Islam Times:
2025-01-18@18:35:39 GMT

حزب اللہ کا مستقبل اور لبنان

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

حزب اللہ کا مستقبل اور لبنان

اسلام ٹائمز: اگرچہ گذشتہ تقریباً 80 برس کے دوران لبنان کے اکثر صدور مملکت کا تعلق فوج سے رہا ہے لیکن جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ مختلف قوموں کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور نئے منتخب صدر کی اسلامی مزاحمت کے بارے میں مثبت نگاہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوزف عون اپنی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست اور پالیسیوں میں گذشتہ صدر مملکت مائیکل عون کی پیروی کریں گے اور اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی حمایت کرنے کی کوشش کریں گے۔ تحریر: حسن ہانی زادہ
 
آخرکار لبنان کے مختلف پارلیمنٹیرین گروہوں کے درمیان 26 مہینے کے انتہائی مشکل اور پیچیدہ مذاکرات کے بعد، اس قانون ساز ادارے نے کشمکش سے بھرپور اپنے 14 ویں اجلاس میں آرمی کے سربراہ جوزف خلیل عون کو ملک کا 14 واں صدر منتخب کر لیا ہے۔ اس اجلاس کی سربراہی لبنان پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کر رہے تھے جن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں عیسائی مذہب جوزف عون نے بھاری اکثریت حاصل کر کے نئے صدر کا عہدہ اپنے نام کر لیا اور اب انہیں بعبدا محل روانہ کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے پارلیمانی گروہ کے پاس 38 سیٹیں ہیں جنہوں نے نبیہ بری کے کہنے پر جوزف عون کے مقابلے میں دوسرے امیدوار سلیمان فرنجیہ کی حمایت ترک کر دی اور یوں جوزف عون کامیاب ہو گئے۔
 
لبنان کے سابق وزیر خارجہ اور مائیکل عون (سابق لبنانی صدر) کے داماد جبران باسیل کی سربراہی میں پارلیمانی فری نیشنل پارٹی نے جوزف عون کی مخالفت میں ووٹ ڈالا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ، فرانس اور بعض خلیجی عرب ریاستوں نے کافی عرصہ پہلے سے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر جوزف عون کو لبنان کے نئے صدر کے طور پر نہ چنا گیا تو وہ جنوبی لبنان میں تعمیر نو پراجیکٹس کے لیے مالی امداد فراہم نہیں کریں گے۔ جوزف عون لبنان آرمی کے سربراہ اور جنرل ہیں جو 1964ء میں سن الفیل کے علاقے میں ایک مارونی قدیم تاریخ کے حامل عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے امریکہ اور فرانس میں فوجی ٹریننگ کے کئی کورسز مکمل کیے ہیں۔ وہ سیاسیات میں بھی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور ایک میانہ رو سیاست دان کے طور پر بھی معروف ہیں۔
 
جوزف عون، لبنان کے دوسرے ایسے صدر ہیں جن کا تعلق قدیم تاریخ کے حامل عون خاندان سے ہے۔ ان کے انتخاب کے بعد لبنان امن اور استحکام کے نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ لبنان کے آئین کی روشنی میں ضروری ہے کہ صدر مارونی عیسائی ہو اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے انتخاب کیا جائے۔ یاد رہے لبنان پارلیمنٹ کی کل 128 سیٹیں ہیں۔ جوزف عون کا لبنان کے صدر کے طور پر منتخب ہو جانے نے اس اختلاف کا خاتمہ کر دیا جو گذشتہ 26 ماہ سے لبنان کے مختلف پارلیمانی گروہوں کے درمیان چلا آ رہا تھا۔ اس چناو نے ثابت کر دیا ہے کہ لبنان کے ریاستی ادارے عقلانیت، قومی وحدت اور سیاسی اور قومی اختلافات کے حل کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔
 
اگرچہ گذشتہ تقریباً 80 برس کے دوران لبنان کے اکثر صدور مملکت کا تعلق فوج سے رہا ہے لیکن جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ مختلف قوموں کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور نئے منتخب صدر کی اسلامی مزاحمت کے بارے میں مثبت نگاہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوزف عون اپنی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست اور پالیسیوں میں گذشتہ صدر مملکت مائیکل عون کی پیروی کریں گے اور اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی حمایت کرنے کی کوشش کریں گے۔ جنوبی لبنان میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا جاری رہنا، لبنان میں صیہونی فضائی بمباری کے نتیجے میں تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو، عوام کی معیشت بہتر بنانا، خطے کے ممالک سے تعاون اور شام میں امن و استحکام پیدا کرنے میں مدد فراہم کرنا نئے لبنانی صدر کو درپیش چیلنجز ہیں۔
 
جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ لبنان میں اسلامی مزاحمت کی حفاظت ہے۔ کیونکہ امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو اسرائیل کی جانب سے لبنان کی تقسیم کا زمینہ فراہم ہو جائے گا۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے پارلیمانی گروہ نے اپنے تحفظات دور کرنے پر مبنی کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد جوزف عون کو ووٹ دیا ہے لیکن ان کی جانب سے صدر کا امیدوار سلیمان فرنجیہ تھے جو بعد میں جوزف عون کے حق میں بیٹھ گئے تھے۔ لبنان کے نو منتخب صدر نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران وحدت اور قومی اتحاد برقرار رکھنے نیز لبنان کی معیشت کو ترقی دینے پر زور دیا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی لبنان میں نئے صدر کے انتخاب پر لبنانی پارلیمنٹ، قوم اور حکومت کو مبارکباد پیش کی ہے اور نئی لبنانی حکومت کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لبنان سے متعلق ایران کی مجموعی سیاست ہمیشہ لبنان میں قومی وحدت کے فروغ اور غاصب صیہونی رژیم سے درپیش خطرات کے مقابلے میں عوامی قوتوں کے طاقتور ہونے پر استوار رہی ہے۔ لبنان کے نو منتخب صدر کا پہلا اقدام مختلف پارلیمانی گروہوں کے قابل قبول شخص کا چناو ہو گا جو آئندہ کابینہ تشکیل دے سکے۔ چونکہ لبنان میں وزیراعظم کا عہدہ اہلسنت مسلمانوں سے مخصوص ہے لہذا وہ لبنان کی مین اسٹریم پالیسیاں طے پانے میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ وزیراعظم نجیب میقاتی کے علاوہ سابق وزیراعظم تمام سلام، لبنان ایئر لائنز کے سربراہ محمد الحوت اور دو پارلیمنٹ اراکین فواد مخزومی اور اشرف ریفی کے نام بھی زیر غور ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی مزاحمت پارلیمنٹ میں کے درمیان حزب اللہ لبنان کے کریں گے کی جانب کا تعلق کے لیے

پڑھیں:

پیجر دھماکوں کی طرز پر ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بڑا حملہ ناکام بنادیا گیا، روسی خبر ایجنسی کا دعوی

پیجر دھماکوں کی طرز پر ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بڑا حملہ ناکام بنادیا گیا، روسی خبر ایجنسی کا دعوی WhatsAppFacebookTwitter 0 16 January, 2025 سب نیوز

تہران (آئی پی ایس )روسی خبررساں ایجنسی نے دعوی کیا ہے کہ ایرانی ایٹمی تنصیب پر پیجر دھماکوں کی طرز کا حملہ ناکام بنادیا گیا۔روس کی سرکاری خبررساں ایجنسی تاس نے ایران کے نائب صدر جواد ظریف کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یورینئیم افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے گیس سینٹری فیوج کے پلیٹ فارم میں بم نصب تھا جسے ناکارہ بنادیا گیا۔خبررساں ایجنسی کے مطابق جواد ظریف نے اس کارروائی کے پیچھے اسرائیل کے ملوث ہونے کا اشارہ بھی دیا۔

جواد ظریف نے ایرانی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے لبنان میں ہونے والے پیجر دھماکوں پر بات کی، انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو پیجر دھماکوں کی تیاری کے لیے بہت وقت لگا لیکن شاید پابندیوں کے باعث یہ دھماکے ممکن ہوئے۔انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے باعث کسی پیداواری ادارے سے براہ راست خریداری کرنا ممکن نہیں ہوتا جس کے باعث کسی تیسرے ذریعے سے خریداری کرنی پڑتی ہے، اگر اسرائیل سپلائی چین میں داخل ہوجائے تو وہ جو چاہے کرسکتا ہے اور جو چاہے نصب کرسکتا ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہ ایرانی اٹامک انرجی آرگنائزیشن نے سینٹری فیوج خریدا تو معلوم ہوا کہ اس کے اندر دھماکہ خیز مواد نصب تھا جس کا ماہرین نے پتا لگا لیا۔جواد ظریف نے کہا کہ یہ واقعہ ان پابندیوں کی وجہ سے ہوا جن سے ایران کو بچنا پڑتا ہے، ان کے باعث مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ ایران کی سلامتی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔تاہم جواد ظریف نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ واقعہ کب پیش آیا۔

خیال رہے کہ 17 ستمبر 2024 کو لبنان میں سیکڑوں کی تعداد میں پیجرز میں دھماکے ہوئے تھا جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے تھے۔ان دھماکوں کے اگلے ہی روز لبنان میں کئی واکی ٹاکی سیٹس اور موبائل فونز میں دھماکے ہوئے جن کے نتیجے میں مزید 25 افراد ہلاک اور 608 افراد زخمی ہوئے تھے۔ لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ نے ان دھماکوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا، بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • جنہیں بہتر مستقبل کی تلاش موت تک لے گئی
  • امن فوج کو درپیش مسائل کے باوجود لبنان کے ساتھ تعاون جاری رے گا، گوتیرش
  • کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، امانت اللہ خان
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کی برطانوی ارکان پارلیمنٹ کو جمہوریت کو درپیش خطرات پر بریفنگ
  • وولکر ترک کا لبنان اور شام میں نئی شروعات کا خیرمقدم
  • ایران :ایٹمی تنصیبات پر پیجر طرز پر بڑا حملہ ناکام بنانے کا دعویٰ
  • پیجر دھماکوں کی طرز پر ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بڑا حملہ ناکام بنادیا گیا، روسی خبر ایجنسی کا دعوی
  • بہتر مستقبل کے لیے عثمان قادر پھر آسٹریلیا منتقل
  • بیشک اللہ کی پکڑ بڑی دردناک ہے
  • شاداب مستقبل محفوظ بنانے کے لیے کوچنگ کے میدان میں آگئے