Jasarat News:
2025-04-16@18:40:09 GMT

ایل پی جی کی فروخت سے لاکھوں زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

کراچی(کامرس رپورٹر)ملک بھر میں ملا وٹ شدہ ایل پی جی کی فروخت سے لاکھوں زندگیاں خطرے میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔اوگرا نے شکایات موصول ہونے پر غیر معیاری سلنڈر میں ملاوٹ شدہ ایل پی جی فروخت کرنے والوں کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کردیا، اوگرا کی اسپیشل ٹیموں نے سندھ اورپنجاب میں کریک ڈائون کر کے درجنوں کمپنیوں اور ملاوٹ والا کیمیکل پکڑلیا۔ایل پی جی ڈسٹری بیوٹر ایسوسی ایشن کے چیئرمین عرفان کھوکھر کی شکایات پر چیئرمین اوگرا نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں، ایل پی جی بوزر سے گیس نکال کر اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ملاوٹ کی جا رہی تھی۔اوگرا نے مکسنگ پلانٹ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھرے ہوئے کنٹینر قبضہ میں لے لیے، ایل پی جی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ملاوٹ سے سلنڈر پھٹنے کی شکایات سامنے آئی تھیں۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ملاوٹ سے پریشر 900 سے 1200 تک بڑھ جاتا ہے جبکہ ایل پی جی سلنڈر کا پریشر 540 تک ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور سمیت ملک بھر میں سلنڈر پھٹ رہے ہیں۔ ایل پی جی دو لاکھ 35 ہزار ٹن جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ 25 ہزار ٹن ہے، 300 روپے میں فروخت ہونے والی گیس میں پندرہ کلو روپے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ ملا کر فروخت کرکے روازانہ لاکھوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔اوگرا نے پکڑے گئے گے ملاوٹ شدہ بوزر اور پلانٹ سے لیے گئے سمپل لیبارٹری بھجوا دیے ہیں، اوگرا نے پہلے پانچ ایل پی جی کمپنیوں کو پانچ پانچ لاکھ جرمانے بھی کیے اوگرا نے جن کمپنیوں کے سمپل لیبارٹری بھجوائے انکو بھی بھاری جرمانے کیے جائیں گے۔ ملاوٹ شدہ ایل پی جی جن مارکیٹوں میں فروخت ہو چکی ہیں اوگرا نے وہاں ڈسٹری بیوٹرز کے ساتھ مل کر ملاوٹ شدہ ایل پی جی واپس لینے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شدہ ایل پی جی اوگرا نے

پڑھیں:

نیا قانون اور ادارہ: فیک نیوز اور ڈی فیم کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) یہ ادارہ اب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر ونگ کی جگہ لے گا اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2025 کے تحت کام کرے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ این سی سی آئی اے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گا اور ملک بھر میں ضلعی سطح پر ’’سائبر تھانے‘‘ قائم کیے جائیں گے تاکہ شہریوں کی رسائی آسان بنائی جا سکے۔

پاکستان میں بڑھتے سائبر کرائمز، زیادہ شرح مالیاتی جرائم کی

پیکا ایکٹ کتنا صحیح کتنا غلط؟

پولیس سروس آف پاکستانکے ایک اچھی شہرت کے حامل افسر وقار الدین سید کو اس نئے ادارے کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔

’’میری تصاویر وائرل ہوئیں، اور کوئی دروازہ نہ تھا‘‘

کراچی کی رہائشی 26 سالہ ماہم (فرضی نام) کے لیے 2023 کا سال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔

(جاری ہے)

اُن کی نجی تصاویر اُن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہونے کے بعد وائرل ہو گئیں اور انہیں بلیک میل کیا گیا۔

ماہم کے مطابق انہیں ایف آئی اے کے دفتر تک کورنگی سے گلستان جوہر جانا پڑا، جہاں کئی گھنٹے انتظار کے بعد انہیں محض ایک کاغذ تھما دیا گیا۔ کیس میں انصاف حاصل کرنے میں چھ ماہ لگے، وہ بھی اس وقت جب انہوں نے نجی طور پر ایک آئی ٹی ماہر کی مدد حاصل کی۔

ماہم کہتی ہیں، ’’اگر میرے ضلع میں کوئی سائبر تھانہ ہوتا تو میں فوری طور پر مدد حاصل کر سکتی تھی۔ میرے جیسے کئی لوگ صرف اس لیے خاموش رہ جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔‘‘

80 فیصد شکایات، صرف 20 فیصد وسائل

2024 میں ایف آئی اے کو موصول ہونے والی کل شکایات میں سے تقریباً 80 فیصد سائبر کرائمز سے متعلق تھیں۔

تاہم ایف آئی اے کے مجموعی وسائل کا صرف 20 فیصد حصہ سائبر ونگ کو فراہم کیا گیا، جبکہ 80 فیصد وسائل امیگریشن، اکنامک کرائم اور اینٹی کرپشن ونگز پر خرچ کیے گئے۔

این سی سی آئی اے کے حکام کے مطابق، اسی فرق کو ختم کرنے اور سائبر کرائمز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نوعیت کے مطابق وسائل اور مہارت مختص کرنے کے لیے نیا ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔

لوگو، وردی، نئی شناخت اور اختیارات

این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمود الحسن ستی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں بتایا کہ اس ’’ادارے کے لیے مخصوص وردی، لوگو، اور دیگر انتظامی اقدامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘ ان کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر ونگ کی افرادی قوت، ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل این سی سی آئی اے کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ادارہ صرف شکایات سننے تک محدود نہیں ہوگا بلکہ تکنیکی تربیت، ڈیجیٹل فارنزک، اور تیز رفتار کارروائی کے لیے ایک جامع فریم ورک پر کام کرے گا۔

محمود الحسن ستی کے مطابق، ’’جو شخص جان بوجھ کر کسی ایسی اطلاع کو، جس کے غلط یا جھوٹا ہونے کا اسے علم ہو یا خدشہ ہو، پھیلائے گا یا عوام میں خوف و ہراس پیدا کرے گا، اسے تین سال تک قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

‘‘

ایڈیشنل ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ایک سوشل میڈیا کونسل بنائی جا رہی ہے اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی میں صحافیوں کی نمائندگی بھی رکھی جائے گی۔ قبل ازیں یہ اختیارات دفعہ 37 کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس تھے۔

سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی

حکومت سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی کے قیام کی بھی تجویز دے رہی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جائے گا، اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی صارفین کے ڈیٹا اور آن لائن حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
فی الحال ملک کے چند بڑے شہروں میں سائبر کرائم سیل فعال ہیں۔ این سی سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ضلعی سطح پر سائبر تھانے قائم کیے جائیں گے، جس سے شکایت درج کروانا آسان اور فوری ہوگا۔
ادارے کے مطابق، عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے پیکا قانون کا اردو ترجمہ ویب سائٹ پر جاری کیا جا رہا ہے۔

اگلے مراحل میں قانون کو پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی زبانوں میں بھی ترجمہ کر کے عام فہم بنایا جائے گا۔

ایک سائبر کرائم ماہر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عوام کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ جب تک قانون کو آسان زبان میں نہ سمجھایا جائے، اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ اگر این سی سی آئی اے نے ایف آئی اے کی طرز پر روایتی پولیسنگ کی، تو عوام میں پذیرائی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔

‘‘ پیکا قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے خدشات

پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک پیکا قانون دراصل ’’مارشل لا‘‘ ہے۔ ان کے مطابق، یہ قوانین نہ صرف صحافیوں بلکہ سیاست دانوں پر بھی لاگو ہوں گے، جیسا کہ فرحت اللہ بابر کو نوٹس دیے جانے کی مثال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ: ’’شق 26 اتنی وسیع ہے کہ کسی کو بھی اس کے تحت نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس قانون کی شدت کا اندازہ تب ہوگا جب وہ خود اپوزیشن میں ہوں گے۔‘‘

پیکا ایکٹ 2016 میں متعارف ہوا تھا۔ 2023 اور اب 2025 میں اس میں اہم ترامیم کی گئی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم عوامی مفاد میں کی گئی ہیں، مگر بعض حلقے انہیں آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

صحافیوں، ڈیجیٹل رائٹس کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین کا مؤقف ہے کہ پیکا ایکٹ کو مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

این سی سی آئی اے کے ایک افسر نے تاہم ان تحفظات کے حوالے سے کہا، ''یہ غلط فہمی ہے کہ ہم اظہارِ رائے پر پابندی لگا رہے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی نوعیت کے قوانین موجود ہیں۔ اصل ہدف ان افراد کو روکنا ہے جو یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز پر بغیر ثبوت کے لوگوں پر الزامات لگاتے ہیں یا جعلی خبریں پھیلاتے ہیں۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • رائٹ سائزنگ، نیپرا، اوگرا و دیگر ریگولیٹریز سے مشیروں، اسٹاف کی تعدد، تنخواہوں کی تفصیلات طلب
  • پی ڈی ایم اے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • پولیو کی ویکسین یونیسف خریدتا ہے اور اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے، مصطفیٰ کمال
  • اوگرا نے اپریل کے لیے آر ایل این جی قیمتوں کا تعین کر دیا
  • اوگرا نے آر ایل این جی قیمتوں کا تعین کر دیا
  • نیا قانون اور ادارہ: فیک نیوز اور ڈی فیم کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی؟
  • اوگرا نے اپریل کے لیے آر ایل این جی قیمتوں کا تعین کر دیا
  • پولیو کی ویکسینیشن میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے: مصطفیٰ کمال
  • لاکھوں روپے ریویو فیس ادا نہ کرنے پر کراچی کے صارف کی درخواست مسترد، نیپرا ممبر کا فیصلے کیخلاف اختلافی نوٹ
  • آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان آئندہ بجٹ پر مذاکرات کا آغاز، ٹیکس تجاویز اور کاربن لیوی پر غور