عمران خان ڈٹے ہیں، ڈیل نہیں کریں گے : ملک احمد خان بھچر
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ڈٹے ہوئے ہیں، ڈیل نہیں کریں گے۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے کہا ہے کہ 13 جنوری کو پی ٹی آئی کو سابق چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا، اس دن کو ایک سیاہ ترین دن قرار دوں گا، وہ سمجھتے تھے اس سے بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت ختم ہوجائے گی، لیکن اللہ کی ذات نے انصاف کیا، ان کے ظلم کے باوجود پی ٹی آئی آج ایک سنگل لارجسٹ پارٹی ہے،تمام جمہوریت پسند قوتیں یاد رکھیں گی ایک جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ملک احمد خان بھچر نے کہا کہ آج القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ آنا تھا اس کو تاخیر کا شکار کیا گیا ہے، ہم ڈٹے ہوئے ہیں ہم کوئی ڈیل نہیں چاہتے، سمجھ نہیں آتی کہ ٹی وی شو میں اپنے قانون دان بٹھا دیتے ہیں جو کہتے ہیں سادہ سا فیصلہ ہے، مگر ایک ماہ ہوگیا ہے ان سے فیصلہ نہیں ہورہا، بانی پی ٹی آئی ڈٹے ہوئے ہیں، وہ کھڑے ہیں، سزائیں دینی ہیں تودیں، جو مرضی کریں ہم ڈے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سائبیرین پرندے کے شکار پر پاکستان میں پابندی تھی، متحدہ عرب امارت سمیت دیگر ممالک ہمارے دوست ہیں، وزیراعلی نے ڈیڑھ پیسہ فی مرلہ پر 3 لاکھ مرلے لیزپر دیے ہیں، کوئی اس زمین کو جسٹیفائی کرے کس لیے دے رہے ہیں،کیا ووٹوں سے منتخب ہوکر اس طرح کے کام کیے جاتے ہیں اس کا جواب دینا پڑے گا۔
ملک احمد خان بھچر کہا کہ نے سوشل میڈیا پر دھی رانی پراجیکٹ شروع کیا، کہتے ہیں لاکھ روپے دیں گے، لاہور کے پوش ایریا میں اس کے بینرز لگائے ہوئے ہیں، بتائیں پوش ایریا میں کس کی بچی ہے جس کی ایک لاکھ میں شادی ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی پی ٹی آئی ملک احمد خان بھچر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی پی ٹی ا ئی پی ٹی آئی ہوئے ہیں نے کہا
پڑھیں:
مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
انسانی زندگی کے ہر دور میں کتاب اور اس کے مطالعے کو ہمیشہ بلند مقام حاصل رہا ہے لیکن موجودہ دور میں مطالعے کا شوق اب خطرناک حد تک زوال پذیر ہے۔ طالب علموں نے صرف نصابی ضروریات کی تکمیل اور امتحانات پاس کرنے کی حد تک خود کو محدود کر لیا ہے وہ نصابی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنے پر راضی نہیں، ایسے حالات میں ضروری ہو جاتا ہے کہ طالب علموں پر مطالعے کی اہمیت واضح کی جائے۔
ان پر واضح کیا جائے کہ انسان کے مزاج اور اس کی شخصیت کو متوازن رکھنے میں بہت سے عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں مگر سب سے بڑا اور فیصلہ کن کردار مطالعے کا ہوتا ہے۔ منظم مطالعہ انسانی فکر کو پختہ اور گفتگو کو پُر دلیل بنا دیتا ہے مطالعہ فکر اور نظر کو وسعت عطا کرتا ہے۔ اس سے خیالات میں بلندی اور سوچ میں معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح مطالعہ انسانی شخصیت کی تعمیر میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔
مطالعے کے ضمن میں طلبا کو ایک مشکل پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی محدود ہے، علم لامحدود، اس لیے یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنی زندگی میں سب کچھ پڑھ ڈالے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں طالب علم کیا راہ اختیار کرے۔
اس ضمن میں یاد رکھیں کہ کوئی علم بھی اپنی افادیت کے حوالے سے خالی نہیں مثلاً مذہب انسانی تخلیق کا راز بتاتا ہے اور انسان کو زندگی کا صحیح فلسفہ حیات دیتا ہے اور انسان کو فکری انتشار سے محفوظ کرکے اس کی زندگی کو معنی عطا کرتا ہے۔ اس لیے مذہب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اس کی اہمیت سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔
تاریخ کا مطالعہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، تاریخ واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ واقعات کے رونما ہونے میں سیاسی، معاشی، سماجی اور فکری اسباب پوشیدہ ہوتے ہیں اسی کو سمجھنے کا نام تاریخ ہے اس کے مطالعے سے ہمیں تاریخی شعور حاصل ہوتا ہے اس شعور کی بدولت ہم بحرانوں کا تجزیہ کرکے اس کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں بشرط یہ کہ ہم نے تاریخ کا مطالعہ تعصب کی عینک اتار کر اور آزادی فکر کے ساتھ مطالعہ کیا ہو۔
نفسیات میں انسان کی ذہنی کیفیت، طرز عمل اور کردار کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے ہمیں فرد اور اس کے طرز عمل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس طرح نفسیات میں فرد کے انفرادی طرز عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح عمرانیات (سماجیات) میں افراد یعنی معاشرے اور سماج کے اجتماعی طرز عمل اور رویے کا مطالعہ کیا جاتا ہے معاشرے یا سماج کو کس طرح اصول اور قوانین کے تحت ضابطے میں لایا جاتا ہے اس مطالعے کا نام سیاست ہے۔ نفسیات، عمرانیات اور سیاست کے مطالعے کے نتیجے میں ہمیں سماجی اور سیاسی شعور حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ان مضامین کے مطالعے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے ادب احساس کی قوت کو جگاتا ہے۔ یہ مذہب کی طرح انسان سے برائے راست مخاطب نہیں ہوتا بلکہ غیر محسوس انداز میں آنکھوں اور کانوں کے راستے آپ کے دل و دماغ میں اتر کر آپ کے زاویہ نگاہ کو بدل دیتا ہے اس سے آپ کو زندگی گزارنے کا سلیقہ حاصل ہوتا ہے۔
فنون لطیفہ مثلاً مجسمہ سازی، رقص، موسیقی اور مصوری وغیرہ ہمارے خیالات اور جذبات کو خوبصورت بناتے ہیں۔ یہ خوب صورت خیالات اور جذبات ہماری خوبصورت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں، اس لیے ادب اور فنون لطیفہ کا مطالعہ اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے ہر علم اپنی جگہ اپنی ایک افادیت رکھتا ہے کسی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تو ایسی صورت حال میں کس علم کو مطالعے کے حوالے سے خصوصی حیثیت دی جائے۔میری ذاتی رائے میں ہر موضوع پر تعارفی کتب کے طور پر واجبی معلومات لازمی حاصل کر لیں تاکہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے ضروری آگاہی حاصل ہو جائے جہاں تک خصوصی مطالعے کا تعلق ہے اس ضمن میں اسی علم کا انتخاب کیا جائے جس میں آپ کا رجحان اور دلچسپی ہو۔ کتابوں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے۔ خام ذہن کے لیے بغیر سوچے سمجھے ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
اکثر طالب علم مطالعہ کرنے کے لیے صحیح کتابوں کا انتخاب نہیں کرتے وہ ابتدا میں دقیق اور خشک موضوعات چنتے ہیں نتیجے میں وہ ابتدا میں ہی عدم دلچسپی کا شکار ہو کر مطالعے کے شوق سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مطالعے کے وقت کتب کی درجہ بندی کر لی جائے۔ ابتدا میں ابتدائی کتب کا مطالعہ کریں اوپر درجے کی وہ کتابیں جو ایک مدت بعد سمجھ میں آسکتی ہیں انھیں ابتدائی کتب کے مطالعے کے بعد زیر مطالعہ لیا جائے۔
ہر انسان کا کسی بھی چیز کو دیکھنے کا اپنا ایک زاویہ نگاہ ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بیشتر لکھنے والے جب کسی موضوعات بالخصوص کسی سیاسی موضوع پر لکھتے ہیں۔تو عموماً تصویر کا ایک رخ پیش کرتے ہیں تصویر کا دوسرا رخ نظرانداز کر دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے سے ان کا موقف کمزور ہو جائے گا۔
یہ بات درست نہیں ہے میری ذاتی رائے میں تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے سے تحریر نہ صرف دلکش ہو جاتی ہے بلکہ پراثر بھی اس لیے پڑھنے والوں کو ایسی کتابوں کا انتخاب کرنا چاہیے جس کے لکھنے والے متوازن سوچ کے حامل ہوں۔ انتہا پسندانہ تحریر کے مطالعے کے نتیجے میں انسان نہ صرف تنگ نظر ہو جاتا ہے بلکہ مطالعے کی افادیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ لسانی تعصبات اور فرقہ واریت پر مبنی کتب کے مطالعے سے گریز ضروری ہے ایسی کتب کے مطالعے سے انسان میں منفی جذبات جنم لیتے ہیں اور انسان ایسی چمگادڑ بن جاتا ہے جسے روشنی میں بھی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔
انسان کی ترجیحات میں اس کے معاشی سماجی اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کو اولین حیثیت حاصل ہے اس لیے مطالعے کے لیے اپنا مناسب وقت مقرر کریں اس میں اتنا غرق نہ ہوں کہ زندگی کے باقی امور متاثر ہوں ان سب میں توازن ضروری ہے۔