اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت آج منگل تک ملتوی کرتے ہوئے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں موجود تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہی ہو گا‘ عدلیہ مارشل لا کی
توثیق کرتی رہی‘ کیا غیر آئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ پرویز مشرف کیس میں ججز کے نام لیے گئے تھے، سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججز کے نام نکال دیے گئے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین تو بہت سے ٹربیونلز کی بھی توثیق کرتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ کونسے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات میں اگست 2023ء میں ترمیم کی گئی، موجودہ کیس میں واقعات مئی 2023ء میں ہوئے، کیا بعد میں کی گئی ترامیم کو 9 مئی واقعات پر لاگو کیا جاسکتا ہے، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل آرمی ایکٹ میں ترمیم کے تحت کیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن(4) 59 کو بھی کالعدم قرار دیا ہے‘ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 2D (1) اور 2D (2) کے تناظر میں آرمی ایکٹ دیکھا جائے گا، سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31D کے تحت آتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 31D تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دیہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ نماز سے دور رہنے کا حکم ہے لیکن نشے کی حالت میں، فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا یہ دیکھنا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل ہی ہوتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اگر کوئی آرمی آفیسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا آرمی ایکٹ میں آئین معطل کرنے کی سزا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 6 میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے، آئین کا آرٹیکل 6 ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے، ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے۔ جسٹس مسرت نے کہا کہ آرٹیکل 6 تمام قوانین سے بالاتر اور سب پر لاگو ہوتا ہے، آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق فوجی عدالت میں کیوں نہیں مل سکتے؟ آئین تمام قوانین کی ماں اور سب سے بالاتر ہے،حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں بھی ملزمان کو حقوق حاصل ہوتے ہیں، جسٹس حسن اظہرنے کہاکہ کیا ہم فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ کیا ہمیں دکھایا جائے گا کہ ٹرائل میں قانون پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟ جسٹس آمین الدین نے کہاکہ اگر ضرورت ہوئی تو عدالت آپ سے ریکارڈ مانگ لے گی، سزا یافتہ لوگوں نے اپیلیں بھی کرنی ہے جس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتے۔ جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کیا ملزمان کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیے گئے یا نہیں؟ فوجی عدالت میں پیش کردہ شواہد کا معیار بھی دیکھنا چاہتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ تمام مقدمات تو نہیں ایک کیس کا ریکارڈ عدالت کو دکھا سکتے ہیں، عدالت شواہد کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی۔ جسٹس حسن اظہرنے کہا کہ ہم کسی سے ذکر نہیں کریں گے لیکن عدالت جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے، حارث نے کہاکہ جائزہ لینے کے اختیار کی حد تک آپ سے متفق ہوں۔ عدالت نے بعدازاں کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: خواجہ حارث نے فوجی عدالتوں حارث نے کہا فوجی عدالت ا رمی ایکٹ نے کہا کہ ایکٹ میں ایکٹ کی سزا ہے

پڑھیں:

سپریم کورٹ، سویلینز کے اب تک کیے گئے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب

اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا بھارتی جاسوس کلبھوشن کے علاوہ اب تک جتنے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوا اس کی تفصیلات بھی جمع کرائیں, جبکہ  جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا، تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کو ایک کیس کا ریکارڈ جائزہ کیلئے دکھا دیں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کہ کیا ملٹری کورٹ میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے ہوئے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹس یا سپریم کورٹ میرٹس کا جائزہ نہیں لے سکتیں، جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے ٹرائل میں پیش شواہد کو ڈسکس نہیں کرنا،  محض شواہد کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، نیچرل جسٹس کے تحت کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت بنیادی حقوق کے نقطہ پر سزا کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ پانچ رکنی بنچ نے قابل سماعت ہونے کے نقطہ کا درست جائزہ نہیں لیا، عدالت ریکارڈ کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی، زندگی کا حق اور فیئر ٹرائل شروع سے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے نہ بھی ہو تب بھی پروسیجر تو فالو کرنا ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آرٹیکل 8(3) میں بنیادی حقوق واپس لے لیے گئے ہیں۔

وزارت دفاع کے وکیل نے کہا یہ آرٹیکل 1973 سے آئین میں شامل ہے، جہاں آرٹیکل 8 ذیلی سیکشن 3 کا اطلاق ہو گیا بنیادی حقوق ختم ہوگئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ  کیا سویلین کے ملٹری ٹرائل والے قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 2010 میں آیا، فوجداری ضابطہ 1898 کا ہے، ضابطہ فوجداری میں ٹرائل کا پورا طریقہ کار دیا گیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ  بنانے کا مقصد کیا ہے، آرمڈ فورسز میں ڈسپلن قائم کرنا  یا کریمینل سرگرمیوں کو چیک کرنا؟ خواجہ حارث نے کہا آرمی ایکٹ کا مقصد آرمڈ فورسز کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا کریمنل سرگرمیوں کی الگ سے قانون سازی ہوتی تو یہ مسائل نہ ہوتے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں بہتری کا عمل چلتا رہتا ہے۔

جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے افسران جوانوں کو ڈیل کرتا ہے، 1967 میں ترمیم کرکے 2 ون ڈی ون سیکشن شامل ہوا، اس ترمیم سے قانون میں " کوئی بھی شخص " کے الفاظ شامل کر دیٔے گئے، ان الفاظ کی قانون میں شمولیت سے ریٹائرڈ افسران بھی ملٹری ٹرائل کے دائرے میں آگئے، اگر یہ 2 ون ڈی ون کالعدم برقرار رہتا ہے تو پھر کسی ریٹائرڈ افسر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکے گا اور اگر ہو رہا تو وہ بھی ختم ہو جائیگا،  لگتا ہے قانون میں شامل " کسی بھی شخص " کے الفاظ کا درست تعین نہیں ہوا، قانون میں شائد یہ سقم رہ گیا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ آئینی ترمیم کسی اور وجہ سے کی گئی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کلبھوشن کے علاوہ اب تک کتنے سویلنز کا ٹرائل ہوا، ڈیٹا کیساتھ جواب دیدیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوشش کریں آج دلائل مکمل کر لیں، خواجہ حارث نے کہا کہ میں پوری کوشش کروں گا۔ سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی ،سوال یہ ہے ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ
  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی، سوال یہ ہے کہ ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ
  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی، سوال یہ ہے کہ ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ
  • عدالت عظمیٰ کاآئینی بینچ ترمیم کی پیداوار ہے،وکلا ایکشن کمیٹی
  • سپریم کورٹ، سویلینز کے اب تک کیے گئے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب
  • 26ویں ترمیم کے بعد آئینی بینچز کےاختیار کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
  • سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
  • 26ویں آئینی ترمیم کےتحت کیس سننے والا بینچ ٹوٹ گیا
  • آئینی بنچ: اے پی ایس کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ آئین میں ترمیم کس لئے کرنا پڑی: جسٹس مندوخیل
  • اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا،فوی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا،آئینی بینچ