جب انیس سو پینتالیس میں اقوامِ متحدہ تشکیل پائی تو اس کے تاسیسی اجلاس میں اکیاون ممالک نے شرکت کی۔تب آدھی دنیا تب سامراجی غلام تھی۔ چنانچہ عالمی جنگ کے فاتحین کو نئی عالمی تنظیم کو اپنا دم چھلا بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔پانچوں فاتحین ( امریکا ، سوویت یونین ، برطانیہ ، فرانس ، چین ) نے ویٹو پاور اپنے ہاتھ میں رکھ لی۔ اقوامِ متحدہ میں اسی توازنِ طاقت کے بل پر پانچوں ویٹو پاورز نے انتیس نومبر انیس سو سینتالیس کو فلسطین کی غیر منصفانہ تقسیم کی قرار داد کے سائے میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کر دی۔

اگرچہ آج اناسی برس بعد بھی ویٹو طاقتیں پانچ ہی ہیں مگر اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد اکیاون سے بڑھ کے ایک سو ترانوے ہو گئی ہے۔

رکن ممالک کا بس اقوامِ متحدہ کے سب سے اہم فیصلہ ساز ادارے سلامتی کونسل پر نہیں چلتا مگر ایک سو ترانوے رکنی جنرل اسمبلی کا جھکاؤ فلسطینی کاز کی جانب ہے۔جنرل اسمبلی کی قرار دادوں پر عمل ہو نہ ہو تاہم ان کا اخلاقی وزن سلامتی کونسل کی چوہدراہٹ کو مسلسل چیلنج کرتا رہتا ہے۔اور یہ تمام قراردادیں تاریخ کا حصہ ہیں جن کی مدد سے مستقبل کا مورخ دیکھ پائے گا کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں حق کہاں کھڑا تھا اور باطل کہاں کہاں موجود تھا۔

اس تناظر میں جب ہم مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کا جائزہ لیتے ہیں تو دل کو تھوڑی ڈھارس ہوتی ہے۔مثلاً یہ جنرل اسمبلی ہی تھی جس نے جون انیس سو سڑسٹھ سے اب تک غربِ اردن اور غزہ پر اسرائیلی قبضے اور مقبوضہ علاقے میں اسرائیلی آبادکاری کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے انتیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ انیس سو چوہتر نے دو قرار دادیں منظور کیں۔قرار داد نمبر بتیس سو چھتیس ( بائیس نومبر ) میں فلسطینیوں کے حقِ خود اختیاری و آزادی اور حقِ واپسی کو تسلیم کرتے ہوئے تنظیم ِ آزادیِ فلسطین ( پی ایل او) کو بطور فلسطینی نمایندہ تسلیم کیا گیا۔اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک سے اپیل کی گئی کہ وہ فلسطینیوں کی منصفانہ جدوجہد کی مدد کریں۔قرار داد کے حق میں نواسی اور مخالفت میں آٹھ ووٹ آئے جب کہ سینتیس ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

اسی اجلاس میں قرار داد نمبر بتیس سو سینتیس بھی منظور ہوئی۔اس کے تحت پی ایل او کو بطور مبصر اقوامِ متحدہ کی کارروائی میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا اور اگلے برس پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ شہرہِ آفاق جملہ کہا کہ میرے ایک ہاتھ میں شاخِ زیتون اور دوسرے میں حریت پسند کی بندوق ہے۔ براہِ کرم میرے ہاتھ سے شاخِ زیتون گرنے نہ دیجے۔

دس نومبر انیس سو پچھتر کو جنرل اسمبلی نے قرار داد نمبر تینتیس سو اناسی منظور کی۔اس میں کہا گیا کہ جنوبی افریقہ کے اپارتھائیڈ نظریے کی طرح صیہونیت ایک نسل پرستانہ نظریہ ہے۔پرانا نوآبادیاتی نظام ، نیا نو آبادیاتی نظام ، نسلی امتیاز، جبری قبضہ ، اپارتھائیڈ اور صیہونیت جیسے نظریات انسانی حرمت اور حقِ خوداختیاری اور بین الاقوامی امن و سلامتی کی راہ میں یکساں رکاوٹ ہیں۔

اس قرار داد میں اقوامِ متحدہ کی بیس نومبر انیس سو تریسٹھ کی قرار داد انیس سو چار کا حوالہ بھی شامل کیا گیا۔جس کے تحت نسلی امتیاز اور نسلی برتری کی نام نہاد سائنسی توجیحات کو رد کیا گیا۔نیز اقوامِ متحدہ کی چودہ دسمبر انیس سو تہتر کو منظور کردہ قرار داد نمبر اکتیس سو اکیاون کا حوالہ بھی شامل کیا گیا۔اس قرار داد میں جنوبی افریقہ ، رہوڈیشیا (زمبابوے) اور اسرائیل کے نسل پرستانہ اتحاد کی مذمت کی گئی تھی۔

قرار داد تینتیس سو اناسی میں جولائی انیس سو پچھتر میں میکسیکو میں ہونے والی عالمی خواتین کانفرنس کی قرار داد اور اگست انیس سو پچھتر میں افریقی اتحاد کی تنظیم کے سربراہ اجلاس کی قرار داد کا حوالہ بھی دیا گیا۔دونوں قرار دادوں میں صیہونیت کو جنوبی افریقہ میں نافذ نسلی برتری کے نظریہ اپارتھائیڈ کا ہم پلہ قرار دیا گیا۔

صیہونیت کو نسل پرست نظریہ قرار دینے والی قرار داد تینتیس سو اناسی کے حق میں بہتر اور مخالفت میں پینتس ووٹ آئے جب کہ بتیس ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔اس موقع پر اسرائیلی مندوب خائم ہرزوگ ( جو بعد ازاں اسرائیل کے صدر بنے ) نے قرار داد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرار داد نفرت انگیز اور جھوٹی اور ایک ردی کاغذ ہے جس کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں۔خائم ہرزوگ نے قرار داد پھاڑتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد تل ابیب ، حیفہ اور یروشلم میں جن شاہراہوں کے نام یو این ایونیو رکھے گئے تھے انھیں بدل کے زائیونسٹ ایونیو کیا جا رہا ہے۔

قرار داد پر ووٹنگ سے پہلے امریکی مندوب ڈینیل پیٹرک مونیہان نے اسرائیلی مندوب سے بھی دو ہاتھ آگے جا کر کہا کہ اقوامِ متحدہ اس قرارداد کے ذریعے یہود دشمنی کو ایک بین الاقوامی قانون میں بدل رہی ہے۔ہم کبھی بھی اس قرارداد کو نہ مانیں گے نہ اس پر عمل کریں گے۔

میکسیکو نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیا۔امریکی یہودی لابی نے میکسیکو کے سیاحتی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔میکسیکو کے وزیرِ خارجہ ایمیلیو رباسا نے اشک شوئی کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا مگر امریکی دباؤ کے سبب انھیں بالاخر اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔

مگر سولہ برس بعد سولہ دسمبر انیس سو اکیانوے کو اسی جنرل اسمبلی نے قرار داد چھیالیس چھیاسی کے ذریعے قرار داد تینتیس سو اناسی کو منسوخ کر دیا۔یعنی صیہونیت کو نسل پرست نظریات کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔اسرائیل نے شرط رکھی تھی کہ جب تک صیہونیت کے خلاف قرار داد واپس نہیں لی جاتی اسرائیل فلسطینیوں سے امن مذاکرات نہیں کرے گا۔

یہ قرار داد امریکی صدر جارج بش نے ذاتی طور پر پیش کی۔ حق میں ایک سو گیارہ ووٹ آئے۔ ان میں بھارت اور سوویت یونین سمیت وہ ممالک بھی شامل تھے جنھوں نے صیہونیت کو نسل پرست نظریہ قرار دینے کے حق میں بھی ووٹ دیا تھا اور سولہ برس بعد یو ٹرن لے لیا۔پچیس ممالک نے نئی قرار داد کے خلاف ووٹ دیا اور تیرہ نے ووٹ نہیں دیا۔غیر حاضر ممالک میں ترکی بھی تھا۔

جون دو ہزار چار میں یہود دشمنی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے تحت پہلی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے صیہونیت کے خلاف اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے منظور ہونے والی قرار داد کی تنسیخ کو ’’ خوش آیند ‘‘ قرار دیا۔

انیس سو ستر سے اب تک امریکا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے حق میں انچاس بار ویٹو استعمال کر چکا ہے۔ان میں چار ویٹو غزہ میں جنگ بندی کے خلاف گزشتہ چودہ ماہ میں استعمال ہوئے۔مگر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں دو ہزار چھ سے دو ہزار بائیس تک ننانوے قراردادیں اسرائیل کے خلاف اور اکسٹھ دیگر ممالک کے خلاف منظور ہوئیں۔جب کہ جنرل اسمبلی میں دو ہزار پندرہ سے دو ہزار بائیس تک صرف سات برس میں اسرائیل کے خلاف ایک سو چالیس اور دیگر ممالک کے خلاف اڑسٹھ قراردادیں منظور ہوئیں۔

اگرچہ اقوامِ متحدہ کے اکثریتی ارکان کا رویہ روز بروز اسرائیل مخالف ہے۔مگر جب تک سلامتی کونسل میں پانچ بڑوں کے پاس ویٹو کی لاٹھیاں ہیں۔بین الاقوامی بھینس کو بھی یہی ممالک ہنکالتے رہیں گے۔اگر اقوامِ متحدہ سے ہی ویٹو اپارتھائیڈ نظام ختم نہیں ہوتا تو باقی دنیا سے کیسے ہو گا؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تینتیس سو اناسی سلامتی کونسل بین الاقوامی میں اسرائیل جنرل اسمبلی قرار داد کے کی قرار اسرائیل کے کرتے ہوئے کے حق میں متحدہ کی ممالک نے متحدہ کے کیا گیا کے خلاف یہ قرار کہا کہ ایک سو

پڑھیں:

پاکستان ماحولیاتی طورپر سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے، ورلڈ اکنامک فورم

ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی معاشی صورت حال سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی طورپر سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے۔
اسلام آبادمیں 15 جنوری 2025 ورلڈ اکنامک فورم(ڈبلیو ای ایف)کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2025 نے پاکستان پر قابل اطمینان نقطہ نظر اور اعتماد کا اظہار کیا ہے جو اس کی سالانہ عالمی خطرات کی تشخیص کا حصہ ہے۔
یہ رپورٹ دنیا بھر کے 900 سے زائد ماہرین اور 11,000 ماہرین کے ایگزیکٹو اوپینین سروے پر مبنی ہے پاکستان میں مِشعل پاکستان نے فروری سے جون 2024 تک ایک تفصیلی ایگزیکٹو اوپینین سروے (EOS) منعقد کیا جس میں ملک کے کاروباری رہنماؤں کی آراء کو شامل کیا گیا۔
گلوبل رسک رپورٹ عالمی اور علاقائی منظرنامے کی تشکیل میں جغرافیائی، اقتصادی، ماحولیاتی، سماجی اور تکنیکی چیلنجز کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتی ہے دیگر ترقی پذیر معیشتوں کی طرح، پاکستان کو بھی پیچیدہ خطرات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹیجک لچک اور پالیسی میں جدت ضروری ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا  کہ مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ سے پاکستان کی معیشت کمزور ہو سکتی ہےجس سے سرمایہ کاری پر اعتماد اور ترقی کے امکانات متاثر ہو سکتے ہیں تاہم ملک نے حالیہ برسوں میں غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے معاشی چیلنجز کو مؤثر انداز میں سنبھالا ہے۔
پاکستان ماحولیاتی طور پر سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے جہاں بار بار آنے والی سیلاب، ہیٹ ویوز اور پانی کی قلت جیسے عوامل خوراک کی سلامتی، بنیادی ڈھانچے کی استحکام اور لوگوں کے روزگار کے لیے خطرہ ہیں۔
مشعل پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او)عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے عالمی غیر یقینی صورتحال میں مستقل طور پر لچک دکھائی ہے، اور گلوبل رسک رپورٹ 2025 ہمارے چیلنجز اور مواقع دونوں کو اجاگر کرتی ہے جیسے جیسے ہم اقتصادی تبدیلیوں، ماحولیاتی موافقت، اور تکنیکی ترقی کے ذریعے آگے بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے  کہا کہ پاکستان اختراعات کو فروغ دے کر، گورننس کو مضبوط بنا کر، اور علاقائی تعاون کو بڑھا کر زیادہ مستحکم بن سکتا ہےہمارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم خطرات کو مواقع میں کیسے بدلتے ہیں اگر درست پالیسیاں اور اجتماعی عزم موجود ہو، تو پاکستان خود کو ابھرتی ہوئی عالمی معیشت میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بجلی کی قیمت پر سالانہ نظر ثانی، متعدد گرانٹس، کئی اداروں کی تشکیل نو منظور
  • پی ٹی آئی کی انسانی حقوق کمیٹی تشکیل، عالمی سطح پر معاملات اٹھائے گی
  • پی ٹی آئی نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دیدی
  • پاکستان کا یوکرین جنگ جلد ختم کرنے کا مطالبہ
  • ٹنڈوجام،خواتین کسان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مقررین
  • دو کروڑ کے قریب یمنی باشندوں کو امداد کی ضرورت، اقوام متحدہ
  • اسرائیل و حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ بہتر مستقبل کا موقع ہے، اینٹونیو گیوٹریس
  • ’دنیا کی  یکجہتی‘میں چین اور امریکہ کا  مثبت کردار ضروری ہے، چینی میڈیا
  • اقوام متحدہ، سعودی عرب اور ترکیہ کا غزہ جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم
  • پاکستان ماحولیاتی طورپر سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے، ورلڈ اکنامک فورم