Express News:
2025-01-18@10:54:43 GMT

’’تلخیوں کا بھاری بستہ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

کیا آپ کے خیال میں بہت زیادہ سوچنا ٹھیک ہے؟ یہ بات بہرکیف درست ہے کہ زیادہ سوچنا  ہماری خوشیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

زیادہ سوچنا صرف دباؤ، بے چینی اور غم کا سبب بنتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھومتا پہیا ہے، جو آپ کو سوائے پریشانی کے کچھ نہیں دے سکتا، اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے بہ جائے اس لمحے کا لطف اٹھائیں، زیادہ سوچنے والے اکثر اپنے دماغ ہی میں پھنسے رہتے ہیں، پچھلے واقعات کو اپنے ذہن میں دُہرا کر یا آنے والے واقعات کی پیشں گوئی کرتے رہتے ہیں۔

وہ حقیقت میں موجودہ لمحات میں نہیں جیتے۔ اس لیے کوشش کریں کہ جیسے آپ نے زیادہ سوچنا سیکھا، ویسے ہی آپ اسے چھوڑ بھی تو سکتے ہیں۔ اپنے ذہن پر توجہ دیں اس کی پرکھ کریں۔ ذہن سازی ایک ایسا طاقت وَر آلہ ہے، جو زیادہ سوچنے سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ آپ کو موجودہ لمحے میں واپس لاتا ہے اور آپ کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ آپ کے خیالات حقیقت نہیں ہیں۔

منفی سوچ بھی ایک ایسی عادت ہے، جو آپ کی خوشی کو چھین سکتی ہے، جو لوگ مثبت رویہ اپناتے ہیں، وہ زیادہ مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔

 

یہ کہنا نہیں ہے کہ وہ زندگی کی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہیں، لیکن وہ ان کا سامنا مثبت طریقے سے کرتے ہیں۔ اب یہ بھی نہیں کہ آپ کو ہمیشہ مثبت رہنا چاہیے، بس آپ کو ہر صورت میں چمک دار اور روشن پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زندگی کو مسکراتے ہوئے گزارنے کی کوشش کریں۔ آپ کی مسکراہٹ بہت کچھ بدل سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی کے بارے میں مثبت رویہ ہماری خوشی پر نمایاں اثر ڈالتا ہے۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ زندگی میں ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، یہ دنیا کے معمول کا ایک حصہ ہے، لیکن اب دیکھنا ہے کہ ہم ان غلطیوں سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں اور نقائص پر بہت زیادہ تنقید کرتے ہیں۔ ہر غلطی یا ناکامی پر اپنے آپ کو مسلسل ملامت کرتے رہتے ہیں۔

 

بلکہ کوشش کریں کہ اپنی غلطی سدھاریں، نہ کہ خود کو ملامت کریں۔ اپنے آپ کے ساتھ وہی مہربانی کیا کریں، جو آپ اپنے قریب ترین دوست کے ساتھ کرتے ہیں۔ آئیے، خود پر ترس نہ کھائیے، بلکہ مثبت ہمدردی کریں، اپنے آپ کو نئی ہمت دیں اور اپنی غلطیوں کو بغیر کسی فیصلے کے تسلیم کریں۔

کیا آپ نے کبھی اپنے آپ کو ماضی کے بارے میں پچھتاتے یا مستقبل کے بارے میں فکر کرتے ہوئے پایا ہے؟ یہ ایک عام عادت ہے، جو ہم میں سے بہت سے لوگوں میںپائی جاتی ہے، لیکن یہ ہماری خوشی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے’’ماضی میں نہ رہو، مستقبل کے بارے میں خواب نہ دیکھو، اپنے دماغ کو موجودہ لمحے پر مرکوز کرو!‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر توجہ مرکوز کرنا۔ یہ آپ کے ماضی کو تسلیم کرنے، اپنے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنے، لیکن موجودہ لمحے میں جینے کے بارے میں ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ تکلیف سے بچنا چاہتا ہے۔خوشی کی طرف ایک اہم قدم یہ ہے کہ ہم تکلیف کا سامنا کرنا سیکھیں، چاہے وہ ایک مشکل گفتگو ہو، ایک سخت ورزش ہو، یا کسی قسم کے کٹھن جذبات کا سامنا ہو، جس سے ہم بچنا چاہ رہے ہوں۔

تلخیوں یا ماضی کے دردوں کو سینے میں بٹھانا ایک ایسا بھاری بستہ لے جانے کے مترادف ہے، جسے آپ ہر جگہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ آپ کو غیر ضروری طور پر وقت سے پہلے ہی بوجھل کر دیتا ہے اور آپ کو حقیقی خوشی کا تجربہ کرنے سے روکتا ہے۔ آئیے ہم ماضی کی تلخیوں کو ترک کرنے کا فیصلہ کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ ہوا اسے بھول جائیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ تلخی کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش کریں۔

 زندگی کو اتنا سنجیدہ لینا بھی ٹھیک نہیں کہ آپ موجودہ خوشیوں کو نظر انداز کر دیں۔ زندگی سے لطف اٹھانے کا سادہ اور عملی طریقہ یہ ہے کہ آپ تفریح کے لیے وقت نکالیں۔ چاہے یہ دوستوں کے ساتھ ہو یا اپنے خاندان کے ساتھ، یا اپنے کسی پالتو جانور کے ساتھ کھیلنا ہو یا کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر اپنی پسند کی کتاب پڑھنا ہو۔ لہٰذا، اپنے لیے نئے سال کی خوشیوں کو خوش آمدید کہیے اور پرسکون ماحول میں ان سے لطف اٹھایے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بارے میں کوشش کریں ہے کہ ا پ کرتے ہیں اپنے ا پ کے ساتھ

پڑھیں:

علماء نوجوان نسل کو الحادی فکر سے بچائیں، ڈاکٹر راغب نعیمی

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ ہم حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کیساتھ کھڑے ہیں اور گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت کیخلاف جدوجہد میں اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرنیوالوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہ علماء نوجوان نسل کو الحادی فکر سے بچائیں۔ دین کا درست اور حقیقی تصور پیش کرنا آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔بطور مسلمان ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلامی اقدار اور اخلاقی اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ علماء کو نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونیوالے سوالات کا جواب دینے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ فارغ التحصیل طلبہ اور علماء اپنے اند ر علمی مضبوطی اور روحانیت پیدا کریں۔ ہم حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کیساتھ کھڑے ہیں اور گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت کیخلاف جدوجہد میں اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرنیوالوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ نعیمیہ میں سالانہ ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ختم بخاری شریف کا آخری سبق شیخ الحدیث علامہ غلام رسول قاسمی نے پڑھایا۔ تقریب میں شیخ الحدیث مفتی عبدالعلیم سیالوی، مفتی انورالقادری، مولانا غلام نصیر الدین چشتی، مولانا محبوب احمد چشتی، ڈاکٹر سلیمان قادری سمیت دینی اساتذہ و طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ جامعہ نعیمیہ میں سالانہ ختم بخاری شریف کی خوشی میں منعقد کی جا رہی ہے۔ یہ دن ہمارے لیے خوشی کا دن ہے۔ بخاری شریف کا مطالعہ کرنے سے ہم نہ صرف دین کی حقیقتوں کو سمجھتے ہیں بلکہ ہم اپنے اخلاق، عبادات، معاملات اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کی راہیں بھی تلاش کرتے ہیں۔ اس کتاب میں موجود احادیث ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور رہنمائی کا خزانہ ہیں۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم اپنی دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ جامعہ نعیمیہ ہمیشہ سے علم کے علمبردار رہا ہے اور یہاں کے اساتذہ اور طلبہ نے اس بات کو حقیقت کا روپ دیا ہے کہ اسلامی تعلیمات اور دینی علوم کی حقیقت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے دین کا اصل مقصد ہے۔ آج کے اس ختم بخاری شریف کی محفل میں میں اپنے تمام اساتذہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے طلبہ کو بخاری شریف جیسے عظیم کتاب کے علم سے آراستہ کیا، بخاری شریف کی تکمیل نہ صرف ایک علمی کامیابی ہے بلکہ یہ ہماری روحانی ترقی کا ایک اہم سنگ میل بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دینی طلبہ کو ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور نیا سیکھنے کا جذبہ برقرار رکھنا ہوگا۔آپ کو نہ صرف اپنے علم کا استعمال کرنا ہے، بلکہ اپنے اخلاق، کردار اور انسانیت کے اصولوں پر بھی عمل کرنا ہے۔ آپ جہاں بھی جائیں، اپنے وطن، اپنے معاشرتی حلقے اور انسانیت کی خدمت کریں۔ اپنے کردار اور اخلاق کو ہمیشہ بلند رکھیں۔ دنیا میں آپ کی کامیابی کا حقیقی معیار آپ کی نیک نیتی، ایمانداری اور انسانیت کے اصولوں پر عمل کرنے سے ہی طے ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں یخ بستہ ہوائیں؛ شہر قائد کا موسم کب تک سرد رہے گا؟
  • بھارت میں معیارِ زندگی پاکستان سے بہتر ہے، وہاں خوشی زیادہ ہے: دیپک پروانی
  • اروشی روتیلا نے سیف علی خان پر حملے سے متعلق اپنے بیان معافی مانگ لی
  • مدینہ کی ریاست میں کیا ایسا ہوتا ہے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے فائدہ لیں؟،جاوید لطیف
  • تنہا زندگی کے مثبت و منفی پہلو
  • دنیا کو بتانا چاہتے ہیں عمران خان نے کوئی جرم نہیں کیا، ہائیکورٹ میں اپیل کریں گے، بیرسٹرگوہر
  • علماء نوجوان نسل کو الحادی فکر سے بچائیں، ڈاکٹر راغب نعیمی
  • ہائے موت،تجھے موت ہی آئے
  • وزیر اعلیٰ سندھ اولمپک اور اسپورٹس ڈپارٹمنٹ کا قبلہ درست کریں، لال بلوچ
  • عالمی بینک کے 20ارب ڈالر کے وعدے کا خیر مقدم کرتے ہیں‘وزیراعظم