Express News:
2025-01-18@10:48:05 GMT

مسلم ممالک لڑکیوں کی تعلیم کے لیے پرعزم

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

 مذہبی رہنما تعلیم کے اسلامی اصولوں کو اجاگر کرنے اور عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے اپنا فریضہ کماحقہ ادا کریں۔اس امر کا اعلان دو روزہ عالمی اسکول گرلز کانفرنس کے اختتام پر ’اعلانِ اسلام آباد‘ کے نام سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کیا گیا۔ کانفرنس کا مقصد مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لینا اور تعلیمی مواقع پیدا کرنا تھا۔

مسلم دنیا کو درپیش سب سے بڑا چیلنج تعلیم نسواں کے حوالے سے اختیار کیے ہوئے نامناسب رویے ہیں، بدقسمتی سے بعض مسلم معاشروں میں پہلے تو لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے پر نافذ کی جانے والی خود ساختہ پابندیاں ہیں جن کا اگرچہ اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، مگر انھیں عین اپنی مذہبی سوچ سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے لڑکیوں پر یہ ظلم روا رکھا جاتا ہے،   بدقسمتی سے اسلامی ممالک میں غالب مائنڈ سیٹ ہی لڑکیوں کی تعلیم اور گھر سے باہر کام کرنے کا مخالف ہے اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک خوشگوار تبدیلی کے عمل سے نہیں گزر سکتا جب تک وہاں عوامی رائے اور سوچ و فکر تبدیل نہ ہوجائے۔

عام رائے یا سوچ کے دباؤ کی وجہ سے خواتین کو سماجی اور اقتصادی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا موقع نہیں ملتا۔ تیسری دنیا خصوصاً ایشیا اور افریقہ میں خواتین کو صدیوں سے تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آئین پاکستان کسی بھی امتیازی رویے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، مگر اصل مسئلہ قوانین کے بننے سے زیادہ ذہنی سطح یا مائنڈ سیٹ کا ہے۔

ہمارے ہاں تو عورتوں کی بڑی تعداد قرآن کی بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے اب یہاں ہم سائنسی اور تحقیقی تعلیم کی بات چھوڑ ہی دیں۔طالبان، افغانستان میں دوسری بار برسر اقتدار آئے ہیں اور انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم پرپابندی عائد کردی ہے، یہ پابندی صرف لڑکیوں کے حقوق سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ تمام افغان لوگوں کے لیے ایک بحرانی کیفیت ہے۔ ہزاروں اساتذہ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ امدادی عملہ بھی بے روزگار ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے سے مالی طور پر فائدہ اٹھانے والے نجی ادارے اور کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ افغانستان کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور لوگوں کی آمدن کم ہوتی جا رہی ہے۔

یونیسیف کا کہنا ہے کہ خواتین کو ملازمتوں سے باہر رکھنے کے نتیجے میں ملک کی جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ افغانستان نے عالمی سطح کی منعقدہ کانفرنس میں شرکت نہیں کی ہے۔ اسی طرح مسلم افریقی ممالک سمیت یمن میں ایسے نام نہاد اسلامی عناصر قابض ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ ہیں۔

والدین کے عدم تعاون کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی ضرورت و اہمیت سے ان کی ناواقفیت اور لاشعوری کی بنا پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کئی ایسے گھرانے جو اپنے آپ کو کٹر مذہبی سمجھتے ہیں یا یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ اسلامی قوانین کی پابندی کرنے والے ہیں وہ لڑکیوں کے معاملے میں سراسر جاہلیت کا ثبوت دیتے ہیں اور گھر کی حد تک اپنی بچیوں کا ناظرہ قرآن اور چند دینی امور کی تعلیم دے کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری مکمل کر لی ہے۔

آج دنیا ترقی کے جن مدارج پر ایستادہ ہے ان کے لیے بنیادی ضرورت معاشروں کو اعلیٰ تعلیم سے ہمکنار کرنا ہی سمجھا جاتا ہے، یہ نہایت خوش آیند بات ہے کہ ماضی کی بہ نسبت آج مسلمانوں میں اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے لیکن آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں وہ دلچسپی، وہ خوشی اور سرگرمی والدین یا لڑکیوں کے سرپرستوں کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملتی جو کہ لڑکوں کے معاملے میں نظر آتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد کی کئی دہائیوں میں ان ادوار کی حکومتوں نے تعلیم نسواں تو ایک طرف، سرے سے تعلیم کے فروغ کی ضرورت کا احساس ہی نہیں کیا اور سالانہ میزانیوں میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص رقم کبھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر رکھنے پر بھی توجہ نہیں دی، اس حوالے سے ان با اثر جاگیرداروں، خوانین، سرداروں اور وڈیروں کا بڑا اہم کردار رہا ہے جو اپنے زیر اثر علاقوں میں تعلیم عام ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں بلکہ اب بھی سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں اکثر وائرل ہو جاتی ہیں جہاں دروازوں پر اسکول، مدرسہ وغیرہ کے بورڈ نصب ہوتے ہیں جب کہ اندر ان علاقوں کے با اثر افراد کے گدھے بندھے ہوئے نظر آتے ہیں، ایسی صورت میں تعلیم نسواں کی کتنی اور کیا اہمیت رہ جاتی ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تعلیم کی اہمیت و افادیت کے حق میں بلند آہنگ تقریریں کرنے والوں کو ہی دینا چاہیے۔

دراصل لڑکیوں کی سماجی حیثیت میں بلندی ہی ان کی اقتصادی سرگرمیوں میں شرکت کی صلاحیت، مارکیٹوں تک رسائی اور اپنے پیداواری وسائل پر ان کے اختیار کو بڑھاتی ہے۔ صنعتی اور جدید دور میں داخل ہونے کے بعد بھی بیشتر مردوں کی عورتوں سے جڑی ذہنیت کی ارتقا کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور وہ اب بھی فرسودہ سوچ میں الجھے ہوئے ہیں، مثلاً اکثر مرد شادی کے معاملے میں پڑھی لکھی خواتین کو ان پڑھ خواتین پر صرف اس لیے فوقیت دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں ان کی اپنی حیثیت بڑھے لیکن وہ ان کے سماجی اور اقتصادی میدانوں میں قدم رکھنے کو معیوب تصور کرتے ہیں۔

اس ذہنی ارتقائی عمل میں رکاوٹ کی وجہ ثقافتی اور فرسودہ روایات کا خاصا عمل دخل ہے، لہٰذا بطور معاشرہ ہمارے لیے اس ارتقائی عمل کے تعطل کو توڑنا اور خواتین کے کردار سے متعلق زاویہ نظر کی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔مسلمان لڑکیوں کی تعلیم سے دوری کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست والدین اور گھر والوں کا عدم تعاون ہے ۔

والدین اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، اس لیے وہ والدین جو کچھ حد تک تعلیم کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں، زیادہ سے زیادہ اپنی بیٹیوں کو گریجویشن تک تعلیم دلوا کر ان کی شادی کی فکر کرنے لگتے ہیں اور کچھ والدین جو سرے سے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں ہوتے یا یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم ان کی بے راہ روی کا سبب ہوگی، ان کی اولین ترجیح اپنی بیٹیوں کے شادی کے فرض سے سبکدوش ہونے کی رہتی ہے۔

لڑکیوں کے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مانع موجود معاشی مسائل بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی بنا پر والدین لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے پاتے، ان کا صرف یہ یقین ہوتا ہے کہ جتنی بھی جمع پونجی ہے اسے خرچ کر کے لڑکوں کو تعلیم دلا دیں تو وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا ہوں گے۔

دیہاتوں اور گاؤں میں رہنے والی طالبات اور والدین کے لیے یہ بھی مسئلہ ہوتا ہے کہ دیہاتی سطح پر اچھے اور معیاری اسکول اور کالج موجود نہیں ہوتے اور والدین اپنی بیٹیوں کو ہاسٹل میں رکھ کر تعلیم دلانے کی ہمت نہیں کر پاتے بعض دفعہ جب ماں باپ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے تیار ہوتے ہیں تو بھائیوں کی نام نہاد ’’غیرت‘‘ یہ گوارا نہیں کرتی کہ ان کی بہنیں، ان سے زیادہ تعلیم حاصل کریں یا پھر گھر سے دور ہاسٹل میں رہیں، بہنوں کا گھر سے باہر کالج اور یونیورسٹی جانے کے مقصد سے نکلنا بھی ان کی نظر میں انتہائی معیوب ترین بات ہوتی ہے۔

تمام لڑکیوں کو ان کے والدین اور سرپرستوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تعلیم صرف روزگار فراہم نہیں کرتی بلکہ یہ آگاہی اور شعور عطا کرتی ہے، اپنی زندگی میں درپیش تمام مسائل کا صحیح حل تلاش کرنے کی ہمت، صلاحیت اور سِمت عطا کرتی ہے۔ تعلیم انفرادیت اور اجتماعیت میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے اس حیثیت سے یہ فرد اور معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے، تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے معاشرہ تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرتا ہے اور خصوصاً عورت کی تعلیم ایک نسل کے اعتقادات و تصورات، روایات و اقدار، تہذیب و تمدن، علوم و فنون، خاندانی پیشہ، رسم و رواج، خواہشات و دلچسپیاں وغیرہ کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں ایک نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں ہم قرون اولیٰ کی خواتین پہ نگاہ ڈالیں تو حضرت عائشہؓ کی عظیم الشان مثال ہمارے سامنے آتی ہے انھوں نے اپنی آنے والی نسلوں پہ یہ احسان کیا کہ رسول اﷲﷺ سے ہر مسئلہ باریک بینی کے ساتھ سیکھ کر ان کے رموز و نکات کو امت تک پہنچایا۔

احادیث کا آپؓ سے زیادہ مروی ہونا، ساتھ ہی ساتھ مختلف علوم میں (جو اُس وقت موجود تھے) آپ کا ماہر ہونا اس بات کی اہمیت کو واضح کرتا ہے کہ اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ لڑکیاں علم کے میدان میں آگے جائیں تاکہ مسلم لڑکی اپنی جنس کو کمزوری بناکر اپنے آپ کو پیچھے نہ رکھیں، اس امت کو اچھی ماؤں کی ضرورت ہیں۔مسلم خواتین نے تعلیم کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے ہیں ایسی خواتین کی طرح آج کی ان لڑکیوں کو بننا ہے تاکہ کل اسلام کا ایک بہتر مستقبل بن سکیں جہاں کامیابیاں ہماری ضمانت ہوں۔

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے

افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

چھوٹے، درمیانے کاروبار کو سہولت کیلئے پرعزم، وزیراعظم: یوتھ پروگرام قرض 15 لاکھ کرنے کی ہدایت

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے یوتھ پروگرام کے تحت قرض کی رقم 5 لاکھ سے بڑھا کر 15 لاکھ روپے کرنے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو دی جانے والی سہولیات کو بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کے ماڈلز کا اطلاق یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایس ایم ایز معیشت کی ترقی میں کلیدی اہمیت کی حامل  ہیں۔ حکومت نوجوانوں کو کاروبار کی ترغیب دینے کے لئے سہولیات فراہم کرے گی۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) سے متعلق  جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ انہوں نے  چھوٹے پیمانے کے کاروبار میں خواتین  کیلئے خصوصی پیکیج تشکیل دے کر جلد پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت شہریوں کو   کاروبار کی ترغیب دینے کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو سہولت دینے کیلئے پر عزم ہے۔ دنیا بھر میں ایس ایم ایز معیشت کی ترقی میں کلیدی اہمیت  کی حامل ہیں۔  ایس ایم ایز کو فروغ دے  کر  ملکی برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ حکومت نوجوانوں اور خواتین انٹرپرینیورز کو اس قدر با اختیار بنانے کے لئے کوشاں ہے کہ وہ نہ صرف خود روزگار کمائیں بلکہ روزگار کے مزید مواقع پیدا کریں۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں ایس ایم ایز کی ترقی و سہولت کے لئے حکومتی اقدامات پر پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ معیشت کی ترقی آئی ٹی کی ترقی سے منسلک ہے۔ حکومت کی سرمایہ کار دوست پالیسیوں کے نتیجے میں  آئی ٹی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں بین الاقوامی کمپنوں کی سرمایہ کاری سے نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع بڑھیں گے۔  بین الاقوامی کمپنی مینزس  ایوی ایشن کی پاکستان میں آمد سے ملک میں نئی ٹیکنالوجی کو فروغ ملے گا۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو یہاں  بین الاقوامی شہرت یافتہ لاجسٹکس کمپنی مینزس ایوی ایشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فلپ جوئینگ کی زیر قیادت 6 رکنی وفد سے گفتگوکرتے ہوئے کیا جس نے  وزیراعظم سے یہاں ملاقات کی۔ ملاقات میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ شریک تھے۔ وزیراعظم نے مینزس ایوی ایشن  کی طرف سے پاکستان میں آئی ٹی انفراسٹرکچر اور سہولت ڈیسک قائم کرنے کا خیر مقدم کیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں مینزس  ایوی ایشن (Menzies Aviation) جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنی کی سروسز کا آغاز ہماری مستحکم معیشت میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے  لئے  کاروبار کی لامحدود استعداد ہونے کی سند ہے۔ وزیراعظم نے مینزس ایوی ایشن کے پاکستان میں پہلے دفتر کے قیام کی تختی کی نقاب کشائی کی۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے غزہ میں جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے اپنے موقف کا اعادہ کرتا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل انتہائی اہم ہے۔ امید ہے کہ  جنگ بندی کا مکمل احترام کیا جائے گا۔  علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ضلع خیبر کے علاقہ تیراہ میں گذشتہ چند روز کے دوران فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو شاباش دی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پوری ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے۔ ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پر عزم ہیں۔ دریں اثناء وزیراعظم محمد شہباز شریف نے محصولات سے متعلق تمام کیسز کو جلد سے جلد نمٹانے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس محصولات سے متعلق کیسز میں ایف بی آر کی جانب سے اچھی شہرت کے حامل وکلاء  کی خدمات حاصل کی جائیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ایف بی آر کے محصولات کے حوالے سے زیر التواء کیسز پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ محصولات سے متعلق تمام کیسز کو جلد سے جلد نمٹانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ ایف بی آر کے نظام میں تیزی سے اصلاحات نافذ کر رہے ہیں۔ الحمد للہ ایف بی آر میں اصلاحات کے مثبت نتائج آنے  کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعظم نے محصولات کے حوالے سے کیسز کا فرانزک آڈٹ کرانے کی بھی ہدایت کی۔  وزیراعظم نے کہا کہ ایسے افسران جو کمزور یا غلط بنیادوں پر کیسز بنانے میں ملوث پائے گئے ا ن کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور گر یناڈا عملی انداز میں تعاون کرنے کے لیے پرعزم ہیں، وزیر اعظم گریناڈا
  • اسلام آباد کانفرنس کا نشانہ امارات اسلامیہ افغانستان تھی،تنظیم اسلامی
  • قومیں اتحاد سے بنتی، ثقافت بھول جانیوالے ممالک گم ہو جاتے ہیں: بلاول
  • چینی حکومت سائبر جرائم کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے پرعزم ہے، وزارت خارجہ
  • مصر میں نوجوان نے ایک ہی دن میں تین لڑکیوں سے شادی کر کے سب کو حیران کردیا
  • نوجوان نے ایک ہی دن میں تین لڑکیوں سے شادی کرلی
  • چھوٹے، درمیانے کاروبار کو سہولت کیلئے پرعزم، وزیراعظم: یوتھ پروگرام قرض 15 لاکھ کرنے کی ہدایت
  • لڑکیوں کی تعلیم اور قومی ترجیحات کا تعین
  • بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟
  • مسلم ممالک کے خلاف امریکہ، اسرائیل، انڈیا کی شیطانی تثلیث بڑا خطرہ بن گئی ہے، لیاقت بلوچ