڈالے گا اور وہ ملک جنرل عاصم منیر اور عمران خان کو اکٹھا بٹھا دے گا اور اس کے بعد نیا جمہوری سفر شروع ہو جائے گا لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کیوں کرے گا؟ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں‘ پہلی وجہ امریکا پاکستان میں امن چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے پاکستان جمہوری اور معاشی طور پر ترقی کرے‘ جو ظاہر ہے خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں‘ امریکا پاکستان کو معاشی اور جمہوری لحاظ سے کام یاب اور توانا کیوں بنائے گا؟ اور دوسری وجہ امریکا خان سے وہ کام کرانا چاہتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ یا جنرل عاصم منیر نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے چناں چہ ٹرمپ جب صلح کی کوشش کرائے گا تو ہمارے لوگ فوراً محتاط ہو جائیں گے۔
یہ سمجھ جائیں گے عمران خان کو اقتدار میں لانے کا مقصد کیا ہے لہٰذا یہ صلح کے باوجود عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دیں گے اور اس کے لیے انھیں کچھ بھی کرنا پڑا یہ کر گزریں گے‘ مجھے خطرہ ہے عمران خان کے کیس میں کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ ڈونلڈ ٹرمپ صلح کرائے‘ نئے الیکشن کا سلسلہ شروع ہو ‘ اقتدار پی ٹی آئی کو مل جائے لیکن عمران خان مائنس ہو جائیں‘‘ صاحب رکا‘ لمبی سانس لی اور پھر بولا ’’مجھے یقین ہے تم میری تھیوری کو سازشی قرار دو گے لیکن تم ذرا اس گیند کو میدان میں رکھ کر دیکھو‘ تمہیں بے شمار حقیقتیں نظر آنے لگیں گی اور میں اب تیسرے آپشن کی طرف آتا ہوں‘‘۔
’’آپ فرض کرو ڈونلڈ ٹرمپ کو عمران خان اور پاکستان دونوں میں کوئی دل چسپی نہیںاور یہ ہم سے افغانستان یا ایران سے متعلق کوئی کام لینا چاہتا ہے‘ اس کی خواہش ہے ہم افغانستان میں حکومت ختم کر دیں یا پھر ایران پر حملے میں امریکا یا اسرائیل کی مدد کریں اگر ٹرمپ یہ چاہے گا تو پھر یہ عمران خان کو بطور بارگیننگ چِپ استعمال کرے گا‘ یہ انسانی حقوق اور عدل وانصاف کی بات کرے گا‘ یہ ٹویٹ کرے گا پاکستان میں عدل اور انصاف کی بری حالت ہے‘ عمران خان کے ساتھ عدالتوں میں برا سلوک ہو رہا ہے اور جیل میں بھی اسے وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو ایک سابق وزیراعظم کو ملنی چاہییں وغیرہ وغیرہ‘ یہ پی ٹی آئی کے جمہوری حقوق کی بات بھی کرے گا‘ آئی ایم ایف کو بھی پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کا اشارہ کرے گا اور پاکستان پر دہشت گردی کا الزام بھی لگائے گا‘ اس دباؤ کا مقصد عمران خان کی رہائی یا اقتدار میں واپسی نہیں ہو گا۔
اس کا واحد مقصد پاکستان سے مزید رعایتیں لینا ہو گا اور اگر یہ ہوا تو پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا رویہ مکمل مختلف ہو گا‘ ریاست یہ دباؤ برداشت کرے گی اور ساتھ ساتھ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈائیلاگ کرے گی اور آخر میں امریکا کے ساتھ سمجھوتہ کرلے گی جس کے بعد امریکا عمران خان کو بھول جائے گا اور ہم امریکا کے مطالبات مان لیں گے اور یوں معاملہ نبٹ جائے گا‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور سگار کے کش شروع کر دیے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کو زیادہ چانسز کس آپشن کے محسوس ہوتے ہیں؟‘‘ صاحب نے ایک اور شیطانی قہقہہ لگایا اور بولا ’’تیسرے آپشن کے‘ امریکا کے پاکستان کے ساتھ تمام تر تعلقات دفاعی رہے ہیں۔
امریکا نے 1952 میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بنائے اور یہ آج تک جاری اور ساری ہیں‘ سیاست دان ترجیحات کی اس فہرست میں پانچویں یا چھٹے نمبر سے اوپر نہیں آتے چناں چہ یہ عمران خان کے لیے کبھی اپنے دیرینہ دوست یعنی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرے گا‘ دوسرا امریکا نے پچھلے 25برسوں میں بھارت پر بہت سرمایہ کاری کی‘ امریکا کا خیال تھا بھارت چین کی اقتصادی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنے گا مگر انڈیا چین کو روک نہیں سکا‘ اس خطے میں چار ایٹمی طاقتیں ہیں‘ روس‘ چین‘ بھارت اور پاکستان‘ ان چار میں سے تین امریکا کے خلاف ہیں‘ روس‘ چین اور بھارت لہٰذا خطے میں امریکا کا واحد دوست پاکستان ہے۔
یہ چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس نے سوویت یونین کو بھی توڑ دیا اور اس نے آج تک بھارت کو بھی ہلنے نہیں دیا‘ یہ درست ہے پاکستان کے چین کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں لیکن ہماری دوستی کی ترجیحات میں امریکا چین سے پہلے آتا ہے لہٰذا امریکا کبھی اس خطے کا اپنا واحد دوست ضایع نہیں کرے گا اور وہ بھی عمران خان کے لیے‘‘ صاحب خاموش ہو گیا‘ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’لیکن سر امریکا 25 کروڑ عوام کا کیا کرے گا؟ عوام عمران خان کو پسند کرتے ہیں!‘‘ صاحب کا رنگ سرخ ہو گیا اور اس نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔