Islam Times:
2025-04-15@11:55:54 GMT

حزب اللہ کا مستقبل اور لبنان

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

حزب اللہ کا مستقبل اور لبنان

اسلام ٹائمز: اگرچہ گذشتہ تقریباً 80 برس کے دوران لبنان کے اکثر صدور مملکت کا تعلق فوج سے رہا ہے لیکن جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ مختلف قوموں کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور نئے منتخب صدر کی اسلامی مزاحمت کے بارے میں مثبت نگاہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوزف عون اپنی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست اور پالیسیوں میں گذشتہ صدر مملکت مائیکل عون کی پیروی کریں گے اور اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی حمایت کرنے کی کوشش کریں گے۔ تحریر: حسن ہانی زادہ
 
آخرکار لبنان کے مختلف پارلیمنٹیرین گروہوں کے درمیان 26 مہینے کے انتہائی مشکل اور پیچیدہ مذاکرات کے بعد، اس قانون ساز ادارے نے کشمکش سے بھرپور اپنے 14 ویں اجلاس میں آرمی کے سربراہ جوزف خلیل عون کو ملک کا 14 واں صدر منتخب کر لیا ہے۔ اس اجلاس کی سربراہی لبنان پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کر رہے تھے جن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں عیسائی مذہب جوزف عون نے بھاری اکثریت حاصل کر کے نئے صدر کا عہدہ اپنے نام کر لیا اور اب انہیں بعبدا محل روانہ کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے پارلیمانی گروہ کے پاس 38 سیٹیں ہیں جنہوں نے نبیہ بری کے کہنے پر جوزف عون کے مقابلے میں دوسرے امیدوار سلیمان فرنجیہ کی حمایت ترک کر دی اور یوں جوزف عون کامیاب ہو گئے۔
 
لبنان کے سابق وزیر خارجہ اور مائیکل عون (سابق لبنانی صدر) کے داماد جبران باسیل کی سربراہی میں پارلیمانی فری نیشنل پارٹی نے جوزف عون کی مخالفت میں ووٹ ڈالا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ، فرانس اور بعض خلیجی عرب ریاستوں نے کافی عرصہ پہلے سے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر جوزف عون کو لبنان کے نئے صدر کے طور پر نہ چنا گیا تو وہ جنوبی لبنان میں تعمیر نو پراجیکٹس کے لیے مالی امداد فراہم نہیں کریں گے۔ جوزف عون لبنان آرمی کے سربراہ اور جنرل ہیں جو 1964ء میں سن الفیل کے علاقے میں ایک مارونی قدیم تاریخ کے حامل عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے امریکہ اور فرانس میں فوجی ٹریننگ کے کئی کورسز مکمل کیے ہیں۔ وہ سیاسیات میں بھی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور ایک میانہ رو سیاست دان کے طور پر بھی معروف ہیں۔
 
جوزف عون، لبنان کے دوسرے ایسے صدر ہیں جن کا تعلق قدیم تاریخ کے حامل عون خاندان سے ہے۔ ان کے انتخاب کے بعد لبنان امن اور استحکام کے نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ لبنان کے آئین کی روشنی میں ضروری ہے کہ صدر مارونی عیسائی ہو اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے انتخاب کیا جائے۔ یاد رہے لبنان پارلیمنٹ کی کل 128 سیٹیں ہیں۔ جوزف عون کا لبنان کے صدر کے طور پر منتخب ہو جانے نے اس اختلاف کا خاتمہ کر دیا جو گذشتہ 26 ماہ سے لبنان کے مختلف پارلیمانی گروہوں کے درمیان چلا آ رہا تھا۔ اس چناو نے ثابت کر دیا ہے کہ لبنان کے ریاستی ادارے عقلانیت، قومی وحدت اور سیاسی اور قومی اختلافات کے حل کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔
 
اگرچہ گذشتہ تقریباً 80 برس کے دوران لبنان کے اکثر صدور مملکت کا تعلق فوج سے رہا ہے لیکن جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ مختلف قوموں کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور نئے منتخب صدر کی اسلامی مزاحمت کے بارے میں مثبت نگاہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوزف عون اپنی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست اور پالیسیوں میں گذشتہ صدر مملکت مائیکل عون کی پیروی کریں گے اور اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی حمایت کرنے کی کوشش کریں گے۔ جنوبی لبنان میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا جاری رہنا، لبنان میں صیہونی فضائی بمباری کے نتیجے میں تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو، عوام کی معیشت بہتر بنانا، خطے کے ممالک سے تعاون اور شام میں امن و استحکام پیدا کرنے میں مدد فراہم کرنا نئے لبنانی صدر کو درپیش چیلنجز ہیں۔
 
جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ لبنان میں اسلامی مزاحمت کی حفاظت ہے۔ کیونکہ امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو اسرائیل کی جانب سے لبنان کی تقسیم کا زمینہ فراہم ہو جائے گا۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے پارلیمانی گروہ نے اپنے تحفظات دور کرنے پر مبنی کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد جوزف عون کو ووٹ دیا ہے لیکن ان کی جانب سے صدر کا امیدوار سلیمان فرنجیہ تھے جو بعد میں جوزف عون کے حق میں بیٹھ گئے تھے۔ لبنان کے نو منتخب صدر نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران وحدت اور قومی اتحاد برقرار رکھنے نیز لبنان کی معیشت کو ترقی دینے پر زور دیا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی لبنان میں نئے صدر کے انتخاب پر لبنانی پارلیمنٹ، قوم اور حکومت کو مبارکباد پیش کی ہے اور نئی لبنانی حکومت کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لبنان سے متعلق ایران کی مجموعی سیاست ہمیشہ لبنان میں قومی وحدت کے فروغ اور غاصب صیہونی رژیم سے درپیش خطرات کے مقابلے میں عوامی قوتوں کے طاقتور ہونے پر استوار رہی ہے۔ لبنان کے نو منتخب صدر کا پہلا اقدام مختلف پارلیمانی گروہوں کے قابل قبول شخص کا چناو ہو گا جو آئندہ کابینہ تشکیل دے سکے۔ چونکہ لبنان میں وزیراعظم کا عہدہ اہلسنت مسلمانوں سے مخصوص ہے لہذا وہ لبنان کی مین اسٹریم پالیسیاں طے پانے میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ وزیراعظم نجیب میقاتی کے علاوہ سابق وزیراعظم تمام سلام، لبنان ایئر لائنز کے سربراہ محمد الحوت اور دو پارلیمنٹ اراکین فواد مخزومی اور اشرف ریفی کے نام بھی زیر غور ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی مزاحمت پارلیمنٹ میں کے درمیان حزب اللہ لبنان کے کریں گے کی جانب کا تعلق کے لیے

پڑھیں:

جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم

کشمیر سے فلسطین تک، ہنود و یہود مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں،مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کی مسجدوں ، سکولوں، کالجوں، مدرسوں، ہسپتالوں، اور گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے،56 اسلامی ملکوں کے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو کشمیریوں یا فلسطینیوں پہ ڈھائے جانے والے ان مظالم کو روکنے کی جرات کر سکے۔مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بزدلی نے امت مسلمہ کو یہ دن بھی دکھایا کہ یہ سارے مل کر کافروں سے مطالبے کر رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر صیہونی فوج سے فلسطینیوں اور ہندو فوج کے مظالم سے کشمیریوں کو بچائیں۔میر بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ایسے خطرناک حالات میں اگر پاکستان کے اکابر علماء نے اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر جہاد کی فرضیت کے حوالے سے فتوی جاری کیا ہے،تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے اکابر علماء جاگ رہے ہیں،اسرائیلی دسترخوان کے جن راتب خوروں کو مولانا محمد مسعود ازہر اور دیگر مجاہدین کے جہاد پر اعتراض تھا،اب علما ء کی طرف سے حکومت پر جہاد کی فرضیت کے فتوے پر اعتراض کیوں ہے؟یہ کہنے والے کہ فتوی دینے والے علما ء کو خود جہاد میں شرکت کے لئے غزہ جانا چاہئے ،کوئی ان غامدیوں، قادیانیوں، فوادیوں اور موم بتی مافیا کے زنانوں کو بتائے کہ مولانا محمد مسعود ازہر تو خود جہاد کشمیر میں شریک ہوئے ،مقبوضہ کشمیر اور انڈیا کی جیلوں میں چھہ سال سے زائد عرصہ تک گرفتار رہے،تمہیں تو ان کا جہاد بھی ہضم نہیں ہواتھا،اگر مفتی تقی عثمانی،مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب الرحمن سمیت دیگر علماء نے مسلح جہاد کی قیادت سنبھال لی تو پھر یہودیوں کو غرقدکے درخت اور تمہیں کسی یہودی ،صلیبی سوراخ میں بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، کشمیر اور فلسطین کی۔
آزادی، جہاد مقدس کی عبادت کوتسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی دوری پر ہے،جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے جسے قرآن و حدیث میں نمایاں مقام دیا گیا ہے۔ لفظ ’’جہاد‘‘ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’’کوشش کرنا‘‘یا ’’جدوجہد کرنا‘‘۔ اسلامی تعلیمات میں جہاد ایک جامع تصور ہے، جو نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ روحانی، سماجی اور انفرادی سطح پر حق کے لئے جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا ہے، جہاں اسے ایمان کا ایک لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ جہاد کی مختلف اقسام ہیں، جیسے نفس کے خلاف جہاد (جہاد بالنفس)، معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد (جہاد بالعمل) اور باطل کے خلاف قتال (جہاد بالقتال)۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: -1جہاد ایمان کی علامت ہے: ’’اور جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔(سورہ العنکبوت: 69) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو اللہ کی مدد اور رہنمائی نصیب ہوتی ہے۔-2حق و باطل کی جنگ:اور تم اللہ کے راستے میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو۔(سورہ البقرہ: 190 ) اس آیت میں جنگ کی اجازت صرف دفاع کے لئے دی گئی ہے اور ظلم و زیادتی سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔-3جہاد کی فضیلت:اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر اجر کے اعتبار سے فضیلت دی ہے۔ (سورہ النسا: 95) یہ آیت بتاتی ہے کہ جہاد میں حصہ لینے والے ایمان والوں کو عظیم مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بھی جہاد کی فضیلت اور اہمیت بار بار بیان کی گئی ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا کہ جہاد نہ صرف دین کی سربلندی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ فرد اور معاشرے کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ -1جہاد کو ایمان کی بلند ترین شاخ قرار دیا گیا، حضرت ابو ہریرہؓؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ’’ایمان کے ستر سے زیادہ درجے ہیں، اور ان میں سب سے اعلیٰ درجہ اللہ کے راستے میں جہادہے۔‘‘ (صحیح مسلم)-2 نفس کے خلاف جہاد:نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے۔‘‘ (سنن ترمذی)اس حدیث میں روحانی جہاد کو اہمیت دی گئی ہے، جو انسان کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہے۔-3شہادت کی فضیلت: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے۔جہاد کی اقسام: ا سلام میں جہاد کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ اس کے جامع مفہوم کو سمجھا جا سکے۔
جہاد بالنفس:اپنے نفس کی برائیوں، خواہشات اور شیطان کے وسوسوں کے خلاف جدوجہد کرنا۔ یہ سب سے اہم اور مشکل جہاد ہے۔جہاد بالمال،اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا، جیسے فلاحی کاموں میں حصہ لینا یا ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔جہاد باللسان:حق بات کو زبان سے بیان کرنا، برائی کے خلاف آواز بلند کرنا اور دین کی تبلیغ کرنا۔جہاد بالقتال، باطل کے خلاف جنگ کرنا، لیکن صرف ان حالات میں جب ظلم اور زیادتی حد سے بڑھ جائے اور کوئی دوسرا راستہ باقی نہ رہے۔جہاد کے اصول: قرآن و حدیث میں جہاد کے لئے کچھ اصول اور شرائط بیان کئے گئے ہیں۔-1جہاد صرف اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے، نہ کہ ذاتی مفادات کے لئے۔ -2جنگ میں عام شہریوں، بچوں، عورتوں، اور غیر جنگجو افراد کو نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے۔-3معاہدے اور وعدے کی پابندی لازمی ہے۔-4جنگ کے دوران بھی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ روحانی اور سماجی جہاد کی اہمیت، جہاد صرف جنگی میدان تک محدود نہیں بلکہ اس کا ایک بڑا پہلو روحانی اور سماجی اصلاح سے جڑا ہوا ہے۔روحانی جہاد: اپنے نفس کی پاکیزگی اور اخلاق کی بلندی کے لیے جدوجہد۔سماجی جہاد: ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا اور معاشرتی بھلائی کے لیے کام کرنا۔

متعلقہ مضامین

  • جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم
  • دمشق، لبنانی وزیراعظم کی ابو محمد الجولانی سے ملاقات
  • حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟
  • خان اور پارٹی اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، شیر افضل مروت
  • امریکی اراکین کانگریس نے دورۂ پاکستان کو انتہائی کامیاب اورمستقبل کےحوالے سے اہم قرار دیدیا
  • امریکی اراکین کانگریس نے دورہ پاکستان کو کامیاب اور مثبت قرار دیدیا
  • سرینگر میں رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی اہم پریس کانفرنس
  • اعلیٰ قیادت میں اختلافات کے بعد پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا؟ نصرت جاوید کا اہم تجزیہ
  • لاہور میں اے آئی یونیورسٹی کا قیام، مستقبل کا تعلیمی منظرنامہ بدل رہا ہے، مریم نواز