ذہنی دباؤ سے تنہائی تک ۔۔۔
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
وہ لاشعوری خیالات، جن پر ہماری اپنے آپ سے گفتگو انتہائی منفی، یا نقصان دہ ہو رہی ہوتی ہے، اور جس کی وجہ سے ہماری خود اعتمادی، مزاج اور ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، دراصل منفی خودکلامی کہلاتی ہے۔
منفی خودکلامی ایک ایسا خاموش زہر ہے، جو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو آہستہ آہستہ تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے، یہ ایک خطرناک رویہ ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ وہ عموماً معاشرتی دباؤ، غیر حقیقی خوب صورتی کے معیارات، اور اپنی ذات کے حوالے سے سخت حساس ہوتی ہیں۔
یہ رویہ ان کے دماغ کو کمزور کرتا ہے، ان کے جذبات کو مجروح کرتا ہے، ان کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے، اور ان کے معاشرتی تعلقات کو متاثر کرتا ہے، لیکن ذہنی صحت پر منفی خودکلامی کے اثرات سب سے پہلے اور سب سے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ جب کوئی لڑکی بار بار اپنے آپ پر تنقید کرتے ہوئے خود کو ناکام قرار دیتی ہے، تو یہ عمل اس کی خود اعتمادی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ وہ اپنے بارے میں مسلسل سوچتی رہتی ہے کہ میں کبھی کچھ صحیح نہیں کر سکتی۔
میں ناکام ہوں یا سوچ کا یہ پہلو، کہ یہ کام کبھی مکمل نہیں ہوگا۔ مجھے پتا ہے کہ میں مقررہ وقت تک یہ نہیں کر سکوں گی۔ اور یوں وہ اپنی زندگی میں ذرا سی مشکل آنے پر حواس باختہ ہو جاتی ہے۔ اور ذہنی طور پر شدید الجھ کر رہ جاتی ہے۔ یہ خیالات رفتہ رفتہ اس کی شخصیت کو دباؤ کا شکار کر کے اس میں احساسِ کم تری کو جنم دیتے ہیں، جو شدید ذہنی تناؤ اور اضطراب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
اس کے نتیجے میں، ایسی لڑکیوں میں فیصلہ سازی کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے اور انھیں لگتا ہے کہ اگر ’’میں نے ذرا سی بھی غلطی کی تو سب کچھ برباد ہو جائے گا یا اس خوف ناک سوچ کا پیدا ہونا کہ میں ہمیشہ غلط فیصلے ہی کرتی ہوں!‘‘ ان کا خود پر سے اعتماد ختم کرنے کا باعث بن جاتا ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں دوسروں کی رائے پر انحصار کرنے لگتی ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کوئی کہہ دے کہ تم پر یہ رنگ اچھا نہیں لگتا تو وہ رنگ چاہے کتنا ہی من پسند کیوں نہ ہو، وہ پہننا چھوڑ دیتی ہیں، کیوں کہ انھیں اپنی ہی ذاتی پسند و ناپسند پر یقین نہیں رہتا۔ یہ مسلسل ذہنی دباؤ ان سے دل کا اطمینان بھی چھین لیتا ہے۔ وہ دوسروں کی رائے کے مطابق خود کو ڈھال تو لیتی ہیں، مگر اندر ہی اندر ناخوش بھی رہتی ہیں اور پھر اسی خوف اور غیر یقینی کیفیت کے زیر اثر ان کی زندگی گزرتی ہے، جو باعثِ تکلیف ہے۔
جذباتی طور پر ’منفی خودکلامی‘ کسی بھی لڑکی کو کمزور بنا دیتی ہے اور اسے اپنے جذبات پر قابو پانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ جب کوئی لڑکی اپنی غلطیوں کو بار بار یاد کرتی ہے، تو اس کی جذباتی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ وہ روزمرہ کی معمولی غلطیوں کو اپنی ناکامیاں تصور کرتے ہوئے خود پر مسلط کر لیتی ہے۔
جس کی وجہ سے مایوسی اور افسردگی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ جذباتی عدم توازن لڑکی کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے کام یابی یا خوشی کی مستحق نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں، وہ اپنے تعلقات اور دوستیوں میں مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔
جسمانی صحت پر بھی منفی خودکلامی کے اثرات کم نہیں ہوتے۔ مستقل اور مسلسل تناؤ اور پریشانی کا اثر اس کے جسم پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ کی طویل مدتی موجودگی ہمارے جسم میں ہارمون کے نظام کو متاثر کرتی ہے، جس کی وجہ سے مختلف قسم کے جسمانی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں، جیسے کہ سر درد، پٹھوں میں کھچاؤ، یا ہاضمے کی خرابی۔ اس کے علاوہ، یہ تناؤ نیند کی کمی کا باعث بن سکتا ہے، جو جسمانی صحت کو مزید خراب کر دیتا ہے۔ جب کوئی لڑکی مسلسل منفی خیالات کی وجہ سے جسمانی سرگرمیوں سے دور رہتی ہے، تو اس کی صحت پر مزید منفی اثرات پڑتے ہیں، اور وہ چاق و چوبند رہنے کے بہ جائے سستی کاہلی اور غیر فعالی کا شکار ہو سکتی ہے۔
معاشرتی معاملات میں بھی منفی خودکلامی لڑکی کی کارکردگی اور سماجی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جو لڑکی ہر وقت اپنی صلاحیتوں پر شبہ ہی کرتی رہتی ہے، وہ دوسروں کے ساتھ تعلقات بنانے یا انھیں برقرار رکھنے میں مشکلات محسوس کرتی ہے۔ وہ اپنی خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے سماجی تقریبات یا اپنی ہم عمر سہیلیوں کے گروپ میں شامل ہونے سے کتراتی ہے اور تنہائی پسند ہو جاتی ہے، یہ عدم شرکت اسے مزید اپنی ہی ہم عصر لڑکیوں میں ناپسندیدگی کی طرف دھکیل دیتی ہے، جس سے وہ خود کو مزید الگ تھلگ محسوس کرنے لگتی ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے قریبی دوستوں اور خاندان سے دور ہو جاتی ہیں، جو کہ اس کی جذباتی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
پیشہ ورانہ زندگی میں، منفی خودکلامی لڑکی کو ترقی کرنے سے روک سکتی ہے۔ وہ اپنی قابلیت اور صلاحیتوں پر شک کرتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار، دوسروں کے سامنے کرنے سے ہچکچاتی رہتی ہے۔ اس کا اثر اس کی کارکردگی اور اعتماد پر پڑتا ہے، اور وہ ان اہم مواقعے کو گنوا دیتی ہیں، جن سے وہ اپنی صلاحیتوں کو ثابت کر سکتی تھی۔ وہ جتنی بھی جان توڑ محنت کر لے اسے شک ہی رہتا ہے کہ وہ کام یاب نہیں ہو سکے گی، یہی وجہ ہے کہ ذرا سی ناکامی دیکھتے ہی وہ ہمت ہار جاتی ہے۔
منفی خودکلامی کے اس تسلسل کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ لڑکیاں اپنی منفی سوچ کو چیلنج کرنا سیکھیں۔ انھیں اپنی کام یابیوں کو یاد رکھنا چاہیے اور خود کو یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ بھی کام یاب اور خوش رہنے کی مستحق ہیں۔ مثبت خودکلامی کا آغاز کرنے کے لیے، لڑکیاں چھوٹے چھوٹے جملے جیسے ’میں یہ کر سکتی ہوں‘ یا ’میں قابل ہوں‘ کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی سوچ کو مثبت انداز میں ڈھالنے کے لیے مختلف مشقیں اور مراقبے کی تیکنیک کو اپنانا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
معاشرتی طور پر ایک مثبت اور معاون ماحول لڑکیوں کی ذہنی صحت اور جذباتی استحکام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ خاندان اور دوستوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ان کی مدد کریں اور ان کے اندر مثبت رویے کی حوصلہ افزائی کریں۔ جب لڑکیوں کو اپنا اردگرد مضبوط اور احساس سے بھرپور میسر ہو گا، تو وہ اپنی منفی سوچ سے جلد چھٹکارا پالیں گی۔ مزید برآں، خود کو مثبت رویوں سے مضبوط بنانے کے لیے ایسی سرگرمیوں میں شرکت کرنی چاہیے، جو انھیں خوشی فراہم کریں، جیسے کہ فنونِ لطیفہ، کھیل، یا دیگر تخلیقی مشغلے۔
آخر میں، منفی خودکلامی کا اثر لڑکی کی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے، مگر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط عزم اور مثبت خیالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر لڑکیاں اپنے آپ کو منفی سوچ سے آزاد کرنے کے لیے شعوری کوشش کریں اور مثبت خیالات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہیں، بلکہ اپنے رشتوں میں مضبوط تعلقات کو خوش گوار، متوازن بنانے کے ساتھ ساتھ خوش حال زندگی بھی گزار سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جس کی وجہ سے کر سکتی جاتی ہے کرتا ہے ہو جاتی ہے اور خود کو کے لیے
پڑھیں:
وقت گزر جاتا ہے
وقت کا مزاج بھی عجیب ہے۔ یہ کبھی نرم اور مہربان معلوم ہوتا ہے تو کبھی سخت اور بے رحم لگتا ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی خوشیوں سے بھر گئی ہے اور دنیا کے سارے رنگ ہماری جھولی میں ڈال دیے گئے ہیں تو کبھی یوں لگتا ہے جیسے ہر راستہ بند اور ہر امید دم توڑ چکی ہو۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ وقت کبھی ایک حال پر نہیں رہتا۔
جو لمحہ آج مسکراتا ہوا ہمارے ساتھ ہے، کل یہی لمحہ کسی اور کے حصے میں ہوگا اور جو دکھ، تکلیف اور آزمائش آج ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے، کل وہ کسی اور کے دروازے پر جا کھڑی ہوگی۔ وقت کے قدم کبھی رکتے نہیں، نہ یہ کسی کے لیے ٹھہرتا ہے، نہ کسی کے کہنے پر اپنی رفتار بدلتا ہے۔
یہ اپنی مخصوص چال میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ خوشیوں کے لمحے ہوں یا دکھوں کی گھڑیاں، راحت ہو یا تکلیف، وقت سب کو بہا کر لے جاتا ہے، مگر انسان اکثر اس حقیقت کو بھول جاتا ہے۔ جب خوشی کا دور آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہمیشہ قائم رہے گا اور جب آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو لگتا ہے جیسے یہ کبھی ختم نہیں ہوں گی۔
زندگی کا اصول یہی ہے کہ ہر رات کے بعد صبح طلوع ہوتی ہے، ہر خزاں کے بعد بہار آتی ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی مقدر بنتی ہے۔ خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی، عروج اور زوال، سبھی وقت کے دھارے میں بہتے رہتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، اگر ہم یہ حقیقت سمجھ لیں کہ ہر مشکل وقت کے بعد آسانی آتی ہے تو زندگی کے نشیب و فراز ہمیں زیادہ تکلیف نہیں دیں گے، بلکہ ان سے حوصلہ، استقامت اور ہمت ملے گی۔
زندگی میں کئی بار ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا، لیکن کچھ عرصہ بعد وہی مسئلہ اتنا معمولی محسوس ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم اس پر اتنا پریشان کیوں تھے؟ مشکل وقت ہمیں صبر، استقامت، حوصلہ اور بردباری کا سبق دیتا ہے۔
دنیا کے تمام کامیاب لوگ اپنی مشکلات کے دور میں ہمت نہیں ہارتے۔ آپ نے زندگی میں ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جو کبھی شدید مشکلات میں تھے، مگر وقت بدلا اور وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچے۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید و بند میں گزارے، مگر وہی شخص جنوبی افریقہ کا صدر بنا۔
ابراہام لنکن کئی بار انتخابی ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد امریکا کا صدر بنا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات دیکھیں، لیکن وہ جانتے تھے کہ مشکل وقت گزر جائے گا۔ زندگی میں بعض اوقات انسان کو لگتا ہے کہ اب کوئی راستہ نہیں بچا اور ہر دروازہ بند محسوس ہوتا ہے، لیکن جب ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی نئے دروازے کھول دیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان صبر کرے، ہمت نہ ہارے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے۔
جس طرح مشکل وقت ہمیشہ نہیں رہتا، اسی طرح خوشی کے لمحات بھی مستقل نہیں ہوتے، جو لوگ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ وقت کبھی نہیں بدلے گا، وہ دراصل بہت بڑی غلط فہمی میں ہوتے ہیں، اگر آج زندگی میں سب کچھ اچھا چل رہا ہے تو ہمیں گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
بعض لوگ جب خوشحالی اور کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو وہ دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں، اپنی دولت اور شہرت پر فخر کرنے لگتے ہیں، مگر بھول جاتے ہیں کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کتنے ہی لوگ تھے جو کل تک تخت پر تھے، آج وہ زمین پر بھی نظر نہیں آتے۔
ہماری تاریخ ایسے بادشاہوں، سیاستدانوں اور دولت مند افراد سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اپنی طاقت اور دولت کو ہمیشہ قائم رہنے والا سمجھا، مگر جب وقت بدلا تو ان کا نام تک مٹ گیا۔ جب ہم خوشی اور کامیابی کے وقت میں ہوتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم شکر گزار رہیں اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں، اگر ہمیں یہ احساس ہو کہ یہ کامیابی اور خوشی بھی مستقل نہیں تو ہم غرور اور تکبر سے بچ سکتے ہیں۔
تاریخ میں بڑے بڑے بادشاہ، حکمران اور مالدار لوگ آئے، مگر وقت نے سب کچھ بدل دیا۔ آج ان کے نام صرف کتابوں میں ملتے ہیں، ان کا جاہ و جلال سب مٹی میں دفن ہوگیا، جو شخص دولت اور طاقت کے نشے میں مبتلا ہو کر دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ .
زندگی میں سب سے بڑی دانائی یہی ہے کہ ہم نہ تو خوشی میں خود کو ناقابلِ شکست سمجھیں اور نہ غم میں خود کو برباد محسوس کریں۔ ہر حال میں اعتدال اور توازن رکھنا سب سے بڑی کامیابی ہے، اگر ہم کسی مشکل میں ہیں تو ہمیں یہ سوچ کر حوصلہ رکھنا چاہیے کہ یہ وقت بھی ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اسی طرح اگر ہم کسی کامیابی پر ہیں تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ کامیابی بھی ہمیشہ نہیں اور ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
انسان کو وقتی جذبات میں بہہ کر فیصلے نہیں کرنے چاہیے۔ زندگی کے نشیب و فراز میں سب سے زیادہ نقصان وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو وقتی جذبات میں بہہ کر غلط فیصلے کر لیتے ہیں۔ کئی لوگ غصے، مایوسی یا بے بسی میں ایسے اقدامات کر بیٹھتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، اگر وہ یہ سوچ لیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا تو وہ کبھی بھی وقتی جذبات میں غلط فیصلے نہیں کریں گے۔
اگر ہم زندگی کو ایک سفر سمجھیں تو ہمیں وقت کی حقیقت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ کوئی بھی مسافر ہمیشہ ایک ہی جگہ نہیں رکتا، وہ چلتا رہتا ہے، کبھی دھوپ میں، کبھی چھاؤں میں، کبھی اونچائی پر، کبھی نشیب میں۔ یہی زندگی کا قانون ہے، اگر آج کوئی مشکل میں ہے تو وہ ہمیشہ نہیں رہے گی، اگر آج کوئی خوش ہے تو وہ ہمیشہ اسی حال میں نہیں رہے گا۔
بس ہمیں چاہیے کہ ہم ہر حال میں اللہ پر بھروسا رکھیں، محنت کرتے رہیں اور صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزاریں۔ مایوسی دراصل انسان کے حوصلے کو ختم کردیتی ہے، جب کہ امید اس کی ہمت کو زندہ رکھتی ہے۔ جو لوگ مشکلات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھتے ہیں، وہی اصل میں کامیاب ہوتے ہیں۔
درخت خزاں میں بے برگ و بار ہو جاتے ہیں، لگتا ہے جیسے وہ مرچکے ہیں، مگر بہار آتے ہی وہی درخت پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، زندگی میں بھی کبھی خزاں آتی ہے، کبھی بہار۔ اگر آج وقت سخت ہے تو کل یقیناً بہتر ہوگا۔
کبھی سوچیں، وہ مشکل وقت جس نے آپ کو رلایا تھا، جس نے آپ کو بے چین کیا تھا، وہ بھی گزر گیا اور وہ خوشی کے لمحات جنھیں آپ نے ہمیشہ کے لیے سنبھالنا چاہا تھا، وہ بھی گزرگئے، یہی وقت کی فطرت ہے۔ اس لیے نہ غم میں مایوس ہوں، نہ خوشی میں مغرور۔ بس اللہ پر یقین رکھیں، اپنا کام کرتے رہیں اور صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزاریں، کیونکہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔