ڈین لارنس کی شاندار کارکردگی کی بدولت ڈیزرٹ وائپرز کی آئی ایل ٹی 20 میں 7 وکٹوں سے کامیابی
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
ڈین لارنس کی شاندار کارکردگی کی بدولت ڈیزرٹ وائپرز کی آئی ایل ٹی 20 میں 7 وکٹوں سے کامیابی WhatsAppFacebookTwitter 0 13 January, 2025 سب نیوز
ابوظہبی:ابوظہبی کے زاید کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں ڈیزرٹ وائپرز نے ابوظبی نائٹ رائیڈرز کو 7 وکٹوں سے ہراکر اپنی مہم کا آغاز کیا۔ ڈین لارنس اور سیم کرن کی نصف سنچریوں کی بدولت وائپرز نے 167 رنز کے ہدف کو آسانی سے حاصل کرلیا ۔ ڈین لارنس نے 39 گیندوں پر 70 رنز بنائے جبکہ سیم کرن 37 گیندوں پر 50 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔اس سے قبل وائپرز نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ فل سالٹ نے 49 گیندوں پر 71 رنز کی ناقابل شکست نصف سنچری بنا کر اننگز کا آغاز کیا۔ علی شان شرفو نے 46 رنز کی اہم اننگز کھیلی جبکہ آندرے رسل نے 30 رنز کی تیز ترین اننگز کھیل کر کامیابی حاصل کی۔ڈیزرٹ وائپرز نے رنز کے تعاقب کا آغاز اچھا کیا
انہوں نے پاور پلے میں 46 رنز بنائے۔ فخر زمان 23 رنز کی اننگز میں تین چوکے اور ایک چھکا لگا کر اچھی فارم میں نظر آئے اور پانچویں اوور میں آندرے رسل نے انہیں آؤٹ کر دیا۔ اس کے فورا بعد ایلکس ہیلز کی 10 رنز کی محتاط اننگز آٹھویں اوور میں سنیل نارائن کے ہاتھوں ختم ہوئی اور وائپرز کا اسکور 56/2 ہوگیا۔شاہد بھٹہ نے 18 ویں اوور میں ڈین لارنس کی وکٹ حاصل کرکے ڑی شراکت کا خاتمہ کیا۔ اس وقت کامیابی کے لئے 16 رنز درکار تھے اور شیرفین ردرفورڈ نے سیم کرن کا ساتھ دیا اور وائپرز نے 18.
اوپنر فل سالٹ نے نائٹ رائیڈرز کو آگے لے جانے کی ذمہ داری اٹھائی اور وہ 71 رنز بناکر ناقابل شکست رہے۔ سالٹ نے اپنی 49 گیندوں کی اننگز میں 4 چھکے اور 5 چوکے لگائے۔مائیکل پیپر 11 رنز کی مختصر اننگز کے بعد رن آؤٹ ہوئے اور علی شان شرفو کو موقع فراہم کیا۔ شرفو نے 34 گیندوں پر 46 رنز کی اہم اننگز کھیل کر پوزیشن مستحکم کی ۔ شرفو کے جانے کے بعد آندرے رسل نے صرف 14 گیندوں پر 30 رنز بنا کر اننگز کو سنبھالا دیا ۔ رسل نے رن آؤٹ ہونے سے قبل دو چوکے اور تین چھکے لگائے جس کی بدولت نائٹ رائیڈرز نے مقررہ 20 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 166 رنز بنائے۔میچ کے بہترین کھلاڑی ڈین لارنس نے اپنی اننگز اور آئی ایل ٹی 20 میں اپنے وسیع تجربے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال بہت اچھی تھی یہ جانتے ہوئے کہ مجھے خود کو وقت دینا ہوگا۔ ابوظی نائٹ رائیڈرز کے کپتان سنیل نارائن نے کہا کہ ہم نے میچ میں واپسی کے لئے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے پاس ایک مشکل پاور پلے تھا اور ہم یقینی طور پر مزید رنز چاہتے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ پہلے چھ اوورز میں فرق تھا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ڈیزرٹ وائپرز ڈین لارنس
پڑھیں:
مریم نواز کی بھول
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کارکردگی اور بیانیہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، بیانیہ وہ بناتے ہیں جن کے پاس کارکردگی دکھانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ معروف اور تجربہ کار سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون وزیر اعلیٰ کی اس بات کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے؟ اس حوالے سے ایک بڑی مثال چودھری پرویز الٰہی کی ہے جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہر خاص و عام کے لیے دستیاب رہتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے، سیاسی میدان میں بھی پوری طرح سے سرگرم رہے لیکن 2008 ء کے انتخابات میں کھیل سے باہر ہو گئے پھر اقتدار میں شراکت کے لیے پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنا پڑا۔ کیونکہ مخالفین کے برعکس ان کے پاس کوئی بیانیہ نہیں تھا یا یوں کہہ لیں کہ مخالفین کے بیانیے کا توڑ نہیں کر سکے۔ نواز شریف نے سیاست کا آغاز جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں کیا۔ وزیر خزانہ بنے پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں وزیر اعلیٰ پنجاب بن کر بہت زیادہ ترقیاتی کام کرائے، پارٹی سیاست پر بھرپور محنت کی اور عوام کے ساتھ بھی گھل مل کر رہے۔ 1988ء کے انتخابات میں جب پیپلز پارٹی کی حمایت میں عوامی لہر چل رہی تھی تو نواز شریف نے مخالف قوتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بیانیہ بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف مسلم لیگ کے صدر بن گئے بلکہ 1990 ء کے انتخابات جیت کر وزیر اعظم بھی بن گئے۔ ایسی پالیسیاں اختیار کیں جس سے پختہ انفراسٹرکچر بنا جو پاکستان کو اقتصادی طور پر آگے بڑھانے لگا۔ موٹر ویز سمیت سب سے زیادہ ترقیاتی کام کرائے لیکن اس دوران ایک بھرپور سیاسی بیانیہ بھی اپنائے رکھا۔ 1993ء میں اسٹیبلشمنٹ کے گاڈ فادر صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد ’’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کا بیانیہ اختیار کر کے ناقابل تسخیر عوامی رہنما بن گئے۔ اسی بیانیے کی بنیاد پر دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے انہیں ہٹانے کے لیے جنرل مشرف کو مارشل لا لگانا پڑا۔ 2013 ء میں تیسری بار وزیر اعظم بنے تو یہ بھی بیانیے اور کارکردگی کا مشترکہ پھل تھا۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے تو آج تک جو کمالات دکھائے اور جو کچھ کیا وہ محض بیانیے کا کھیل ہی ہے ورنہ ان کی کارکردگی تو ملک و قوم کے لیے کئی حوالوں سے تباہ کن ثابت ہوئی۔ آگے جانے سے پہلے تھوڑا پیچھے جھانکیں تو ذوالفقار علی بھٹو جو بلاشبہ بڑے اور ہر دلعزیز لیڈروں میں سے ایک تھے کی ساری مقبولیت جنرل ایوب مخالف بیانیے کی مرہون منت تھی۔ آج جب کے عالمی حالات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سوچی سمجھی پالیسیوں کے نتیجہ میں ماحول ایسا بن چکا ہے کہ بیانیہ ہر چیز پر حاوی ہو جاتا ہے تو اس سے انکار ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کارکردگی اور بیانیہ لازم و ملزوم ہیں۔ پی ٹی آئی 2013 ء سے، کے پی کے میں حکومت کر رہی ہے۔ صوبے کے حالات ہر لحاظ سے مخدوش ہیں لیکن 2024 ء میں بھی یہ بیانیہ ہی ہے کہ جس نے پی ٹی آئی کو تقریباً کلین سویپ کرا دیا۔ مریم نواز جس محنت اور لگن کے ساتھ مختلف عوامی، فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کرا رہی ہیں وہ کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں۔ پنجاب میں اہم عہدوں پر تقرریاں اور تبادلے میرٹ پر ہو رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا اس کارکردگی سے ان کی یا مسلم لیگ ن کی پرانی ساکھ بحال ہو رہی ہے تو اس کا ایک ہی جواب ہے، نہیں۔ مسلم لیگ ن سیاسی اور تنظیمی طور پر کہیں نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب میں ارکان اسمبلی ہی نہیں وزرا بھی گلے شکوے کرتے پائے جا رہے ہیں۔ صرف سرکاری تقریبات کے دوران شرکا کے ساتھ گھل مل کر سلفیاں بنانے کو عوامی سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ پارٹی متحرک نہ ہو تو محلے کی سطح کے عہدیدار بھی لوگوں سے منہ چھپا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لاہور کا ایک بزنس مین جو چند ماہ پہلے تک ن لیگ میں شمولیت کے لیے تیاری کر رہا تھا اب کہتے پایا گیا ہے کہ ن لیگ کا حال ق لیگ سے بھی خراب ہو رہا ہے۔ ق لیگ کے دور میں چودھری پرویز الٰہی نہ صرف وزرا، ارکان اسمبلی بلکہ پارٹی کے عام عہدیدروں اور کارکنوں کو نہ صرف وقت دیتے تھے بلکہ ان کے کام ترجیحی بنیادوں پر کرتے تھے۔ اس سب کے بعد بھی بیانیہ نہ ہونے کے سبب انہیں اپنی سیاست بچانے کے لیے پی ٹی آئی میں جانا پڑا۔ وزیر اعظم شہباز شریف مزاجاً غیر سیاسی ہیں مگر مریم نواز کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ کراؤڈ پلر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی سیاست کو آگے بڑھائیں گی۔ بھر پور سیاست اور بیانیہ کے بغیر اچھی سے اچھی کارکردگی بھی ایسے ہی ہے جیسے کوئی بیورو کریٹ شاندار پرفارمنس پیش کر کے ریٹائر ہو کر منظر سے غائب ہو جائے۔ بیانیہ کے حوالے سے مریم نواز کی اپنی سوچ جو بھی ہو یہ طے ہے کہ حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھ کر بیانئے کی طے شدہ لائن اختیار کیے بغیر سیاسی شطرنج کے کھیل میں شریک رہا ہی نہیں جا سکتا۔ مریم نواز نے بیانیہ اور کارکردگی کو متضاد عمل کسی وقتی سیاسی ضرورت کے تحت کہا ہے تو اور بات لیکن اگر وہ حقیقتاً ایسا سمجھتی ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔