لاہو ر(نمائندہ جسارت) نائب امیر جماعتِ اسلامی، سیکرٹری جنرل مِلی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے حکومت اور پی ٹی آئی کے دم توڑتے مذاکرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیموں کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہوکر سیاسی بحرانوں سے نکلنے کے فارمولے پر اتفاق کرنا چاہیے۔ اپنی سیاسی بے بسی اور بے اختیاری سے جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو مزید مشکلات کا شکار نہ کریں۔ سوشل میڈیا
کے سیاسی کارکن نوجوان ملک کو سیاسی بحرانوں سے نکالنے کے لیے فساد بڑھانے کے بجائے سوشل میڈیا کو سیاسی استحکام لانے کا ذریعہ بنائیں۔ سیاسی، جمہوری قیادت سہارے نہیں اپنی سیاسی بالغ نظری کو قوت بنائے۔لیاقت بلوچ نے لاہور میں جماعتِ اسلامی کے رہنما ذکراللہ مجاہد کی بیٹی کی شادی تقریب اور لاہور کے معروف سیاسی، سماجی رہنما گوگی شاہ کے بیٹے کی ماڈل ٹاؤن میں ولیمہ تقریب کے موقع پر میڈیا گفتگو میں کہا کہ اسلام آباد میں خواتین تعلیم کانفرنس کا انعقاد اچھا اقدام لیکن تعلیمی کانفرنس کو پاکستان اور افغانستان میں تعلقات کی کشیدگی بڑھانے کا ذریعہ نہ بنایا جائے؛ مقبوضہ کشمیر اور غزہ فلسطین میں تعلیمی نظام تباہ اور مِلتِ اسلامیہ کی بیٹیوں کو تعلیم سے محروم کردیا گیا ہے۔ کانفرنس امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کے مکروہ اور خواتین تعلیم دشمن اقدامات کی مذمت کرے۔ جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ سیاسی، سفارتی، تجارتی اور سماجی رابطوں میں پیش رفت کا خیرمقدم کرتی ہے۔ تعلقات کی بحالی اور مضبوطی کو امریکی اور بھارتی وائرس سے بچایا جائے۔ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے تعلقات کو مستحکم اور مضبوط بنایا جائے۔لیاقت بلوچ نے وفاق اور صوبوں کے درمیان حقوق اور مسائل پر بڑھتی کشیدگی کے حل کے لیے تجویز کیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے، وفاق پانی کی تقسیم کے فارمولے کی حفاظت کرے اور صوبوں کے حقِ ملکیت کے آئینی اُصول کو تسلیم کیا جائے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں صوبوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ آئینی ادارے کا اجلاس نہ بلاکر تعصبات، علاقائیت اور نفرتوں کو بڑھایا جارہا ہے، اِس کا سدِباب کیا جائے۔ ملک کے ہر صوبے کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے۔ حکومت، سکیورٹی اور حساس اداروں کو اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ لاپتہ افراد کا آئینی، قانونی، عدالتی فورم پر حل کے سِوا اب کوئی چارہ نہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی سیاسی استحکام لائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: لیاقت بلوچ کیا جائے

پڑھیں:

آئینی بنچ: اے پی ایس کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ آئین میں ترمیم کس لئے کرنا پڑی: جسٹس مندوخیل

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا ہے کہ اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟۔ فوجی عدالت میں دہشت گردوں کے ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی؟۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی دلائل دیے۔ خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ جرم کی نوعیت سے طے ہوتا ہے ٹرائل کہاں چلے گا۔ اگر سویلینز کے جرم کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں جائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم نیت کو بھی دیکھ سکتے ہیں، جرم کرنے والے کا مقصد کیا تھا۔ کیا ملک کے مفاد کیخلاف تھا؟۔ وزارت دفاع کے وکیل نے بتایا کہ عدالت کا پوچھا گیا سوال شواہد سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ براہ راست شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جرم کرنے والے کی نیت کیا تھی، یہ ٹرائل میں طے ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لیکن پہلے بنیادی اصول تو طے کرنا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ڈیفنس آف پاکستان سے کیا مراد ہے؟۔ وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ جنگ کے خطرات ڈیفنس آف پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس حسن اظہر رضوی صاحب نے ایک سوال کیا تھا۔ سوال میں پوچھا گیا تھا کہ جی ایچ کیو پر حملہ، ایئر بیس کراچی پر حملے کا کیس ملٹری کورٹس میں کیوں نہیں گیا؟۔ اس سوال کا جواب 21ویں آئینی ترمیم فیصلے میں موجود ہے۔ دہشت گردی کے یہ تمام واقعات بتائیں گے کہ اکیسویں آئینی ترمیم ہوئی کیوں تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سانحہ آرمی پبلک سکول میں گٹھ جوڑ موجود تھا؟ جس پر وکیل نے تبایا کہ اے پی ایس حملے کے وقت گٹھ جوڑ بالکل موجود تھا۔ جسٹس جمال خان کے پوچھنے  پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سانحہ آرمی پبلک سکول کے وقت بالکل موجود تھا۔ جسٹس جمال نے پوچھا کہ گٹھ جوڑ اور آرمی ایکٹ کے ہوتے ہوئے بھی فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟۔ فوجی عدالت میں دہشتگردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی؟، شامل کیے گئے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ دہشت گرد گروپ یا مذہب کے نام پر دہشت گردانہ کارروائیوں پر ٹرائل کہاں چلے گا، جس پر وکیلِ وزارت دفاع نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت دہشت گرد گروپ یا مذہب کے نام پر دہشت گردی کے واقعات پر ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلے گا۔ آئینی ترمیم کے بغیر بھی ایسے جرائم کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل چل سکتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کچھ دن پہلے یہ خبر آئی کچھ لوگوں کو اغوا کیا گیا ان میں سے 2کو چھوڑا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی دہشت گرد تنظیم تاوان کے لیے کسی آرمڈ پرسن کو اغوا کرے تو ٹرائل کہاں چلے گا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ فرض کریں ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں چل سکتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں اس کیس پر کیا اثر پڑے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں بیٹھ کر جرم کی نوعیت کا جائزہ نہیں لے رہے۔ ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقیں آئین کے تحت ہیں یا نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تقابلی جائزہ بھی دینا پڑے گا، ملٹری ٹرائل کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ اکیسویں آئینی ترمیم میں دو جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس ناصر الملک نے اپنی رائے میں کہا کہ آئینی ترمیم عدالت میں چیلنج ہی نہیں ہو سکتی۔ خواجہ حارث نے دلائل میں بتایا کہ اگر سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی اور 2 ڈی ٹو کو آرٹیکل 8 شق تین کے تحت درست قرار دیا تو ملٹری کورٹس کیخلاف درخواستیں ہی ناقابل سماعت قرار دینی ہوں گی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اہم حصہ آپ نے نہیں پڑھا۔ پارلیمنٹ میں ترمیم سے قبل بحث ہوئی اور مائنڈ اپلائی کیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت ایک سابق سینٹ چیئرمین کے آنسو بھی نکل آئے تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ترمیم 2 سال تک کے لیے تھی۔ انہوں نے خود کورٹ میں آکر تسلیم کیا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ وہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے سے انکار بھی کر سکتے تھے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ان کی سیٹ چلی جاتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وہ بڑے با اصول آدمی ہیں، انہوں نے روتے ہوئے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، سمجھ میں آتی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور : نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ غزہ سیز فائر معاہدہ کے سلسلے میں یوم تشکر ریلی سے خطاب کر رہے ہیں
  • امریکا سے رہائی اور اقتدار کی امیدیں غلام ذہنیت کا شاخسانہ ہے،لیاقت بلوچ
  • امریکہ، انڈیا، اسرائیل پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے پر متحد ہیں، لیاقت بلوچ 
  • اس وقت فوج اورعوام کےدرمیان اعتمادسازی کافقدان نظرآتاہے، حافظ نعیم الرحمان
  • سلامتی کونسل میں پاکستان نے یمن کے بحران کے حل کے لیے سیاسی مذاکرات کی اپیل کردی
  • آئینی بنچ: اے پی ایس کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ آئین میں ترمیم کس لئے کرنا پڑی: جسٹس مندوخیل
  • جن کی مدت ملازمت تقریبا مکمل ہوچکی ،انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ دینگے،وزیر قانون
  • الخدمت ملک بھر کیلیے خدمت اور اعتماد کا اہم ترین ادارہ ہے،لیاقت بلوچ
  • مسلم ممالک کے خلاف امریکہ، اسرائیل، انڈیا کی شیطانی تثلیث بڑا خطرہ بن گئی ہے، لیاقت بلوچ 
  • نئے صوبوں سے معاشی، سیاسی اور اقتصادی بہتری آئیگی، ڈاکٹر سلیم حیدر