وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز : فوٹو فائل

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ اگر منہ پر ہاتھ پھیر کر کہوں کہ تمہارا ہیٹر اتاروں گی تو عوام کی خدمت کیسے ہوگی؟

بہاولپور میں ہونہار اسکالرشپ پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ کوئی پاسبان کسی کے بہکاوے میں آکر ملک پر حملہ نہیں کر سکتا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تضحیک نہیں کر سکتا، آپ کی ریڈ لائن پاکستان ہونی چاہیے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ بیانیے وہ بناتے ہیں جنہوں نے کوئی کام نہ کیا ہو، کوئی ماں آپ کو یہ نہیں کہے گی کہ دلوں میں نفرت پالو۔

مریم نواز نے کہا کہ رانا سکندر کو شاباش دیتی ہوں، بہت محنت سے تعلیم کے شعبے میں کام کر رہے ہیں، رانا سکندر کہہ رہے تھے کہ جب گارڈ آف آنر ملتا ہے تو بہت جذباتی لمحہ ہوتا ہے، جب مظفر گڑھ کے بچے نے مجھے ماں کہا تو میرے لیے سب سے زیادہ جذباتی لمحہ تھا، دنیا کا ہر رشتہ ٹوٹ سکتا ہے، ماں اور بچے کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا، سب تقاریر میں بچوں نے شکریہ کہا، جب آپ مجھے شکریہ کہتے ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے، میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ آپ کی امانت ہے۔

مریم نواز نے بانی پی ٹی آئی کے موجودہ حالات کو مکافات عمل قرار دے دیا

مریم نواز نے کہا کہ نوجوان کسی کے اقتدار کی ہوس کا ایندھن نہ بنیں، حسان نیازی چیئرمین پی ٹی آئی کا بھانجا ہے، ان کے والد اور والدہ پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اسکالرشپ میں نے آپ کو نہیں دی، آپ نے اپنی محنت اور اہلیت سے حاصل کی، سر اٹھا کر یہ اسکالرشپ لیں، لوگوں کو بتائیں کہ محنت کی، ملک و صوبے کا سر فخر سے بلند کیا، اسکالرشپ لینے والی سب بیٹیوں اور بیٹوں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکالرشپ پروگرام ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میرٹ سے ہٹ کر اسکالرشپ دی گئیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 60 فیصد اسکالرشپ لڑکیوں کو ملی ہیں، جو میرٹ پر پورا اترا ہے اسے یہ اسکالرشپ ملی ہے، اسکالر شپ پروگرام 72 بلین کا ہے، 172  بلین کا بھی پروگرام ہو تو آپ کیلئےکم ہے، جنوری کا پورا مہینہ اسکالر شپ پروگرامز کیلئے مختص کیا ہے، اسکالرشپ آپ کو کالجوں میں بھی مل سکتی تھی، لیکن میں چاہتی تھی کہ اسٹوڈنٹس سے خود جا کر ملوں، تمام ٹاپ کالجز اور یونیورسٹیز میں یہ اسکالرشپ دی جارہی ہیں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: مریم نواز نے وزیر اعلی نے کہا کہ

پڑھیں:

انطالیہ سے لاہور تک مریم نواز کی عالمی ڈپلومیسی

ڈپلومیسی ایک ایسا لفظ ہے جسے سنتے ہی ذہن میں نفیس لباس، نرم لہجہ، شائستہ انداز، اور بہت تہذیب سے کہے گئے ایک’’نا‘‘کی تصویر ابھرتی ہے۔ درحقیقت یہ وہ فن ہے جس میں انسان سامنے والے کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ’’آپ کی بات نہ صرف درست ہے بلکہ ہم ہمیشہ سے اس کی حمایت کرتے آئے ہیں‘‘ اور پھر خاموشی سے اپنے مفاد کی راہ بھی چن لیتا ہے۔
یہ ہنر اب محض بادشاہوں کے دربار یا اقوام متحدہ کے اجلاسوں تک محدود نہیں رہا۔ یہ تو اب عام گھریلو سطح تک پھیل چکا ہے۔ دفتر میں باس سے کہنا: جناب ! آپ کی دور اندیشی واقعی لاجواب ہے۔ جب کہ دل کچھ اور کہہ رہا ہو… یہی تو ہے روزمرہ کی ڈپلومیسی۔ یہ اب کوئی خفیہ فن نہیں رہا بلکہ ہر دوسرا شخص اس کا ماہر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اسے تھری پیس سوٹ میں استعمال کرتا ہے تو کوئی سادہ شلوار قمیص میں۔
اسی ڈپلومیسی کی دنیا میں ایک اہم عالمی ایونٹ ’’ڈپلومیسی فورم 2025‘‘ ترکیہ کے خوبصورت شہر انطالیہ میں منعقد ہوا۔ دنیا بھر سے رہنما، اسکالرز، پالیسی ساز اور سفارتی ماہرین اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کی نمائندگی وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے کی جو ترکیہ کی خاتونِ اول محترمہ امینے ایردوان کی خصوصی دعوت پر وہاں پہنچیں۔ ان کا پرتپاک استقبال انطالیہ کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر سعاد سید اوغلو اور دیگر اعلیٰ حکام نے کیا۔
کانفرنس کا موضوع تھا: ’’تقسیم شدہ دنیا میں مستقبل کی تعمیر ۔! تعلیم تبدیلی لانے کی ایک طاقت‘‘۔ اس عنوان کے عین مطابق وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے پراعتماد انداز میں خطاب کیا اور لاہور میں نواز شریف انٹرنیٹ سٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ صوبے میں آئی ٹی کے فروغ اور نوجوانوں کو ڈیجیٹل تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ایک انقلابی کوشش ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2024 ء میں وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے وہ تعلیم، اصلاحات اور جدیدیت کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اصلاحات کا آغاز اسکولوں سے کیا اور ان کے لیے نواز شریف اور شہباز شریف کی کامیاب پالیسیاں مشعلِ راہ ہیں۔ صرف عمارتیں نہیں بلکہ روایتی سوچ کو بدلنا اصل چیلنج ہے۔انہوں نے بتایا کہ 4000سے زائد پرائمری اسکول ایلیمنٹری سطح پر اپ گریڈ کیے جا رہے ہیں اور 6000 اسکولوں میں ڈیجیٹل لرننگ رومز قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ طلبہ جدید سکرینوں پر سائنس اور ٹیکنالوجی سیکھ سکیں۔انہوں نے کہا کہ وہ خود کو صرف وزیراعلیٰ نہیں بلکہ ’’ایجوکیشن کی سفیر‘‘ سمجھتی ہیں اور گرلز ایجوکیشن میں ہر طالبہ کی ماں کی طرح سوچتی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے اسکول نیوٹریشن پروگرام بھی جاری ہے۔اساتذہ کی بھرتی اور تربیت پر زور دیتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ 30 ہزار اساتذہ میرٹ پر بھرتی کیے جا رہے ہیں اور ہر طالب علم کی انفرادی ضروریات کو مدنظر رکھ کر لرننگ ماڈل متعارف کروایا جا رہا ہے، آرٹیفشل انٹیلیجنس کی مدد سے تعلیمی پلیٹ فارمز تیار کیے جا رہے ہیں۔مریم نواز نے اعلان کیا کہ لاہور میں نواز شریف انٹرنیٹ سٹی اور پاکستان کی پہلی اے آئی یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے جو ڈیجیٹل دور کی طرف ایک انقلابی قدم ہو گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا ’’میری حکومت اور میری جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اس یقین پر قائم ہے کہ تعلیم صرف ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک انقلاب ہے۔ ہم نے تعلیم کو’پہلی ایمرجنسی‘ قرار دیا ہے۔ بجٹ میں سب سے بڑا حصہ اسی کے لیے مختص ہے اور عملدرآمد میں کسی قسم کی سستی برداشت نہیں کی جاتی۔‘‘
انہوں نے لیپ ٹاپ اسکیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کی وہ واحد حکومت ہیں جس نے طلبہ کو عملی طور پر بااختیار بنانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ ہماری لیپ ٹاپ اسکیم اس کی روشن مثال ہے۔ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ دیئے گئے ہوں تاکہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے جڑ سکیں۔انہوں نے تعلیمی ترقی کے لیے اسکالرشپ، فری انٹرنیٹ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور ڈیجیٹل لرننگ نیٹ ورک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب صرف علم ہی نہیں بلکہ مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غریب، یتیم اور ذہین بچوں کے لیے تعلیم مکمل طور پر مفت کر دی گئی ہے، جبکہ دیگر طبقات کے لیے بھی تعلیمی سہولیات کو قابلِ رسائی بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے دانش اسکول سسٹم کا بھی ذکر کیا جو نہ صرف پنجاب بلکہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی عالمی معیار کے مطابق قائم کیے جا رہے ہیں۔وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی یہ تقریر نہ صرف پاکستان کا مثبت تاثر دنیا کے سامنے لائی بلکہ ایک مضبوط پیغام بھی تھا کہ ہمیں معلوم ہے ڈپلومیسی کا فن ۔ اور ہم نے اسے صرف تعلقات کے لیے نہیں، بلکہ تعلیم، ترقی، اور ٹیکنالوجی کے لیے اپنایا ہے۔
اس خطاب کو عالمی ماہرین تعلیم اور سفارتکاروں نے سراہا۔ یہ صرف تعلیم کی بات نہیں تھی بلکہ وژن کی بات تھی اور جب وژن میں ڈپلومیسی شامل ہو تو اس کی چمک دو چند ہو جاتی ہے۔
ڈپلومیسی فورم جیسے عالمی ایونٹس صرف فوٹو سیشن یا چائے کے وقفے نہیں ہوتے۔ یہ وہ مقام ہوتے ہیں جہاں نرم جملوں میں سخت فیصلے لپٹے ہوتے ہیں۔ ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک پیغام ہوتا ہے اور ہر مصافحے کے اندر کئی مفروضے چھپے ہوتے ہیں۔ایسے فورمز دنیا کے لیے امید کی کرن بن سکتے ہیں خاص طور پر جب بات تعلیم کی ہو۔ نوجوانوں کو مستقبل کا سرمایہ سمجھنا، تعلیم کو بقا سے جوڑنا یہی وہ سوچ ہے جو کسی بھی قوم کو بلند کر سکتی ہے۔ جب ہم واپس اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ ’’ڈپلومیسی کیا ہے؟‘‘ تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف سیاستدانوں کا ہتھیار نہیں بلکہ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔یہ وہ فن ہے جو تعلقات کو بناتا بھی ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے اور اگر کوئی اسے مہارت سے استعمال کرے تو نہ صرف دوست بناتا ہے بلکہ دشمن کو بھی قائل کر لیتا ہے۔
تو اگلی بار جب کوئی سیاستدان نہایت شائستگی سے کہے: ’’ہم نے تعلیم کو اولین ترجیح دی ہے‘‘! تو سمجھ جائیے کہ وہ یا تو واقعی سنجیدہ ہے یا بہت اعلیٰ درجے کا ڈپلومیٹ!

متعلقہ مضامین

  • ماحولیات تحفظ اسکواڈ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، مریم نواز
  • ہماری حکومت سے پہلے ملک کی حالت ابتر تھی: مریم نواز
  • پاک بحریہ کا بلوچستان کے عوام کی خدمت کے لیے اہم قدم ، اورماڑہ میں جدید اسپتال بلاک کا افتتاح
  • ن لیگ کا بنیادی ایجنڈا عوام کی خدمت ہے: عارف سندھیلہ 
  • کینسر ہوگا یا نہیں، یہ بات لائف اسٹائل کیسے طے کرتا ہے؟
  • انطالیہ سے لاہور تک مریم نواز کی عالمی ڈپلومیسی
  • اپنی چھت، اپنا گھر پروگرام کے 21 ہزار 797 گھر تکمیل کے قریب ہیں: مریم نواز
  • بیساکھی کا تہوار جفاکش کسان کی محنت کا ثمر ہے:وزیر اعلی مریم نواز
  • مریم نواز کی ترکیہ کے نائب صدر سے ملاقات، تعلیمی منصوبوں، معاشی شراکت داری کے فروغ پر اتفاق
  • پارٹی رہنما عوام کی خدمت میں دن رات ایک کردیں، چوہدری شجاعت