فیکٹ چیک: لاس اینجلس آگ سے محفوظ گھر کی وائرل تصاویر؛ حقیقت کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
لاس اینجلس کی خطرناک آتشزدگی میں اب تک ہزاروں گھروں کے جلنے کی اطلاعات کے درمیان ایک گھر کے اس خوفناک آگ سے بچ جانے کی خبر اور تصاویر وائرل ہورہی ہیں۔
کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگنے والی اس آگ کی تباہی کے دوسرے دن ہی سوشل میڈیا پر مختلف کیپشنز کے ساتھ ایک تصاویر وائرل ہونا شروع ہوئی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس خوفناک آگ سے آبادی کے درمیان موجود ایک گھر بالکل محفوظ رہا ہے۔
مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے عقائد سے اس واقعے کو جوڑتے ہوئے تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ الگ الگ کیپشن دیے تھے اور ساتھ ہی ’’الجزیرہ‘‘ جیسے معتبر ذرائع ابلاغ کا نام بھی استعمال کیا تھا۔
تاہم اب فیکٹ چیک کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ وائرل تصویر جسے لاس اینجلس واقعے سے جوڑا جارہا ہے دراصل دو سال قبل اگست 2013 میں ہوائی میں ہونے والی آتشزدگی کے بعد کی ہے۔
فیکٹ چیک کے دوران وائرل تصویر کے گوگل ریورس امیج سرچ کے مطابق سرخ چھت اور سفید دیواروں والا یہ مکان ہوائی میں لاہینا کی مشہور ہائی اسٹریٹ میں خوفناک آتشزدگی سے بچ جانے والا مکان تھا، جس کے اردگرد تباہ تباہ شدہ مکانوں کی راکھ دکھائی دے رہی ہے۔
اس واقعے کی خبر سامنے آنے پر بھی لوگوں نے سوال کیا تھا کہ آیا تصویر حقیقی ہے یا اسے ڈیجیٹل طور پر تبدیل کیا گیا ہے؟ لیکن 4 ملین ڈالر مالیت کے گھر کے مالکان نے تصدیق کی تھی کہ یہ بالکل حقیقی ہے۔
دوسری جانب لاس اینجلس واقعے میں ایک اور گھر آتش زدگی سے محفوظ رہا ہے لیکن وہ گھر اس وائرل تصویر سے مختلف ہے۔
تحقیقات کے مطابق لاس اینجلس کی آتشزدگی میں بچ جانے والا یہ تین منزلہ گھر امریکی سرمایہ کار ڈیوڈ اسٹینر کی ملکیت ہے۔ 9 ملین ڈالر مالیت کا یہ گھر انھوں نے ایک امریکی پروڈیوسر سے خریدا تھا۔
رپورٹس کے مطابق اس گھر کے آتشزدگی سے محفوظ رہنے کی وجہ اس آگ اور زلزلہ پروف ہونا ہے، اس گھر کی بناوٹ میں استعمال ہونے والا میٹریل یہاں تک کہ چھت کو بھی آگ سے محفوظ رکھنے کےلیے بنایا گیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ تین منزلہ گھر مکمل طور پر محفوظ رہا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لاس اینجلس ا تشزدگی سے محفوظ
پڑھیں:
کراچی میں کورونا پھیلنے لگا
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ کورونا، انفلوئنزا ایچ 1 این 1 اور سردیوں کے دیگر وائرل انفیکشن کی علامات ملتی جلتی ہیں۔
ڈاؤ اسپتال کے ماہر متعدی امراض پروفیسر سعید خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں بڑی تعداد میں لوگ نزلہ، کھانسی اور بخار میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
ماہر متعدی امراض ڈاؤ اسپتال کے مطابق ٹیسٹ کروانے پر 25 سے 30 فیصد مریضوں میں کورونا مثبت آ رہا ہے، 10سے 12 فیصد مریضوں میں انفلوئنزا ایچ 1 این 1 کی تصدیق ہو رہی ہے۔
ڈاو اسپتال کے پروفیسر سعید خان کا کہنا ہے کہ 5 سے 10 فیصد بچوں میں سانس کی نالی کے انفیکشن کی تصدیق ہو رہی ہے۔
دوسری جانب سول اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر نظام شیخ کا کہنا ہے کہ اکثر مریض ٹیسٹ نہیں کرواتے جس کے باعث بیماریوں کی تصدیق نہیں ہوتی، سول اسپتال میں وائرل انفیکشن کے یومیہ 200 مریض آرہے ہیں۔
جناح اسپتال میں شعبہ ایمرجنسی کے انچارج ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ جے پی ایم سی میں وائرل انفیکشن کے یومیہ 150 سے 200 مریض آرہے ہیں۔
ترجمان محکمہ صحت سندھ کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں فی الوقت کورونا کے ٹیسٹ کی سہولیات نہیں ہیں، کورونا وبا کے بعد لوگوں نے ٹیسٹ کروانا چھوڑ دیے تھے۔
طبی ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وائرل انفیکشن اور دیگر بیماریوں سے بچنے کیلئے شہری احتیاطی تدابیر لازمی اپنائیں، شہری ماسک لازمی پہنیں اور خود کو ڈھانپ کر رکھیں۔
طبی ماہرین کی جانب سے ہر سال انفلوئنزا کی ویکسین لازمی لگوانے کی بھی ہدایت کی جارہی ہے۔