سندھ بلڈنگ شہر کی ناجائز تعمیرا ت کی اصل نگہبان،بلڈنگ انسپکٹراورنگ زیب بے قابو
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
کراچی کے ضلع وسطی، خصوصاً ناظم آباد میں سپریم کورٹ کے احکامات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے ، جس کے باعث علاقے کا انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔ رہائشی پلاٹس کو بھاری رشوت کے عوض کمرشل یونٹس میں تبدیل کیا جا رہا ہے ، جبکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے ) کے افسران، خاص طور پر بلڈنگ انسپکٹر اورنگزیب خان، ان غیر قانونی سرگرمیوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اورنگزیب خان گزشتہ پانچ سالوں سے غیر قانونی تعمیرات میں ملوث ہیں اور انہوں نے مقامی بلڈرز اور پراپرٹی ڈیلرز سے کروڑوں روپے رشوت وصول کی ہے ۔ناظم آباد کے مختلف بلاکس میں رہائشی پلاٹس کو کمرشل عمارتوں، شاپنگ سینٹرز اور گوداموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ، جس سے مقامی رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان تعمیرات کے لیے اکثر ناقص مٹیریل استعمال کیا جا رہا ہے ، جو کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے ۔ گلیاں اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، ٹریفک کے مسائل بڑھ گئے ہیں، اور علاقے میں پانی، گیس، اور بجلی کی فراہمی بری طرح متاثر ہو چکی ہے ۔ مقامی رہائشیوں نے شکایت کی ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے علاقے کا رہائشی ماحول تباہ ہو رہا ہے ، جبکہ ان کے بچوں کے لیے محفوظ ماحول بھی ختم ہو رہا ہے ۔اورنگ زیب کے ذریعے ان دنوں جاری سینکڑوں پلاٹس میں سے 2D-10/3G+2 پر غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی جاری ہے۔اورنگ زیب کی سرپرستی میں ایک منظم نیٹ ورک کام کر رہا ہے ، جو سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بے خوف ہو کر غیر قانونی تعمیرات جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ان کے خلاف یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے ان سرگرمیوں سے اربوں روپے کے اثاثے بنائے ، جن میں مہنگی جائیدادیں، لگژری گاڑیاں، اور بیرون ملک سرمایہ کاری شامل ہے ۔جس کی تفصیلات آئندہ دنوں میں الگ سے ایک تفصیلی رپورٹ میں شائع کی جائے گی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: غیر قانونی تعمیرات رہا ہے
پڑھیں:
محکمہ بلدیات کے محکموں میں (ر)ملازمین کوپنشن دی جارہی ہے‘سعید غنی
کراچی (اسٹاف رپورٹر ) وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ محکمہ بلدیات کے زیر انتظام محکموں میں ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کی جارہی ہے، البتہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کا معاملہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ اسمبلی میں مختلف ارکان کی جانب سے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں کیا۔انہوں نے کہا کہ کے ایم سی میں سابق مئیر وسیم اختر نے ان ملازمین کے جو پیسے علیحدہ اکائونٹ میں جمع ہوتے تھے اس کو بھی خرچ کردیاکرتے تھے ، سندھ حکومت اس وقت بھی کے ایم سی کو 1.2 ارب ہر ماہ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کررہی ہے، جو سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے اپنے دور میں ایک بار500 ملین ادھار مانگے تھے۔ ڈسٹرکٹ ایسٹ میں سندھ سولڈ ویسٹ کے تحت جو چائنیز کمپنی کام کررہی تھی اس کا کنٹریکٹ دوبارہ اس لیے نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ ادائیگی کو ڈالر کے بجائے پاکستانی روپے میں نہیں لینا چاہتی۔ قانونی چارجڈ پارکنگ کے علاوہ شہر میں جتنی بھی غیر قانونی پارکنگ ہیں، اس کے خاتمے کی ذمے داری محکمہ بلدیات نہیں بلکہ پولیس و قانون نافذ کرنے والوں کا ہے۔ بعدازاںسندھ اسمبلی کا پیر کی دوپہر ڈھائی بجے تک ملتوی کردیا گیا۔