کراچی میں شارٹ ٹرم اغواء اور شہری سے ڈیجیٹل کرنسی لوٹنے والے پولیس اہلکاروں کے ریمانڈ میں توسیع
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
سینئر سپرنٹڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل (اے وی ایل سی) انیل حیدر کے مطابق ملزمان نے شہری کے اکاؤنٹ سے 3 لاکھ 40 ہزار ڈالر اپنے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کیے، ملزمان عادی جرائم پیشہ اور اس سے قبل بھی جیل جاچکے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے شارٹ ٹرم اغواء اور شہری سے ڈیجیٹل کرنسی لوٹنے والے پولیس اہلکاروں کے ریمانڈ میں توسیع کردی۔ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) نے گرفتار پولیس اہلکاروں سمیت 8 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا، تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ کیس کی تحقیقات تاحال مکمل نہیں ہوئی، ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی جائے۔ عدالت نے تمام ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کردی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیس میں گرفتار 2 ملزمان کو مدعی شناخت کرچکا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں کراچی کے ضلع غربی سے شہری کی شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کے معاملہ پر اغوا میں ملوث پولیس اہلکار سمیت 7 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ سینئر سپرنٹڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل (اے وی ایل سی) انیل حیدر کے مطابق ملزمان نے شہری کے اکاؤنٹ سے 3 لاکھ 40 ہزار ڈالر اپنے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کیے، ملزمان عادی جرائم پیشہ اور اس سے قبل بھی جیل جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغوی شہری کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتا ہے، اسے 25 دسمبر کو اغواء کیا گیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
افغانستان: پاکستان اور ایران سے لوٹنے والے مہاجرین ایک انسانی بحران
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 اپریل 2025ء) پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے خبردار کیا ہے کہ ہمسایہ ممالک سے ہزاروں افغان مہاجرین کی واپسی اور بیدخلی کے بعد افغانستان کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔
رواں ماہ پاکستان اور ایران سے 251,000 افغان پناہ گزینوں کی واپسی ہوئی جن میں 96 ہزار کو بیدخل کیا گیا تھا۔
ادارے کو برے حالات میں افغانستان واپس آنے والے ان لوگوں کی مددکے لیے ہنگامی بنیاد پر 71 ملین ڈالر کے امدادی وسائل درکار ہیں۔ Tweet URL'یو این ایچ سی آر' کے ترجمان بابر بلوچ نے کہا ہے کہ ادارہ پاکستان اور ایران پر زور دے رہا ہے کہ افغانوں کی واپسی رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار ہونی چاہیے۔
(جاری ہے)
ان لوگوں کو واپسی کے لیے مجبور کرنے سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔تحفظ کے سنگین مسائلترجمان کے مطابق، اگرچہ ادارے کو دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک کی معاشی مشکلات سمیت انہیں درپیش بہت سے مسائل کا احساس ہے۔ تاہم جبراً افغانستان بھیجے جانے والے لوگ وہاں تحفظ کے سنگین مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
واپس جانے والی خواتین اور لڑکیوں کے لیے خطرات کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں افغانستان میں روزگار، تعلیم اور نقل و حرکت پر عائد کڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نسلی و مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو بھی واپسی پر خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ملک میں شدید انسانی ضروریات، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور قدرتی آفات نے ان خدشات کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔
34 لاکھ افغانوں کی واپسی2023 سے اب تک ایران اور پاکستان سے 34 لاکھ افغان شہری واپس جا چکے ہیں یا انہیں بیدخل کیا گیا ہے۔ ان میں 15 لاکھ لوگ گزشتہ سال ہی واپس گئے تھے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر لوگوں کی واپسی سے افغانستان کے کئی صوبوں میں وسائل پر شدید بوجھ آیا ہے۔ ایران اور پاکستان سے مزید افغانوں کی واپسی اور بیدخلی بھی جاری ہے جبکہ ان لوگوں کے یورپ کی جانب رخ کرنے کا خدشہ بھی ہے۔
گزشتہ سال ایشیائی الکاہل خطے سے یورپ کی جانب بے قاعدہ مہاجرت اختیار کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد (41 فیصد) افغانوں کی تھی۔
'یو این ایچ سی آر' کے امدادی اقداماتترجمان کے مطابق، ادارہ افغانستان واپس آنے والے پناہ گزینوں کو اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) جیسے شراکت داروں کے تعاون سے مدد مہیا کر رہا ہے۔
اس مقصد کے لیے رواں سال نومبر تک درکار 71 ملین ڈالر کے وسائل سے ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے، انہیں روزگار کی فراہمی اور اپنے خاندانوں سے یکجائی میں مدد دینے اور خدمات کی فراہمی میں مدد ملے گی۔ اس کام میں خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات بطور خاص مدنظر رکھی جا رہی ہیں۔بابر بلوچ نے کہا ہے کہ 'یو این ایچ سی آر' پاکستان اور ایران میں افغان پناہ گزینوں کو نفسیاتی اور قانونی مدد کی فراہمی اور ان کے تحفظ کی صورتحال کا جائزہ لینے کے اقدامات کر رہا ہے۔
اس ضمن میں ہاٹ لائن اور مقامی زبانوں میں ایس ایم ایس کے ذریعے پناہ گزینوں کے ساتھ رابطوں کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ انہیں خدمات کے بارے میں بروقت اطلاعات مہیا کی جا سکیں۔ علاوہ ازیں، خصوصی ضروریات کے حامل پناہ گزینوں کو مخصوص خدمات کی فراہمی کے لیے بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔