پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوششیں
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
لاہور: آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف نے کہا ہے کہ پاکستانی چاول کو 2027 تک آذربائیجان میں ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہے، اور پاکستانی تاجروں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے دورے کے دوران خطاب کرتے ہوئے سفیر نے کہا کہ آذربائیجان لاہور میں ایک ٹریڈ سینٹر قائم کرے گا اور دونوں ممالک کے درمیان ایک پاکستان آذربائیجان چیمبر آف کامرس بھی قائم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، براہ راست پروازوں کے آغاز کے بعد تجارت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
خضر فرہادوف نے پاکستانی تاجروں کو آذربائیجان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی اور کہا کہ آذربائیجان کے لوگ پاکستانی قوم کے لیے محبت اور احترام کے جذبات رکھتے ہیں۔
اس موقع پر صدر لاہور چیمبر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو ایک ارب ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آذربائیجان کی ادویات، کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات، اور چمڑے کی مصنوعات کی پاکستانی فراہم کردہ اشیاء کی بڑی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت، معیشت، اور دفاع کے شعبوں میں تعاون کا بڑھنا خوش آئند ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے درمیان
پڑھیں:
گولارچی: بھارتی نیوی کے ہاتھوں گرفتار پاکستانی ماہی گیر کی رہائی کی کوششیں
گولارچی (نمائندہ جسارت) چند روز قبل بھارتی نیوی نے متنازع سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے پر 22 سالہ نوجوان حافظ عرف بابلی ولدمحمد عمر ملاح نامی پاکستانی ماہی گیر کو گرفتار کیا تھا۔ واضح رہے کہ بابلی ضلع سجاول کے گاؤں محمد سومار ملاح کا رہائشی ہے، اس اثناء میں ماہی گیروں کے حقوق کے سرگرم وکیل اور سندھو لاء فرم انٹرنیشنل کے سی ای او علی چنگیزی سندھو ایڈووکیٹ ہائیکورٹ مفت قانونی خدمات دینے اور مذکورہ شخص کی بھارتی قید سے رہائی کے لیے میدان میں آ گئے۔ یہ بات ضلع بدین میں مچھیروں کے حقوق کے سرگرم کارکن اور انٹرنیشنل میڈیا اینڈ سوشل ایکٹوسٹ فورم ضلع بدین کے صدر محسن رزاق نے گولارچی میں صحافیوں سے کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کے درمیان طے پائے گئے کونسلر اکسس معاہدے 2008 میں انسانی حقوق کی بنیاد پر تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے، اس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت سال میں دو مرتبہ جنوری اور جون میں شناخت کی غرض سے گرفتار کیے گئے قیدیوں کی فہرست اور تفصیلات مہیا کریں گے، حالانکہ فہرست کا تبادلہ ٹیکنالوجی کی بدولت 6 مہینوں کے بجائے چند دنوں میں بھی ہو سکتا ہے، اس طرح اس معاہدے کی بہت سی شقیں ہیں جن کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔