پاکستان میں خطرے سے دوچار انڈین بھیڑیوں کی آبادی اور جینیاتی تبدیلیوں پر سروے کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
پاکستان میں خطرے سے دوچار انڈین بھیڑیے کی آبادی اور جینیاتی تبدیلیوں کے بارے میں سروے کیا جارہا ہے جس میں ملکی اور غیرملکی ماہرین شامل ہیں۔ بھیڑیوں سے متعلق سروے خوشاب اور کلرکہار سمیت جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے چند علاقوں میں کیا جارہا ہے، سروے کا مقصد معدومی کے خطرات سے دوچار انڈین بھیڑیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ان کی آبادی کا تخمیہ لگانا ہے۔
سروے ٹیم میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن اٹک کی اسسٹنٹ پروفیسر اور محقق حرا فاطمہ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بائیوٹیکنالوجی اینڈجینیٹک انجینئرنگ پاکستان کی سینیئر سائنسدان رباب زہرہ نقوی اور ری وائلڈ پاکستان انوائرمنٹ ٹرسٹ کی پروگرام ڈائریکٹر ربیعہ شعیب سمیت یونیورسٹیز کے انٹرن اور غیرملکی ماہرین شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے پر کام کرنیوالی زیادہ ترخواتین ہیں۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے حرافاطمہ نے بتایا کہ انڈین سرمئی بھیڑے پاکستان میں خطرے سے دوچار ہیں تاہم یہ پاکستان کے کن علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی آبادی کتنی ہے اس کے مستند اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔ ان بھیڑیوں سے متعلق سروے کا مقصد ان کی آبادی اور نسل کو بچانا ہے جو صرف پاکستان اوربھارت کے چند علاقوں میں ہی پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انڈین سرمئی بھیڑیوں کا سروے پاکستان انوائرمنٹ ٹرسٹ کی طرف سے کیا جارہا ہے ، جس کے لیے فنڈنگ ہیومن انٹرنیشنل ڈونرز کے ذریعے حاصل کی جارہی ہے، سروے کے لیے تقریبا 6 ہزار سے زائد امریکی ڈالر اخراجات آئیں گے۔
ری وائلڈ پاکستان انوائرمنٹ ٹرسٹ کی پروگرام ڈائریکٹر ربیعہ شعیب نے بتایا ” انڈیا میں ان بھیڑیوں کی تعداد کا تخمینہ دو سے ڈھائی ہزار ہے لیکن پاکستان میں ان کی تعداد بارے کوئی مستند اعداد وشمارموجود نہیں ہیں، ایک اندازہ ہے کہ ان کی تعداد صرف 200 سے 300 تک رہ گئی ہے۔
ربیعہ شعیب نے بتایا ہمارا مقصد ان بھیڑیوں کے موجودہ مساکن کی نشاندہی کرنا ہے تاکہ ان کی بقا کے لیے ان ایریا کو بھیڑیوں کا بفر زون قرار دیا جاسکے۔ اس کے علاوہ یہ جانچ کرنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان بھیڑیوں میں جینیاتی طور پر کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔
سروے کے دوران ملنے والے مختلف شواہد اور نمونہ جات لیبارٹری میں بھیجے جائیں گے جہاں ان کا ڈی این اے ٹیسٹ ہوگا اور اس سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ ان بھیڑیوں کی نسل کتنی قدیم ہے اور یہ کن کن ارتقائی مراحل سے گزرے ہیں، ماہرین کے مطابق کتوں اور بھیڑیوں کے باہمی ملاپ سے ان میں جینیاتی تبدیلی آئی ہیں لیکن یہ ڈی این اے کے بعد ہی ثابت کیا جاسکتا ہے۔
ربیعہ شعیب نے بتایا ہندوستانی بھیڑیوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں بھیڑیوں کی قدیم نسل سے تعلق رکھتے ہیں ، وہ تقریبا ایک لاکھ سال قبل بھیڑیوں کی دیگر پرجاتیوں سے الگ ہوگئے تھے۔ اس خطے میں تبتی بھیڑیے بھی پائے جاتے ہیں جو دنیا میں بھیڑیوں کی دوسری قدیم ترین نسل ہے۔
حرا فاطمہ نے بتایا بھیڑیوں کا جینیاتی سروے ایک سال میں مکمل ہوگا۔ اس پراجیکٹ پر 30 ستمبر 2024 کو کام شروع ہوا تھا جو اس سال 31 اکتوبر تک مکمل ہوجائے گا۔ سروے کے دوران یہ واضع کیا جائے گا کہ انڈین بھیڑیا اس وقت پاکستان کے کن علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے جدید کیمرے اور دیگر آلات بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس پراجیکٹ میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے وائلڈلائف اور جنگلات کے محکموں کی مدد بھی شامل ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان کھیل پاکستان میں علاقوں میں کی آبادی نے بتایا کے لیے
پڑھیں:
کراچی: 11 روز سے لاپتہ سات سالہ صارم کی لاش مل گئی
شہر قائد کے علاقے نارتھ کراچی میں 11 روز سے لاپتہ سات سالہ صارم کی لاش گھر کے قریب ٹینک سے مل گئی۔
پولیس کے مطابق صارم 11 روز قبل پراسرار طور پر لاپتہ ہوا تھا، جس کی تلاش جاری تھی۔
پولیس نے بتایا کہ واٹر ٹینک پر ڈھکن کی جگہ گتے کا ٹکڑا رکھا ہوا تھا، بچہ حادثاتی طور پر گرا یا کسی نے پھینکا اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
بچے کی لاش دیکھ کر والدہ شدت غم سے نڈھال ہیں۔
دوسری جانب کراچی میں بچوں کے اغوا اور لاپتہ ہونے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، رواں سال پانچ بچے لاپتہ ہوئے، جن میں سے دو گھر واپس آگئے۔ گزشتہ برس بھی سات سو بچے لاپتہ ہوئے جن میں بیس بچے تاحال بازیاب نہ ہوسکے۔
ان میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے جو کہ تشویشناک امر ہے، لاپتہ بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی روشنی این جی او کے سربراہ کہتے ہیں کہ لاپتہ بچوں کی ایف آئی آر ترجیحی بنیادوں پر درج کی جانا چاہیئے۔
بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ خطرے میں قرار دیا جاتا ہے، اگر بچہ دو تین روز میں نہ ملے تو اسے خطرے میں ہی سمجھا جاتا ہے۔
اغوا اور لاپتہ ہونے والوں بچوں کے بڑھتے ہوئے واقعات میں سب سے اہم ضرورت ہے کہ محکمہ تفتیش کے اہلکاروں کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دی جائے۔