پی ٹی آئی والے مذاکرات سے مخلص نہیں، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک : وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ یہ کہتے ہیں حکومت کے پاس اختیارات نہیں ہیں یہ جن کےپاس اختیارات سمجھتے ہیں پھر ان سے ہی بات کر لیں۔
قومی اسمبلی میں خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کے رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھوڑیں مذاکرات مذاکرات کے اس ڈرامےکو، کیا اس ماحول میں مذاکرات ہو سکتے ہیں؟۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کےخلاف ہیں یہ خود مذاکرات کےخلاف ہیں۔
لاہور؛ جنوبی چھاؤنی کے علاقے میں جواں سالہ لڑکی اغوا
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ لوگ تو کہتے تھے کہ ہم سےبات نہیں کریں گے اب کیوں بات کر رہے ہیں یہ لوگ بتائیں نا کہ یہ مذاکرات کیلئے کیوں تیار ہو گئے ہیں ہم ان سے مذاکرات کر رہے ہیں اور یہ ہمیں بلیک میل کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ایوان کی کارروائی چلنے نہیں دے رہے ایوان کو چلانا ان کی بھی ذمہ داری ہے یہ ایوان کی کارروائی میں خلل ڈال رہے ہیں تو ہمیں مذاکرات بھی روک دینے چاہیے اگریہ ہمیں مذاکرات کےلیے بےاختیار سمجھتے ہیں تو ان سے مذاکرات ہر گز نہیں کرنے چاہیے۔
ایل ڈی اےکوصرف ضلع لاہورتک محدودرکھنےکی سمری تیار
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: مذاکرات کے خواجہ ا صف رہے ہیں نے کہا
پڑھیں:
مدینہ منورہ ۔۔۔ یادیں اور باتیں۔۔!
(گزشتہ سے پیوستہ)
مدینہ منورہ میں ہمارا قیام ہوٹل طیبہ الطیبہ میں تھا۔ یہ تین یا چار منزلہ چھوٹا سا ہوٹل ہے جو مسجد نبوی کی جنوبی بلکہ جنوب مشرقی سمت کہنا زیادہ صحیح ہو گامیں مسجد نبوی کے جنوب مشرقی کونے کے بیرونی گیٹ نمبر 365سے زیادہ سے زیادہ دس بارہ منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بس پر آئے تو ہمیں سب سے آخر میں اس ہوٹل تک یہ کہہ کر پہنچایا گیا کہ آپ لوگوں کو مکہ مطاوی میں اتارنا ہے۔ مکہ مطاوی کا نام کیوں لیا گیا اس کی کوئی واضح وجہ سمجھ نہیں آئی۔ شاید ہوٹل طیبہ الطیبہ سے تیس چالیس گز کے فاصلے پر کونے میں جس عمارت میں اس وقت مطعم لاہور پاکستانی ہوٹل موجود ہے اس عمارت کا پرانا نام مکہ مطاوی تھا یا پھر اس کی کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے۔ خیر جیسے بھی ہو ہمارا مکہ مطاوی سے منسوب اس جگہ یا علاقے اور اس میں ہوٹل طیبہ الطیبہ میں قیام جہاں ہمارے لیے مناسب رہا وہاں باوجود دن کے وقت تیز دھوپ اور گرمی کے یہاں سے مسجد نبوی آنے جانے میں بھی کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آتی رہی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی جانے کے لیے ہوٹل سے باہر آتے تو باہر کھلی جگہ کافی تپی ہوتی تھی۔ پھرہر بار مسجد نبوی آتے جاتے کچھ فاصلے پر آگے دو رویہ بڑی شاہراہ (شارع) کے کناروں اور درمیان میں اڑھائی تین فٹ اونچی سیمنٹ کی ڈیوائیڈر کے طور پربنی دیوارو ںکو پھلانگ کر سڑک پار کرنا ہوتی تھی۔ پھر آٹھ دس منٹ آگے پیدل بھی چلنا ہوتا تھا۔ بظاہر ان میں کچھ کچھ مشکل کا سامنا ہوتا لیکن سچی بات ہے کہ شہر مقدس مدینہ منورہ میں قیام کے پورے دنوں میں یہ مشکل ہم پر بھاری نہیں ہوئی بلکہ کسی حد تک طمانیت اور خوش دلی کا پہلوہی نمایاں رہا۔
اوپر مطعم لاہور پاکستانی ہوٹل کا ذکر ہوا ہے۔ اپنے قیام مدینہ کے دوران یہاں سے دو وقت کے کھانوں اور کبھی کبھار چائے (دودھ والی) لے کر پینے کا ہمارا تجربہ بھی مناسب رہا۔ 20 جولائی کو جس دن بعد دوپہر ہم مدینہ پہنچے، اسی دن ہمارا اس ہوٹل کے کاﺅ نٹر پر بیٹھے ایک صاحب سے رابطہ ہوا۔ وہ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم سات لوگ ہیں اور ہمیں دونوں وقت (دوپہر اور رات) کا کھانا چاہیے ہو گا۔ وہ ہمیں ہوٹل کے کچن میں لے گئے اور تیار کھانے وغیرہ دکھائے اور تازہ سالن کی یقین دہانی کراتے ہوئے بتایا کہ سالن کی ایک پلیٹ جو عموماً دو آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے، اس کے ساتھ دو تین گرما گرم روٹیاں بغیر قیمت کے دی جاتی ہیں۔ اسی طرح سلاد اور رائتے کے لیے بھی الگ کوئی پیسے نہیں لیے جاتے۔ ان کے مختلف کھانوں کے ریٹ دال سبزی وغیرہ چھ سے سات ریال فی پلیٹ اور مٹن، چکن اور بریانی وغیرہ دس گیارہ ریال فی پلیٹ ہمیں مناسب لگے۔ اس کے ساتھ کھانا پیک کر کے دینے کا بھی انتظام تھا۔ واجد اور عمران دونوں وقت تین یا چار لوگوں کا کھانا پیک کرا کے ہوٹل کے کمرے میں لے جاتے تھے جو ہم سات افراد کے لیے کافی ہوتا تھا۔ چائے دودھ والی پتی وغیرہ جس کا کپ دو ریال میں ملتا تھا کبھی پینی ہوتی تھی تو میں ، عمران اور واجد ہوٹل میں چلے جاتے۔ بلاشبہ اس ہوٹل (مطعم لاہور پاکستانی ہوٹل) میں کھانا وغیرہ کھانے والوں کا کافی رَش ہوتا تھا۔ اس کے قریب ہی درمیان میں کھلی جگہ یا پلاٹ جو گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے استعمال ہوتا تھا کو چھوڑ کر دوسری عمارت میں جو ہمارے قیام کے ہوٹل طیبہ الطیبہ کے دائیں طرف تھی میں بھی ایک پاکستانی ہوٹل قائم ہے۔اس کے سامنے سے جب بھی ہمارا مسجد نبوی سے واپسی پر دن اور رات کو گزرنے کا اتفاق ہوتا تو وہاں اس کے باہر کھڑا ایک درمیانی عمر کا پاکستانی وہاں سے گزرنے والوں کو اپنے ہوٹل میں کھانے کی ترغیب دینے کے لیے آوازیں دے رہا ہوتا۔ میں ہمیشہ اسے سلام کرتا اور بتاتا کہ کھانا ہمارا سامنے والے ہوٹل سے جس سے ہماری بات طے ہے ہمارے کمرے میں آنا ہے۔ اس پر وہ کچھ مایوس ہوتا لیکن پھر بھی شکریہ ادا کرنا نہ بھولتا۔
اس ہوٹل کے ساتھ کھجوروں کی ایک دکان بھی بنی ہوئی تھی۔ اس کے باہر بھی ایک پاکستانی حاجی صاحب، حاجی صاحب کی آوازیں لگاکر وہاں سے گزرنے والوں کو کھجوروں کی خریداری کی دعوت دینا نہ بھولتا ۔ ایک دن ہم دکان کے اندر چلے گئے اور وہاں کھجوریں وغیرہ دیکھیں اوران کے نرخ وغیرہ پوچھے جوہمیں مناسب لگے۔ ان سے ہمیں کھجور وں کی دوسری دکانوں کے نرخوں سے موازنہ کرنا کچھ آسان ہوا۔ کھجوروں کی اس دکان سے کھجوروں کی خریداری کے لیے وہاں باہر کھڑے صاحب کا اصرار ہر روز ہی سامنے آتا رہا تو اس کے ساتھ ہمارے قیام
کے ہوٹل کی بیسمنٹ میں کھجوروں کی ایک دکان بھی تھی۔ اس کے سامنے سے بھی روزانہ ہمارا کئی بار آنا جانا ہوتا۔ وہاں بیٹھا سیلز مین بھی ہمیں یہ یا دہانی کرانا نہ بھولتا کہ ہمسایہ ہونے کے ناتے اس کا یہ حق بنتا ہے کہ ہم اپنی ضرورت کی کھجوریں اُسی سے خریدیں۔ ہمیں یہاں کھلی پیٹیوں یا ڈبوں میں رکھی کھجوروں کے معیار پر کچھ تحفظات تھے کہ یہ ذرا پرانی لگتی تھیں۔ اس پر ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ہمیں تازہ مال کے ڈبوں اور پیٹیوں سے کھجوریں خریدنے کو ملیں گی۔
کھجوروں کی بات چلی ہے تو ہمارے قیام مدینہ منورہ کے جولائی کے آخری عشرے کے دنوں میں ابھی تمام قسموں کی کھجوریں پوری طرح پک کر تیار نہیں ہوئی تھیں پھر بھی زیادہ تردکان دار اپنی دکان پر رکھی کھجوروں کے بارے میں دعویٰ کرتے کہ یہ تازہ فصل کی کھجوریں ہیں۔ مسجد نبوی میں آتے جاتے بعض لوگ ہاتھوں میں کھجوروں کے کھلے ڈبے اٹھائے نظر آتے جو وہاں سے گزرنے والوں کو کھانے کے لیے کھجوریں پیش کرتے۔ ہمیں بھی یہ کچی پکی لیکن انتہائی شیریں اور ذائقے دار کھجوریں کھانے کا موقع ملا۔
اس سے قبل مسجد نبوی کی شمالی سمت کے کئی منزلہ پلازوں میں بنے شاپنگ مالز سے کچھ اشیاءکی خریداری کا ذکر ہوا ہے، یہاں بھی بیسمنٹ میں کھجوروں کی دکانیںہیں اور یہاں پر بھی برآمدوں میں باہر کونے کناروں پر پاکستانی کھڑے نظر آتے ہیں جو اپنی متعلقہ کھجوروں کی دکان سے رعایتی نرخوں سے کھجوریں خریدنے کی ترغیب ہی نہیں دیتے ہیں لیکن ہاتھ پکڑ کر ساتھ لے جانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے پاکستانی ہمیں صرف یہاں ہی نظر نہ آئے بلکہ بلال مسجد کے باہراور اس کی بیسمنٹ میں بنی مارکیٹ میں ہم کچھ دوسری اشیاءکی خریداری کے خیال سے گئے تو وہاں بھی کھجوروں کی دکانوں کے باہر اسی طرح کے پاکستانی وہاں سے گزرنے والوں کو اپنی متعلقہ دکانوں سے کھجوروں کی خریداری کی آوازیں دیتے نظر آئے۔ عمران اور میں نے اس طرح کے چند ایک پاکستانیوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ ان میں سے زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق جنوبی پنجاب کے اضلاع وہاڑی، رحیم یار خان اور صادق آباد وغیرہ سے ہے اور یہ اس طرح کے کام کر کے کچھ کمائی کر لیتے ہیں۔ یہاں ہماری ایک اور پاکستانی سے بات ہوئی جس سے ہم نے کہا کہ آپ لوگ دکانوں پر سیلز مین کا یا اور کوئی زیادہ باوقار کام کیوں نہیں کرتے تو اس پر پہلے تو وہ اپنی حکومت کو کوسنے لگا کہ ہماری حکومت ہمارے لیے اور کاموں کے ویزوں کا بندوبست نہیں کرتی پھر خود ہی کہنے لگا حاجی صاحب کیا کریں ہم لوگوں کو اور کوئی کام کرنا بھی نہیں آتا اورملتا بھی نہیں ہے۔ اسی طرح کے چھوٹے موٹے کام کر کے ہم اپنی روزی رزق کا بندوبست کر لیتے ہیں۔ (جاری ہے)۔