مسلم ممالک لڑکیوں کی تعلیم کے لیے پرعزم
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
مذہبی رہنما تعلیم کے اسلامی اصولوں کو اجاگر کرنے اور عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے اپنا فریضہ کماحقہ ادا کریں۔اس امر کا اعلان دو روزہ عالمی اسکول گرلز کانفرنس کے اختتام پر ’اعلانِ اسلام آباد‘ کے نام سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کیا گیا۔ کانفرنس کا مقصد مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لینا اور تعلیمی مواقع پیدا کرنا تھا۔
مسلم دنیا کو درپیش سب سے بڑا چیلنج تعلیم نسواں کے حوالے سے اختیار کیے ہوئے نامناسب رویے ہیں، بدقسمتی سے بعض مسلم معاشروں میں پہلے تو لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے پر نافذ کی جانے والی خود ساختہ پابندیاں ہیں جن کا اگرچہ اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، مگر انھیں عین اپنی مذہبی سوچ سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے لڑکیوں پر یہ ظلم روا رکھا جاتا ہے، بدقسمتی سے اسلامی ممالک میں غالب مائنڈ سیٹ ہی لڑکیوں کی تعلیم اور گھر سے باہر کام کرنے کا مخالف ہے اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک خوشگوار تبدیلی کے عمل سے نہیں گزر سکتا جب تک وہاں عوامی رائے اور سوچ و فکر تبدیل نہ ہوجائے۔
عام رائے یا سوچ کے دباؤ کی وجہ سے خواتین کو سماجی اور اقتصادی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا موقع نہیں ملتا۔ تیسری دنیا خصوصاً ایشیا اور افریقہ میں خواتین کو صدیوں سے تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آئین پاکستان کسی بھی امتیازی رویے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، مگر اصل مسئلہ قوانین کے بننے سے زیادہ ذہنی سطح یا مائنڈ سیٹ کا ہے۔
ہمارے ہاں تو عورتوں کی بڑی تعداد قرآن کی بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے اب یہاں ہم سائنسی اور تحقیقی تعلیم کی بات چھوڑ ہی دیں۔طالبان، افغانستان میں دوسری بار برسر اقتدار آئے ہیں اور انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم پرپابندی عائد کردی ہے، یہ پابندی صرف لڑکیوں کے حقوق سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ تمام افغان لوگوں کے لیے ایک بحرانی کیفیت ہے۔ ہزاروں اساتذہ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ امدادی عملہ بھی بے روزگار ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے سے مالی طور پر فائدہ اٹھانے والے نجی ادارے اور کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ افغانستان کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور لوگوں کی آمدن کم ہوتی جا رہی ہے۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ خواتین کو ملازمتوں سے باہر رکھنے کے نتیجے میں ملک کی جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ افغانستان نے عالمی سطح کی منعقدہ کانفرنس میں شرکت نہیں کی ہے۔ اسی طرح مسلم افریقی ممالک سمیت یمن میں ایسے نام نہاد اسلامی عناصر قابض ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ ہیں۔
والدین کے عدم تعاون کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی ضرورت و اہمیت سے ان کی ناواقفیت اور لاشعوری کی بنا پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کئی ایسے گھرانے جو اپنے آپ کو کٹر مذہبی سمجھتے ہیں یا یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ اسلامی قوانین کی پابندی کرنے والے ہیں وہ لڑکیوں کے معاملے میں سراسر جاہلیت کا ثبوت دیتے ہیں اور گھر کی حد تک اپنی بچیوں کا ناظرہ قرآن اور چند دینی امور کی تعلیم دے کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری مکمل کر لی ہے۔
آج دنیا ترقی کے جن مدارج پر ایستادہ ہے ان کے لیے بنیادی ضرورت معاشروں کو اعلیٰ تعلیم سے ہمکنار کرنا ہی سمجھا جاتا ہے، یہ نہایت خوش آیند بات ہے کہ ماضی کی بہ نسبت آج مسلمانوں میں اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے لیکن آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں وہ دلچسپی، وہ خوشی اور سرگرمی والدین یا لڑکیوں کے سرپرستوں کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملتی جو کہ لڑکوں کے معاملے میں نظر آتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد کی کئی دہائیوں میں ان ادوار کی حکومتوں نے تعلیم نسواں تو ایک طرف، سرے سے تعلیم کے فروغ کی ضرورت کا احساس ہی نہیں کیا اور سالانہ میزانیوں میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص رقم کبھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر رکھنے پر بھی توجہ نہیں دی، اس حوالے سے ان با اثر جاگیرداروں، خوانین، سرداروں اور وڈیروں کا بڑا اہم کردار رہا ہے جو اپنے زیر اثر علاقوں میں تعلیم عام ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں بلکہ اب بھی سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں اکثر وائرل ہو جاتی ہیں جہاں دروازوں پر اسکول، مدرسہ وغیرہ کے بورڈ نصب ہوتے ہیں جب کہ اندر ان علاقوں کے با اثر افراد کے گدھے بندھے ہوئے نظر آتے ہیں، ایسی صورت میں تعلیم نسواں کی کتنی اور کیا اہمیت رہ جاتی ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تعلیم کی اہمیت و افادیت کے حق میں بلند آہنگ تقریریں کرنے والوں کو ہی دینا چاہیے۔
دراصل لڑکیوں کی سماجی حیثیت میں بلندی ہی ان کی اقتصادی سرگرمیوں میں شرکت کی صلاحیت، مارکیٹوں تک رسائی اور اپنے پیداواری وسائل پر ان کے اختیار کو بڑھاتی ہے۔ صنعتی اور جدید دور میں داخل ہونے کے بعد بھی بیشتر مردوں کی عورتوں سے جڑی ذہنیت کی ارتقا کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور وہ اب بھی فرسودہ سوچ میں الجھے ہوئے ہیں، مثلاً اکثر مرد شادی کے معاملے میں پڑھی لکھی خواتین کو ان پڑھ خواتین پر صرف اس لیے فوقیت دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں ان کی اپنی حیثیت بڑھے لیکن وہ ان کے سماجی اور اقتصادی میدانوں میں قدم رکھنے کو معیوب تصور کرتے ہیں۔
اس ذہنی ارتقائی عمل میں رکاوٹ کی وجہ ثقافتی اور فرسودہ روایات کا خاصا عمل دخل ہے، لہٰذا بطور معاشرہ ہمارے لیے اس ارتقائی عمل کے تعطل کو توڑنا اور خواتین کے کردار سے متعلق زاویہ نظر کی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔مسلمان لڑکیوں کی تعلیم سے دوری کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست والدین اور گھر والوں کا عدم تعاون ہے ۔
والدین اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، اس لیے وہ والدین جو کچھ حد تک تعلیم کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں، زیادہ سے زیادہ اپنی بیٹیوں کو گریجویشن تک تعلیم دلوا کر ان کی شادی کی فکر کرنے لگتے ہیں اور کچھ والدین جو سرے سے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں ہوتے یا یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم ان کی بے راہ روی کا سبب ہوگی، ان کی اولین ترجیح اپنی بیٹیوں کے شادی کے فرض سے سبکدوش ہونے کی رہتی ہے۔
لڑکیوں کے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مانع موجود معاشی مسائل بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی بنا پر والدین لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے پاتے، ان کا صرف یہ یقین ہوتا ہے کہ جتنی بھی جمع پونجی ہے اسے خرچ کر کے لڑکوں کو تعلیم دلا دیں تو وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا ہوں گے۔
دیہاتوں اور گاؤں میں رہنے والی طالبات اور والدین کے لیے یہ بھی مسئلہ ہوتا ہے کہ دیہاتی سطح پر اچھے اور معیاری اسکول اور کالج موجود نہیں ہوتے اور والدین اپنی بیٹیوں کو ہاسٹل میں رکھ کر تعلیم دلانے کی ہمت نہیں کر پاتے بعض دفعہ جب ماں باپ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے تیار ہوتے ہیں تو بھائیوں کی نام نہاد ’’غیرت‘‘ یہ گوارا نہیں کرتی کہ ان کی بہنیں، ان سے زیادہ تعلیم حاصل کریں یا پھر گھر سے دور ہاسٹل میں رہیں، بہنوں کا گھر سے باہر کالج اور یونیورسٹی جانے کے مقصد سے نکلنا بھی ان کی نظر میں انتہائی معیوب ترین بات ہوتی ہے۔
تمام لڑکیوں کو ان کے والدین اور سرپرستوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تعلیم صرف روزگار فراہم نہیں کرتی بلکہ یہ آگاہی اور شعور عطا کرتی ہے، اپنی زندگی میں درپیش تمام مسائل کا صحیح حل تلاش کرنے کی ہمت، صلاحیت اور سِمت عطا کرتی ہے۔ تعلیم انفرادیت اور اجتماعیت میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے اس حیثیت سے یہ فرد اور معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے، تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے معاشرہ تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرتا ہے اور خصوصاً عورت کی تعلیم ایک نسل کے اعتقادات و تصورات، روایات و اقدار، تہذیب و تمدن، علوم و فنون، خاندانی پیشہ، رسم و رواج، خواہشات و دلچسپیاں وغیرہ کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں ایک نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں ہم قرون اولیٰ کی خواتین پہ نگاہ ڈالیں تو حضرت عائشہؓ کی عظیم الشان مثال ہمارے سامنے آتی ہے انھوں نے اپنی آنے والی نسلوں پہ یہ احسان کیا کہ رسول اﷲﷺ سے ہر مسئلہ باریک بینی کے ساتھ سیکھ کر ان کے رموز و نکات کو امت تک پہنچایا۔
احادیث کا آپؓ سے زیادہ مروی ہونا، ساتھ ہی ساتھ مختلف علوم میں (جو اُس وقت موجود تھے) آپ کا ماہر ہونا اس بات کی اہمیت کو واضح کرتا ہے کہ اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ لڑکیاں علم کے میدان میں آگے جائیں تاکہ مسلم لڑکی اپنی جنس کو کمزوری بناکر اپنے آپ کو پیچھے نہ رکھیں، اس امت کو اچھی ماؤں کی ضرورت ہیں۔مسلم خواتین نے تعلیم کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے ہیں ایسی خواتین کی طرح آج کی ان لڑکیوں کو بننا ہے تاکہ کل اسلام کا ایک بہتر مستقبل بن سکیں جہاں کامیابیاں ہماری ضمانت ہوں۔
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کانوازشریف انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان
وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کانوازشریف انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
لاہور(آئی پی ایس ) وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے لاہور میں پہلا نوازشریف کے نام سے منسوب انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے اناطولیہ ڈپلومیسی فورم میں تعلیم کی انقلابی طاقت کے عنوان سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر بچہ سکول میں داخل ہو اور سکول میں پڑھتا رہے اور کامیابی حاصل کرے جبکہ انہوں نے فورم میں گرلز ایجوکیشن کے لئے عالمی معاہدہ تشکیل دینے اور باہمی اشتراک کار سے تعلیمی پالیسی، تدریسی حکمت عملی اور فروغ تعلیم کے لئے اقدامات کی تجاویز بھی دیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاست نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے با وقار سفارت کاری کے فروغ کے لئے فرینڈز آف ایجوکیشن کا ویژن بھی سامنے رکھا، ترکیہ کی اعلی یونیورسٹیوں کو پنجاب میں کیمپس قائم کرنے کی دعوت دی گئی۔ وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ ترکیہ کے ادارے پنجاب میں نوجوانوں کے لئے اعلی مراکز قائم کریں، دونوں ممالک کی باہمی شراکت داری اور ایکسچینج پروگرام سے روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں گے، ایسا مستقبل چاہتے ہیں جس پر پاکستان ہی نہیں بلکہ ترکیہ کی آئندہ آنے والی نسلیں بھی فخر کریں۔
مریم نواز نے کہا کہ ہم اجتماعی طور پر ہر وہ کام کرسکتے ہیں جو انفرادی طورپر مشکل نظر آتا ہے، ترک خاتون اول کی قیادت میں اناطولیہ ڈپلومیسی فورم کا انعقاد خوش آئند اور وویمن لیڈر شپ کا کامیاب ماڈل ہے، ہم مل جل کر تمام مسائل کے حل پر قادر ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کامیابی کی داستانوں کی گونج دوسرے ممالک میں بھی سنائی دیتی ہے، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں خاتو ن وزیراعلی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہی ہوں، ہماری تعلیمی پالیسی کی بنیاد انقلاب آفرین اصلاحات ہیں، خواتین اور بچوں کے لئے تعلیم،انصاف، عزت ووقار اور مساوی مواقع ہماری اولین ترجیح ہے۔ وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ میں صوبے میں ایک منفرد طرز حکمرانی چاہتی ہوں جو ہر طرح موثر ہو، معاشرتی نا انصافیاں بچوں سے مکمل صلاحیتوں کے اظہار کا حق چھین لیتی ہیں، ایجوکیشن محض ایک ڈیپارٹمنٹ نہیں بلکہ امید کی روشن کرن کا اظہار ہے۔
مریم نوازشریف کا کہنا تھا کہ ہم نے اصلاحات کا آغاز سکولوں سے کیا، 3بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے محمد نوازشریف اور 3بار وزیراعلی رہنے والے محمد شہبازشریف نے پنجاب میں ترقی او راصلاحات کی ٹھو س بنیاد رکھی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم،صحت،انفراسٹرکچراورسماجی ترقی کے شعبو ں میں محمد نوازشریف اورمحمد شہبازشریف کی شاندار کامیابیاں میرے لئے مشعل راہ ہیں، بحیثیت وزیراعلی تعلیمی اداروں میں عمارتوں کی بہتری ہی نہیں بلکہ روایتی سوچ کو بدلنے کا چیلنج بھی درپیش تھا ، روز بروز بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی اور ایجوکیشن موثر تعلیمی اصلاحات کے متقاضی ہیں۔
وزیراعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پنجاب میں سکول ایجوکیشن ریفارمز کا تاریخ ساز آغاز ہوچکا ہے، پنجاب میں تعلیمی اصلاحات کا مقصد محض خواندگی نہیں بلکہ لرننگ فریڈم اور روشن مستقبل بھی ہے، تعلیمی اصلاحات کو موثر بنانے کے لئے براہ راست خود نگرانی کررہی ہوں، صوبہ بھر کے 4ہزار سے زائد پرائمری سکولوں کو ایلیمنٹری لیول پر اپ گریڈ کیاجا رہا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ پرائمری سکولوں کی ایلیمنٹری اپ گریڈیشن کا مقصد پانچویں جماعت کے بعد بچوں کی تعلیم کا تسلسل ہے، ٹیکنالوجی اور تعلیم کو یکجا کرنے کے لئے 6ہزارسکولوں میں ڈیجیٹل لرننگ روم قائم کئے جا رہے ہیں، بلیک بورڈ، چاک اورڈسٹر کا وقت گزر چکا ہے،اب پنجاب کے طلبہ ڈیجیٹل سکرین کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی سیکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں خود کو پنجاب کی وزیراعلی ہی نہیں بلکہ ایجوکیشن کی سفیرسمجھتی ہوں، گرلز ایجوکیشن کے معاملے میں پنجاب کی ہر طالبہ کی ماں بن کر سوچتی ہوں، میرا مشن ہے کہ غربت، صنف، پسماندہ علاقوں اور معاشرتی رکاوٹ کی وجہ سے کوئی بچہ پیچھے نہ رہ جائے۔
مریم نوازشریف نے کہا کہ دور دراز کے پسماندہ اضلاع میں بچیوں میں غذائی قلت کے سد باب کیلئے سکول نیوٹریشن پروگرام کامیابی سے جاری ہے، غذائی قلت کے مسئلے سے سب سے زیادہ طالبات متاثر ہوتی ہیں، پنجاب کے سکولوں میں غذائی قلت کے شکار بچوں کوروزانہ ملک پیک ملنا خوشی کا باعث ہے-
وزیراعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ تعلیم میں اصلاحات محض نصاب تعلیم یا درسی مواد تک محدود نہیں بلکہ استاد کی قابلیت بھی اہم ہے، سالوں بعد پنجاب میں اساتذہ کی ریگولر بھرتیوں کاآغاز کیاجا رہا ہے، پنجاب میں مکمل شفافیت کے ساتھ میرٹ پر 30ہزار نئے اساتذہ بھرتی کئے جا رہے ہیں، اساتذہ کرام کی ٹریننگ اور نصاب تعلیم کی تیاری کے لئے مستقل ادارہ قائم کیاگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی صدی کے تعلیمی اہداف سے ہم آہنگی کے لئے اساتذہ کی ٹریننگ اورنصاب پر توجہ دی جا رہی ہے، پنجاب میں تعلیمی اصلاحات کا مرکز و محور صرف اور صرف طالب علم ہیں، ہر طالب علم کی انفرادی ضروریات کو مد نظر رکھ کر لرننگ ماڈل متعارف کرایا جا رہاہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے ہر طالب علم کی استعداد کا ر کے مطابق ایجوکیشنل پلیٹ فارم پر کام کیا جارہاہے، 3بار وزیراعظم منتخب ہونے والے محمد نوازشریف کے نام سے منسوب انٹرنیٹ سٹی بنایا جا رہاہے، پنجاب کے دل میں پاکستان کی پہلی آرٹیفشل انٹیلی جنس یونیورسٹی بھی قائم کی جا رہی ہے،
وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ 2طالبہ کی کہانی نے مجھے ذاتی طورپر بہت متاثر کیا ، کم عمری میں بیائی جانے والی قصور کے گاں کی ندا کے حصول علم کی خواہش پر مبنی خط نے ہونہار سکالر شپ شروع کرنے پر آمادہ کیا، ندا او راس کا کم عمر شوہر تعلیمی اخراجات اٹھانے سے قاصر تھے مگر تعلیم کے خواب بد ستور دیکھتے رہے، ہونہار سکالر شپ ملنے پر ندا یونیورسٹی تک پہنچنے والی اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے 50ہزار محنتی اور قابل طلبہ کے لئے ہونہار سکالر شپ پروگرام قائم کیا گیاہے، ہونہار سکالر شپ کا 50فیصد حصہ طالبات کو ملنے پر فخر محسوس کرتی ہوں، بیٹیاں صرف طالبات نہیں بلکہ مستقبل کی رہنما، سائنسدان اور قوم کی معمار ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے اکرم کے والد کو ایک سمسٹر کی فیس ادا کرنے کے لئے آمدن کا واحد ذریعہ بھینس بیچنا پڑی، محمد اکرم کے والد کے پاس دوسرے سمسٹر کی فیس ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے، ہونہار سکالر شپ کی بدولت اکرم جیسے طلبہ تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔
وزیراعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ ہونہار سکالر شپ حاصل کرنے والے 2ہزار طلبہ ایسے ہیں جو والد کی شفقت کے سائے سے محروم ہوچکے ہیں، ہونہار سکالر شپ پر پڑھنے والے 91بچوں کے والدین حیات نہیں ہیں، ہونہار سکالر شپ محض اعدادوشمار نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں ناقابل تصور درد ناک داستانیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں درپیش چیلنجز محض سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ ملبے تلے بچوں کو تلاش کرنے والی فلسطینی ماں کے بارے میں سوچتے ہیں، ہمیں سکول سے محروم کئے جانے والی افغان بچی اور سوڈانی مہاجر پر بھی سوچنا ہے، تعصب کی زنجیروں کو توڑنے والے کشمیری بچے ہمارے ضمیر کا امتحان اور انسانیت کا بحران ہیں، ترکیہ نے بچوں کی تعلیم کے بارے میں سوچنے کا قابل قدر موقع فراہم کیا۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ ترک خاتون اول آمنہ اردوان نے با وقار سفارت کاری کے ذریعے بچوں کے بارے میں با ور کرایا، میں اور اہل پنجاب مشکلات کا شکار بچوں اور خواتین کی اخلاقی اعانت کا اعادہ کرتے ہیں، ہم اقتدار کے ایوانوں اور سڑکوں پر بے بس اور بے کس طبقات کی آواز بنیں گے۔
مریم نواز سے مندوبین کی ملاقاتیں
دوسری جانب وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف ڈپلومیسی فورم 2025 فورم کے تحت بین الاقوامی کانفرنس میں مرکز نگاہ بن گئیں ، دنیا بھر سے کانفرنس میں شریک رہنماں، سفارت کاروں اور مندوبین نے تقریر کے بعد مریم نواز شریف سے ملاقات کی۔
مندوبین نے وزیراعلی مریم نواز کے خواتین اور بچوں کی تعلیم، صحت اور معاشی ترقی کے لئے اقدامات کو مثالی قرار دے دیا اوران کے ویژن کو سراہا جبکہ ان کی تقریر کو انتہائی متاثر کن قرار دیا۔
وزیراعلی پنجاب سے گفتگو کرتے ہوئے مندوبین کا کہنا تھا کہ آپ کے وژن اور پالیسیز سے بڑی تبدیلی آئے گی، آپ کے تجربات سے سیکھنا چاہتے ہیں، بعض مندوبین نے مریم نواز کو اپنی تجاویز بھجوانے کی بھی درخواست کی۔
وزیراعلی مریم نواز نے مندوبین سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی تجاویز خواتین اور بچوں کی بہتری کی عالمی تحریک کے حوالے سے بڑا سنگ میل ثابت ہوگا۔